یوم ِآزادی اور اسلام کی اجنبیت

288

اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی پاکستانی عوام یوم آزادی منانے کی تیاریاں شروع کردیتے ہیں۔ گلیوں، محلوں اور بازاروں کو سجایا جاتا ہے، ہر طرف قومی پرچموں کی بہار نظرآنے لگتی ہے۔ پھر یومِ آزادی کے موقع پر ہم وطنوں کی اکثریت رقص و موسیقی کی محفلوں اور آتش بازی کی صورت میں جشنِ آزادی مناتی ہے۔ اس حوالے سے میڈیا بھی ان فضولیات کو فروغ دینے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کچھ نادان اس موقع پر جشن مناتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ قیام پاکستان کا مقصد کیا تھا۔
ملک میں ایسے بہت سے عناصر ہیں جو لبرل ازم کو فروغ دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ اپنے مغربی آقاؤں کے اشارے پر قیامِ پاکستان کے بعد ہی سے ان کی تمام کوششوں کا مرکز و محور یہی رہا کہ اس ملک میں اسلامی نظام کا راستہ روکا جائے، جبکہ قیامِ پاکستان کا مقصد ہی یہ تھا کہ یہاں اسلامی نظام نافذکیا جائے گا۔
اسلام کی مخالف تمام عالمی طاقتوں کی سازش رہی کہ پاکستان میں اقامتِ دین کی راہ میں آسمان تک دیوار کھڑی کردی جائے۔ اس حوالے سے لبرل حضرات اوّل روز سے یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر نہیں بنا، بلکہ یہ مسلمانوں کے لیے بنا، اور نظامِ حکومت سیکولر ہی ہوگا۔ جبکہ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح سمیت تحریکِ پاکستان کے تمام رہنما مسلسل یہ کہتے رہے کہ پاکستان کو اسلام کے نام پر حاصل کیا جارہا ہے، اور یہ کہ قرآن ہی ہمارا آئین ہوگا۔
دراصل اسلام کا راستہ روکنے کی سازشوں کی وجہ یہ تھی کہ بیوروکریسی سمیت ریاست کے طاقتور ادارے انگریز کے تربیت یافتہ تھے۔ وہ انگریزوں کی طرح سوچتے اور اُن ہی کے طرزِ زندگی کے دلدادہ تھے۔ دنیا کی ساری لذتیں یعنی چاروں ـ’’شین‘‘ (شراب، شباب، شکار اور شطرنج) ان کی زندگی کا محور تھے۔ ریاستی اداروں کے کرتا دھرتا اور ملک کی اشرافیہ ان ہی کو زندگی کا حاصل سمجھتے رہے، اور اس میں کرپشن کو بھی شامل کرلیا۔ کرپشن رفتہ رفتہ پورے معاشرے کے رگ و پے میں اترتی چلی گئی۔ اس لیے وہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے کہ پاکستان میں اسلامی نظام آجائے۔
دوسری طرف قیام پاکستان کے بعد عوام کو بہت امیدیں وابستہ تھیں کہ ان کے ملک میں اسلامی اصولوں پر عمل ہوگا۔ قیام پاکستان کے چند سال بعد ہی قراردادِ مقاصد منظور کی گئی، وہ ملک میں اسلامی نظام کی بنیاد تھی اور ہر آئین کا دیباچہ رہی، پھر 1985ء میں اسے آئین کا حصہ بنادیا گیا۔ اس میں واضح طور پر درج ہے کہ حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے، جو پوری کائنا ت کا مالک ہے۔ 1973ء کے آئین میں یہ بات درج ہے کہ ملک میں قرآن وسنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا۔
قیامِ پاکستان کے بعد اسلام دشمن عناصر نے یہ بے بنیاد پروپیگنڈہ شروع کیا کہ مسلمانوں میں بہت سے فرقے ہیں، کس فرقے کے اسلام کو نافذ کیا جائے! اس پر ملک کے تمام فرقوں اور مسالک کے علماء کراچی میں جمع ہوئے اور نظامِ مملکت کے لیے 22 نکات کی متفقہ طور پر منظوری دی۔ اس کے بعد سے اب تک تمام علماء اور مکاتیبِ فکر کے لوگ اسلامی نظامِ حکومت پر متفق رہے ہیں۔
بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے قیامِ پاکستان کے پہلے دن 14اگست کو کراچی میں علامہ شبیر احمد عثمانی سے قومی پرچم لہرانے کوکہا، جبکہ ڈھاکہ میں قائداعظم کی ہدایت پر مولانا ظفر احمد عثمانی نے پاکستان کا پرچم لہرایا۔ یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ مملکت کا نظام اسلام کی بنیادوں پر استوار ہوگا۔ قائداعظم کی متعدد تقاریر کے اقتباس حوالے کے طور پر پیش کیے جاسکتے ہیں، جن میں انہوں نے واضح اور دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ اس ملک کا نظام ’اسلام‘ ہوگا۔
قائداعظم کو مملکت کے ابتدائی امور اور اس کی بنیادیں رکھنے میں اس امر کی مہلت ہی نہ مل سکی کہ وہ ملک کے آئین کو تیار کرسکتے۔ قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی بانیِ پاکستان نے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ جبکہ تین سال بعد ہی یعنی 16اکتوبر 1951ء کو ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں شہید کردیا گیا۔ اس کے بعد اُن عناصر کو زمامِ اقتدار سنبھالنے کا موقع مل گیا، جو اوّل روز سے اسلام کے دشمن تھے، اور اسلام کے نام ہی سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا ان کی روح قبض ہورہی ہو۔
اس کے بعد سازشوں کے ایسے سلسلے شروع ہوئے کہ ان کا اب تک خاتمہ نہیں ہوسکا، اور حکمرانوں کا طرزعمل اسلام کے ساتھ ویسا ہی رہا، جیسا کہ ان کے انگریز آقاؤں کا تھا۔ ملک کی تاریخ میں طویل عرصے تک فوج حکمرانی کرتی رہی، حالانکہ اس کا کام صرف سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ بہت کم عرصے جمہوریت رہی اور وہ بھی برائے نام۔
ان کی سازشیں کامیاب رہیں اور اب اس ملک میں اسلام اجنبی بنایا جاچکا ہے جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ تعلیمی اداروں کے نصاب سے اسلام کی تعلیمات کو خارج کرکے انہیں صرف اسلامیات کے مضمون تک محدود کیا جارہا ہے۔ نصاب سے اسلام کی بنیادی تعلیمات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے تذکرے نکال دیئے گئے ہیں۔ جبکہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں جہاں پہلے ہی کیمبرج سسٹم ہے، اسلام اور پاکستان کا کوئی تذکرہ ہی نہیں۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ 74سال سے ایک گہری سازش کے تحت ملک کے نظام کو ایڈہاک ازم پر چلایا جارہا ہے۔ انگریزوں کے بنائے ہوئے 1935ء کے قوانین اور ضابطے آج بھی ہمارے ملک میں چلتے ہیں۔ حتیٰ کہ ملک کے فوجداری اور دیوانی قوانین بھی انگریزوں ہی کے بنائے ہوئے ہیں۔ ان ہی کا بنایا ہوا نظامِ تعلیم ہے، ان ہی کے قوانین پر عدلیہ، بیوروکریسی اور فوج کا نظام چل رہا ہے۔
ملک کی ترقی میں نوجوان نسل بنیادی کردار ادا کرتی ہے، لیکن ہمارے ملک میں نظام تعلیم ہی کنفیوژن کا شکار ہے۔ پہلے دو نظامِ تعلیم تھے، اب ان کی بہت سی اقسام ہیں۔ یعنی دینی مدارس، سرکاری تعلیمی اداروں کا نظامِ تعلیم، پرائیویٹ انگریزی تعلیمی ادارے اور کیمبرج سسٹم۔
اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک میں امریکا اور برطانیہ کے ایجنٹوں اور گماشتوں کے علاوہ قادیانیوں کی سازشیں بھی کارفرما رہیں۔ اور خاص طور پر حکمراں طبقہ، جاگیرداری اور قبائلی نظام اس میں بڑی رکاوٹ رہے اور ہیں۔ ایسی صورت میں مسئلے کا حل کیا ہوسکتا ہے؟ کیا عوام اپنے طور پر کچھ کرسکتے ہیں؟ جبکہ ملک کی 90 فیصد سیاسی جماعتیں موروثی سیاست پر چل رہی ہیں، اور انہیں صرف اقتدار اور کرسی کے حصول سے دلچسپی ہے۔ ملک کے مستقبل کی ان کی نظروں میں کوئی حیثیت نہیں۔ صورت حال بہت مایوس کن ہے، ہر طرف تاریکی ہی تاریکی ہے۔ کہیں بھی امید کی مدھم سی کرن بھی نہیں۔
ملک کی تاریخ کے حوالے سے اس سال یعنی اگست 2021ء سے ہم 75ویں سال میں داخل ہورہے ہیں، اور اگلے سال 14 اگست کو پاکستان کے قیام کو 75سال مکمل ہوجائیں گے۔ اس موقع پر بھی سرکاری سطح اور میڈیا پر رقص و سرود کی محفلیں اور بھنگڑے ہوں گے۔
سوال یہ ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں اسلامی نظام کیسے نافذ کیا جائے؟ جہاں کے عوام کی اکثریت بھی یہی چاہتی ہے، لیکن حکمراں طبقے کے ہاتھوں یرغمال ہے اور حکمراں طبقہ مغرب کے ہاتھوں۔
میں اس حوالے سے کسی بھی خونیں انقلاب اور بغاوت کے حق میں نہیں۔ کیونکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو اس کا حکم دیا اور نہ ہی اس کی مثال ملتی ہے۔ ہمیں اسلامی نظام کے لیے نبویؐ طریقہ کار اپنانا ہوگا۔ اسلامی جماعتوں اور اسلام کے تمام علَم برداروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر اس کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔ یہ جدوجہد سیاسی ہونی چاہیے۔ جماعت اسلامی پہلے دن سے اس کے لیے سرگرم ہے، اور اس ملک کے آئین کی اسلامی بنیادوں میں جماعت اسلامی ہی کا کردار ہے۔
دوسری جانب ملک میں ان عناصر کو بڑے پیمانے پر تعلیمی ادارے قائم کرکے وہاں اسلامی نظامِ تعلیم کو فروغ دینا ہوگا۔ یہ کام اب بھی ہورہا ہے۔
اس کے علاوہ اسلامی عناصر کو اپنے میڈیا ہاؤسز قائم کرنا ہوں گے، تاکہ عوام کے ذہنوں سے یہ تاثر ختم کیا جائے کہ اسلامی نظام کا مطلب چوروں کے ہاتھ کاٹنے سمیت سخت اسلامی سزاؤں کا نفاذ، خواتین کو زبردستی پردہ کرانا اور مردوں کو زبردستی داڑھیاں رکھنے پر مجبور کرنا ہے۔ یہ تاثر اسلام دشمن عناصر نے قائم کیا ہے۔ میڈیا ہاؤسز سے میری مراد ٹیلی ویژن چینلز ہیں۔
پاکستان اپنے قیام کے 75ویں سال میں داخل ہورہا ہے، ایسا کیا کیا جائے کہ قیامِ پاکستان کا بنیادی مقصد یعنی اسلامی نظام یا اقامتِ دین کا مقصد پورا ہو، تاکہ عوام خوشحال ہوسکیں اور مہنگائی سمیت انہیں متعدد عذابوں سے نجات مل سکے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔

حصہ