کورونا کے زندگی پراثرات

259

کلینک کے استقبالیہ سے پرچی لینے کے بعد ہم انتظار گاہ میں سیٹ پر براجمان ہو گئے جہاں سب ہی افراد ایک دوسرے سے بے نیاز اپنی باری کے منتظر تھے۔ بلند آواز گفتگو کرنے پر اردگرد سے عجیب سی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا۔ اسی لیے کلینک کی سخت ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ہر کوئی دیوار گیر اسکرین کی جانب توجہ کیے ہوئے تھا۔
پرچی میں چمکتا ہندسہ ہمیں بھی صبر کا اشارہ دے رہا تھا۔ وقتاً فوقتاً معالج کے کمرے سے بجتی گھنٹی کے ساتھ انتظار کی گھڑیاں بھی مختصر ہونے لگتیں۔ ابھی گھنٹہ بھر ہی گزرا تھا کہ دو خواتین پرچی تھامے برابر والی کرسی پر آبیٹھیں۔ کچھ ہی دیر میں دونوں کھسر پھسر کرنے لگی تھیں۔ چونکہ طویل انتظار کے باعث اعصاب ڈھیلے پڑ رہے تھے‘ سستی بھی در آئی تھی سو ہم نے بھی یکسر آدابِ محفل کو پس پشت ڈالا اور حس ِ سماعت اُن کی جانب موڑ لی۔ موضوعِ گفتگو کورونائی حالاتِ حاضرہ تھا۔ گفتگو سے اندازہ ہو رہا تھا کہ غالباً اس سے قبل بھی وہ یہاں آچکی ہیں۔ گفتگو کو مدعا یہی تھا کہ وبائی دور نے معاشرتی روّیوں پر گہری ضرب لگائی ہے۔
مریض اور معالج کا تعلق بھی احتیاط کے زیر اثر آگیا۔ سامنے ہوتے ہوئے بھی بہت سے معالج محض علامات پر ہی اکتفا کرتے نظر آتے ہیں۔ مریض کا تفصیلی معائنہ کرنا اب قصۂ ماضی بنتا جا رہا ہے۔ جس نے مریض و معالج کے درمیان بے اعتباری کی خلیج قائم کر دی ہے۔ باقاعدہ معائنہ نہ صرف درست تشخیص میں مددگار ہوتا بلکہ مریض کے لیے بھی تسلی بخش امر بھی ہے۔ ان کی گفتگو ہمیں بھی غنودگی سے جگا چکی تھی۔ سوچ کے در وا ہونے لگے تھے۔ کورونا نے واقعی دیکھتے ہی دیکھتے کرۂ ارض کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ذاتی و پیشہ وارانہ زندگی سے لے کر جذبات و احساسات کی رُت بدل گئی۔ کورونا نے معاشروںکو الگ ہی ڈھنگ سے روشناس کر دیا ہے۔ شاعر سے معذرت کے ساتھ:
یونہی وبا کی ادا دیکھ کے یاد آیا
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں معاشرے جاناں
کورونا نے جہاں دنیا کی تقریباً چوتھائی آبادی کو لپیٹ میں لیا وہیں لاک ڈائون نے بھی مختلف زاویوں سے متاثر کیا۔ کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے پابندیوں کی لہر رائج ہوگئی۔ ہم آہنگ ہونے کے لیے نت نئے طریقے اختیار کرنے لگے۔ دنیا بھر میں کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو گھر سے ہی خود دساختہ تنہائی میں کام کرنے کی ہدایات دیں۔ وبا سے قبل گھر سے کام کرنے کا رجحان دنیا بھر میں موجود تھا۔ آسٹریلیا کی بونڈ یونیورسٹی میں ادارہ جاتی روّیوں کی ماہر کے خیال میں کورونا وائرس وہ نکتۂ تبدیلی ثابت ہوسکتا ہے جس کے بعد گھر سے کام کا رواج عام ہو سکے گا۔
کچھ ملازمت پیشہ خواتین بتاتی ہیں کہ گھر سے کام کرنے کے بر عکس باہر کام کرنا زیادہ مشکل رہا۔ اُن کا کہنا تھا کہ بطور خاتون خانہ پیشہ وارانہ ذمے داری میں خلل بڑھ جاتا ہے نتیجتاً ذاتی و پیشہ وارانہ زندگی ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے لگتی ہیں۔ جب کہ کچھ خواتین اس طرح گھر سے کام کو آسان قرار دے رہی ہیں۔
کورونا کے دوران ان لائن گیمز کے صارفین میں حد درجہ اضافہ ہوا‘ ماہرین کے مطابق سماجی سرگرمیاں نہ ہونے سے آنے والے وقتوں میں ذہنی‘ جذباتی اور جسمانی مسائل کا سامنا دگنا ہو سکتا ہے۔ افراد ایک دوسرے سے جڑنا‘ تفریح و سیاحت ذہنی بالیدگی کے اہم جز ہیں۔
سائنس دان وبائوں کے پھیلائو کی بڑی وجہ سے ماحولیات‘ حیاتیاتی اور قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال کو قرار دے رہے ہیں جس میں سیاحت نے بھی حصہ ڈالا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کووڈ 19 نے بڑے پیمانے پر معمولات زندگی میںخرابی پیدا کی لیکن کچھ فوائد بھی پہنچائے ہیں۔ عارضی طور پر فضا کے معیار میں بہتری دیکھی گئی۔
زندگی میں آنے والی تبدیلیوں میں لچک کے حوالے سے ماہر نفسیات کا کہنا تھا کہ یہ شرح ہر ملک میں مختلف ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں لچکدارانہ رویہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کے مطابق وقتی و جزوی پابندیاں اٹھنے کے بعد لوگوںکا پابندیوں کو یکسر مسترد کر دینا اس بات کی عکاسی کر رہی ہے۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ دنیا اب اسی کی ہے جو وبا سے پیدا شدہ مثبت تبدیلیوں کے مطابق خود کو ڈھالے اور لاگو کر سکے۔
حالات و واقعات اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے ہیں کہ آئندہ کچھ برس تک زندگی حقیقی معنوں میں معمول پر نہیں آسکے گی۔

حصہ