ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کا انٹریو

299

طاہر مسعود: آپ علمی و ادبی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سماجیاتی سطح پر بھی فعال رہتے ہیں‘ آپ کے بارے میں ایک تاثر یہ ہے کہ آپ ہر سال بھارت میں جو سیمینارکرتے ہیں اور پاکستان سے بھی ادیبوں کو مدعو کرتے ہیں اس میں آپ کی پبلک ریلشنگ کا بھی خاصا عمل دخل ہوتا ہے‘ یہ الزام کس حد تک درست ہے؟
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ: ایک چیز ہے پبلک ریلیشنگ اور ایک چیز ہے سیلف پروموشن‘ میری پبلک ریلیشنگ اردو کے لیے ہے‘ اپنی ذات کے لیے نہیں ہے۔ اردو کی خاطر میں ہر الزام اپنے سر لینے کو تیار ہوں۔ اردو سے میرا جو کمٹ منٹ ہے اس کی خاطر میں ملامتوں کے درمیان زندگی بسرکرنے کو تیار ہوں۔ یہ الزام تو اپنوں کی طرف سے لگائے جاسکتے ہیں لیکن ہندوستان کے ماحول میں غیروں کی جانب سے کیا کیا الزامات لگائے جاسکتے ہیں اس کا بھی آپ تصور کرسکتے ہیں۔ میں ان کی باتیں سنتا ہوں تو بھی اپنی راہ سے نہیں ہٹتا ہوں اور یہ باتیں سب پیاری پیاری باتیں ہیں۔ زبان سے میرا کمٹ منٹ اس درجہ راسخ ہے کہ میری اپنی ذات‘ اپنا خاندان‘ اپنے گھر کے لوگ‘ ان سب چیزوں کی حیثیت اردو زبان کے مقابلے میں ثانوی ہے۔ سیمینار ہو یا کانفرنس‘ جو لوگ اسے ظاہری نظر سے دیکھتے ہیں‘ ان کے نزدیک یہ پبلک ریلیشنگ بھی ہوسکتی ہے اور سیلف پروموشن بھی لیکن کیا درد ہے جس کی وجہ سے میں ایسا کم کرنے کے لیے مجبور ہوں۔ اس میں میری اپنی ذات کی منفعت بالکل نہیں ہے‘ بہت سی کانفرنسیں رسماً ہوتی ہیں لیکن میں کوئی کام رسماً نہیں کرتا۔ جب بھی میں نے کسی سیمینار میں ہاتھ ڈالا ہے اس کی علمی و ادبی حیثیت کو تسلیم کیا گیا ہے‘ مثلاً جب میں نے محسوس کیا کہ افسانہ ایک دورائے پر ٹھٹھکا ہوا ہے اور ضرورت ہے کہ بعض بنیادی سوالات پر غور و فکر کے لیے لوگ جمع ہوں‘ تبادلہ خیال کریں تاکہ تخلیق کی نئی راہیں روشن ہوں‘ تب میں نے کہا کہ آیئے ہم مل بیٹھتے ہیں۔ اس میں کسی مکتب فکر کی قید نہیں ہے۔ اردو کی روایت سے سب بڑے ہوتے ہیں اور اردو کی ترقی اور اس کے مستقبل سے سب لوگ کمیٹڈ ہیں اس کے لیے بہت وقت صرف ہوتا ہے‘ قربانی دینی پڑتی ہے صرف اس لیے کہ وہ زبان جس کے تئیں میں کمیٹڈ ہوں‘ اس کے فن کاروں کا تخلیقی سفر جاری رہے اور زبان کا مستقبل روشن ہو۔
طاہر مسعود: ترقی پسندوں سے آپ کا جو جھگڑا ہے‘ اس کا بڑا چرچاہے‘ وہ آپ سے اور آپ ان سے خفا رہتے ہیں‘ اس کے اسباب خالصتاً ادبی نوعیت کے ہیں یا اس کا تعلق کسی اور بھی چیز سے ہے؟
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ: ترقی پسندوں سے میرا جو جھگڑا ہے‘ اس کے بارے میں غلط فہمیاں زیادہ ہیں اور اس میں اصلیت کم ہے۔ اس کے اسباب اتنے ادبی نہیں ہیں جتنے غیر ادبی ہیں۔ اس میں زیادہ دخل ذاتی مقاصد‘ رشک و رقابت اور حسد کا ہے۔ اگر ایک میدان میں کچھ لوگ کام کر رہے ہیں اور آپ اپنی بری بھلی صلاحیت کی وہ سے ان سے آگے نکل جاتے ہیں تو پھر وہ طرح طرح کی الزام تراشی اور کردار کشی شروع کر دیتے ہیں۔ ترقی پسندوں کے بارے میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں‘ کیا عرض کروں۔ ترقی پسندوں نے ادب کی جو تعبیر کرنی شروع کر دی تھی اور جس کے نتیجے میں ایک خاص طرح کا ادب سامنے آنے لگا تھا‘ حقیقت کی ترجمانی کے طرف ایک تعبیر جسے وہ آج بھی جائز سمجھتے ہیں اور سب کو ایک لکیر پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں‘ میں اس کا بھی مخالف ہوں۔ جہاں تک عوام کے دکھ درد کا تعلق ہے‘ سرمایہ داری یا نوآبادتی نظام کی مخالفت کا تعلق ہے اور ان تمام طاقتوں کی مخالفت کا تعلق ہے جو جبر و استبداد روا رکھتی ہیں‘ میں ان کا مخالف ہوں لیکن ادب کی ایسی تعبیر کے خلاف ہوں جو ذہن پر پہرے بٹھاتی ہو۔ میرا خیال ہے ایک سچے اور کھرے ادب کا پہلا فریضہ یہ ہے کہ وہ خود کو آزاد کرے۔ میں شدید طور پر باغی انسان اور آزاد خیال آدمی ہوں۔ اس آزاد خیالی میں ظاہر ہے انسانی ہمدردی‘ عوامی درد اور سامراج دشمنی یہ سب چیزیں شامل ہیں لیکن ادب کی دنیا میں فن پارے پر جس طرح اصرار میں کرتا ہوں‘ اس سے بعض لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ تکلیف بھی اس نوعیت کی کہ جیسے ان کی اجارہ داری کو ٹھیس پہنچتی ہو۔ا گر کسی کی اجارہ داری کو میرے ادبی مؤقف کی وجہ سے ٹھیس پہنچتی ہے تو وہ ٹھیس بربنائے غیر ادبی مفادات پہنچے گی‘ اس کی میں پرو انہیں کرتا۔ میرا نقطہ نظر خالص انسانی اور ادبی ہے۔ باقی اگر کوئی حسد کرتا ہے یا الزام تراشی کرتا ہے تو میرا ضمیر صاف ہے۔ بعض لوگ گروہ بناتے ہیں‘ سازشیں کرتے ہیں اور ہر وہ شخص جو ان کے کہنے پر نہیں چلتا‘ اس کے خلاف بہتان تراشی کرتے ہیں۔ ترقی پسندوں کی تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ جب اس طرح کی حرکتیں دوسروں کے بارے میں کی گئیں اور انہیں بد ترین لیبلوں سے نوازا گیا‘ انہیں رجعت پسند کہا گیا۔ آپ غور فرمایئے ایک طرف میں اپنے آپ کو ترقی پسند کہوں حالانکہ میں سرمایہ داری کے ساتھ گٹھ جوڑ کرتا ہوں‘ خطابات بھی لیتا ہوں‘ بیورو کریسی کا حصہ بھی ہوںاور پھر اپنے آپ کو ترقی پسند کہوں لیکن دوسرے جو میرے ساتھ نہ ہوں لیکن ادب کے معاملے میں کمیٹڈ ہوں‘ مجھ سے زیادہ لبرل اور انسان دوست ہوں لیکن چونکہ وہ میری دی ہوئی لیک پر نہیں چلتے اس لیے میں ان کے بارے میں تو کہوں کہ وہ رجعت پسند ہیں۔ یہ جو طریقہ کار ہے یہ غیر ادبی ہے۔ گروہ بناتی ہیں‘ بھیڑیں‘ شیر تو جنگل میں اکیلا چلتا ہے۔ میرا منصب تو یہ ہے کہ خواہ کوئی کتنی مخالفت کرے‘ میں اپنا کام کرتا رہوں۔ جتنی انہوں نے دھڑے بندیاں بنا رکھی ہیں کہ یہ روس کا دھڑا ہے یا یہ امریکا کا دھڑا ہے تو ہم کس دھڑے بندی میں شریک نہیں ہیں۔ ہم ایک دھڑے بندی میں شریک ہیں‘ وہ ہے ادبی دھڑے بندی اور اردو کی دھڑے بندی۔ ہم اس سے کمیٹڈ ہیں اور ہم ہر اس چیز کے خلاف ہیں جو اردو کے خلاف ہے اورجو ادب کے خلاف ہے۔
طاہر مسعود: پچھلے چند برسوں سے ایک شاعر اور ناول نگار جن کا تعلق ہندوستان سے ہے اپنے بعض معاملات کی وجہ سے خاصے متنازع ہو چکے ہیں۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ غیر ادبی طریقوں سے ادیبوں کو رام کرتے ہیں۔ کچھ عرصے قبل ان کے حوالے سے آپ کے بارے میں کچھ ایسے کالم اور مضامین شائع ہوئے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ آپ نے ان کے بارے میں توصیفی مضمون لکھ کر ادبی دنیا میں ان کا بت کھڑا کرنے کی کوشش کی جس میں دوسرے ادیبوں نے بھی آپ کے ساتھ تعاون کیا۔ آپ اس معاملے کی وضاحت کرنا پسند کریں گے؟
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ: ابھی میں آپ سے عرض کر رہا تھا کہ ادب کی دنیا میں ہر غیر ادبی چیز کا میں مخالف ہوں‘ اگر کوئی شخص اپنی ادبی حیثیت کو راسخ کرنے کے لیے غیر ادبی وسائل کا استعمال کرتا ہے تو میں اس کی پرزور تردید کرتا ہوں۔ جہاں تک کسی کے فن یا تخلیق کا تعلق ہے تو میری ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ کہیں جو ہر نظر آئے یا ابھرتا ہوا فن کار دکھائی دے تو تنقید کو اس کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ میں نے شہریار اور سریندر پرکاش پر اس وقت لکھا جب انہیں کوئی جانتا نہیں تھا۔ وارث علوی تک نے اعتراف کیا کہ میں نے سریندر پرکاش کی کہانیوں سے لطف اندوز ہونا گوپی چند رنگ کی تحریروں سے سیکھا ہے۔
برسوں پہلے کی بات ہے کہ میں نے ایک شاعر کی چھوٹی سی نظم پڑھی۔ شاعر کا نام تھا‘ صلاح الدین پرویز۔ جب میں علی گڑھ گیا تو خلیل الرحمن اور شہریار سے اس شاعر کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے شعبہ انگریزی میں ایک طالب علم ہے‘ الٰہ آباد کا رہنے والا ہے۔ وہ صلاح الدین پرویز کو پکڑ کر لائے۔ میں نے اس کا کلام سنا۰ بہت خوشی ہوئی۔ اس وقت صلاح الدین پرویز علی گڑھ میں جوتیاں چٹخاتے پھرتے تھے۔ ان کے تمول اور ثروت کا کسی کوئی قصور نہ تھا۔ نہ ہی کسی کو معلوم تھا کہ آگے چل کریہ آدمی صاحبِ ثروت ہوگا اور اس کے چرچے ہوں گے۔ میں باہر سے پڑھ کر نیا نیا آیا تھا اور اس وقت تک صلاح الدین پرویز کی کوئی کتاب بھی نہیں چھپی تھی۔ لہٰذا اب یہ کہنا کہ فلاں صاحب نے ان کی تعریف کی‘ غلط ہے۔ میرا کسی کی دولت یا غربت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ آپ میں کوئی خوبی دیکھوں گا تو اسے یقینا تسلیم کروں گا۔ اب یہ ہے کہ بعد میں صلاح الدین پرویز نے کئی ناول لکھے‘ کتابیں چھاپیں اس کے علاوہ بھی ان کے بارے میں بہت کچھ سنتا رہتا ہوں لیکن میں پھر یہی کہوں گا کہ ہمارا کام فن پارے کو دیکھنا ہے۔ ہمارا رشتہ آپ کے لکھے ہوئے لفظ سے ہے۔ آپ کی آنکھیں کیسی ہیں؟ آپ لباس کیسا پہنتے ہیں؟ آپ کے آبا و اجداد کہاں کے تھے؟ آپ جیٹ طیارے میں سفر کرتے ہیں یا فائیو اسٹار ہوٹل میں ٹھہرے ہیں؟ آپ دعوت کیسی کھلاتے ہیں؟ اگران باتوں سے کوئی خریدا جاسکتا ہی تو میں سمجھتا ہوں وہ ادیب ہی نہیں ہے۔ جو لوگ میرے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہیں وہ احمقانہ باتیں ہیں۔ میرا قلم میری سب سے بڑی گواہی ہے۔ جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ موجود ہے‘ اسے دیکھا جاسکتا ہے۔
طاہر مسعود: میں نے آپ کے کئی لیکچر سنے ہیں‘ مجھ سمیت اور بھی لوگوں کی رائے ہے کہ آپ کے لیکچر میں جو بصیرت‘ سحر آفرینی اور گہرائی ہوتی ہے وہ ساری خوبیاں اتنی شدت کے ساتھ آپ کی تحریروں میں نظر نہیں آتیں‘ اس کی کیا وجہ ہے؟
ڈاکٹر گوپی چند نارنگ: ایک راز کی بات میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں اپنے بہت سے مضامین ڈکٹیٹ کرواتا ہوں اور ایک ہی نشست میں تقریرکے طور پر دو‘ تین گھنٹے بولتا ہوں۔ بعض چیزیں ذہن میں مہینوں تک پکتی رہتی ہیں‘ اس کے علاوہ میں کچھ لکھنے کے لیے مہینوں مطالعہ کرتا ہوں جو کچھ میں بولتا ہوں وہی میں لکھتا ہوں۔ تحریروں میں اگر وہ ساری کیفیات نہیں آپاتیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ قارئین تک میری تمام چیزیں اپنے بھرپور تاثر کے ساتھ نہیں پہنچیں کیوں کہ وہ ساری ابھی چھپی ہی نہیں ہیں۔ رہا سوال لیکچروں یا تقریروں کا تو میں جہاں کہیں بھی اظہار خیال کرتا ہوں تو اچانک نہیں کرتا ہوں بلکہ اس موضوع پر مہینوں سوچتا ہوں۔ میں نے ادب کی روایت کا مطالعہ نہایت سنجیدگی اور محنت کے ساتھ کیا ہے اور آج تک میری کوشش یہی رہتی ہے کہ میں سب سے زیادہ توجہ مطالعے پر صرف کروں۔

حصہ