اعتراف

169

”ہاں بھئی! یاد آرہی ہے اپنے گائے اور بکروں کی؟“بقرعید کی تعطیلات کے بعداسکول کے پہلے دن مس فروا نے بچّوں سے پوچھا۔یہ سن کر کمرۂ جماعت تو گویا مچھلی بازار بن گیا۔ہر بچّہ اپنے احساسات بیان کرنے کے لئے پرجوش تھا۔باقاعدہ گائے بکروں کی آوازیں بھی آنا شروع ہو گئی تھیں۔
”مس! مجھے تو اپنا بکرا بہت زیادہ یاد آرہا ہے، میں نے تو اسے خواب میں بھی دیکھ لیا۔“ ایک بچّے نے افسردہ منہ بناتے ہوئے کہا۔
ارحم روہانسی شکل بنا کر کہنے لگا: ”جب میری گائے کی قربانی ہورہی تھی تب مجھ سے تو دیکھا ہی نہیں جارہا تھا، میں بہت رویا تھا۔“
اتنے میں بلال کہنے لگا:”مس! دادا ابّو بتا رہے تھے کہ سارے جانور جنّت میں چلے جاتے ہیں تو کیا ہم جنّت میں جانے کے بعد ان سے مل سکیں گے؟“۔ یہ سُن کر مس فروا کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ دوڑ گئی۔ان کے ذہن میں ایک خیال آیا، بجائے بلال کے سوال کا جواب دینے کے الٹا انہوں نے پوری جماعت سے سوال کرڈالا۔ ”بیٹا! آپ سب تو جنّت میں جانے کے بعد اپنے جانور سے ملنا چاہتے ہیں لیکن کیا آ پ نے سوچا کہ وہ بھی آپ سے ملنا چاہتا ہے یا نہیں۔۔۔؟“۔ یہ سوال کرنے کی دیر تھی کہ کمرۂ جماعت میں خاموشی چھا گئی۔ سب سوچ میں پڑ گئے تھے۔
”مجھے پوری امید ہے کہ آپ لوگوں نے بہت زیادہ خیال رکھا ہوگا، ٹہلانے کے نام پر اس کے کان بھی نہیں کھینچے ہوں گے، الٹی سیدھی چیزیں بھی نہیں کھلائی ہوں گی۔۔۔ایسا ہی ہے نا؟“ مس نے پرامید ہو کر بچّوں کی طرف دیکھا لیکن اُن کے لٹکے ہوئے منہ کچھ اور ہی کہانی سنا رہے تھے۔ بلا آخر مس نے خود ہی پہل کی اور حمّاد سے سوال کیا: ”بیٹا! آ پ کے گھر جو جانور آیا، آپ نے اُس کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟“
”اااا۔۔۔ابو عید سے دس دن پہلے بکرا لے آئے تھے اور میں روز اس کے کان کھینچ کھینچ کر زبردستی اسے ٹہلنے پر مجبور کرتا تھا۔۔۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہوگا۔ “ اس نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔
مس نے جواباََ ’اوہ‘ کہا اور بلال کو اٹھنے کا اشارہ کیا۔
بلال اپنی نشست سے کھڑے ہو کر بتانے لگا:”میں نے بکرے کی دم پر ربڑ بینڈ باندھا تھاوہ پریشان ہوکر زور زور سے اچھلنے لگا تھا میں اور میرے دوستوں نے اس منظر کو خوب انجوائے کیا۔۔۔لیکن مس اسے کتنے تکلیف ہوئی ہوگی نا۔۔۔“ ربڑ بینڈ باندھنے کی بات سن کر کلاس میں دبی دبی ہنسی کی آواز گونجی لیکن مس نے نظر انداز کردیا۔انہوں نے اگلے بچّے کا اٹھنے کا اشارہ کیا، وہ بتاتا ہے: ”میں نے اپنے بکرے کو کولڈڈرنک پلا دی تھی جوکہ بہت ٹھنڈی تھی، اُس نے تو بہت شوق سے پی مگر اس کا گلا خراب ہو گیا تھا اُسے خوب چھینکیں آئیں۔۔۔مس! وہ تو اللہ تعالی سے میری شکایت کردے گا“۔
ابھی تک مس نے بچّوں کے ایسے واقعات سن کر کوئی سرزنش نہ کی تھی۔ ان کے پرتحمل اور ٹھنڈے مزاج کے باعث بچّے ان کے کافی قریب تھے۔ اُن کے اسی رویے کی وجہ سے اب مزید بچّوں میں اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرنے کی ہمّت آرہی تھی۔
انہوں نے تیسری قطارمیں بیٹھے اشعر کو اٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ جھجکتے ہوئے بتانے لگتا ہے:”میں اور میرے دوست جب بھی باہر گلی میں نکلتے، ہمیں جو بھی گائے بیٹھی نظر آتی اُسے چھڑی مار کے کھڑا کردیتے تھے۔“
مس فروا جواباََ اس سے کہتی ہیں کہ بیٹا ذرا سوچیں وہ بے چاری گائیں اپنے بھاری بھرکم وزن کو لئے کھڑی رہتی ہیں اور آپ کی طرح نجانے کتنے بچّے آتے جاتے انہیں اُٹھا دیتے ہوں گے۔۔۔اُن کا بھی تو بیٹھنے کا دل چاہتا ہوگا۔
اتنے میں کمرۂ جماعت کی پچھلی نشستوں سے کھسر پھسر کی آوازیں آنے لگیں۔مس کی توجہ اس جانب چلی گئی۔ تیمور ٹیپو سے کہہ رہا تھا؛”وہ والی بات بتاؤ نامس کو۔۔۔!“
”جی ٹیپو بیٹا۔۔۔ بتائیے۔“
ٹیپو کھڑے ہوکر بتانے لگتا ہے :”ہمارے گھر میں چودہ اگست والا ’باجا‘ رکھا تھا۔ میں نے اپنی گائے کے پاس بیٹھ کر اسے خوب بجایا۔ وہ تو امّی نے آکرچھین لیا۔۔۔نہیں تو میں اور دیر تک بجاتا۔“
لاشعوری طور پر مس کے کانوں میں اس نامعقول باجے کی آواز گونجنے لگی۔مس گھبرا گئیں۔ اسی اثناء میں اُن کی نظر کلاس کے شریر ترین بچّے پر پڑی جو غیر معمولی طور پر سنجیدگی سے بیٹھا تھا۔مس کہتی ہیں:”اب ہم زین سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے کیا کیا؟“۔
زین ہچکچاتے ہوئے بتانے لگتا ہے:”میں نے تو شاید سب سے زیادہ بُرا کیا ہے۔۔۔۔“یہ کہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ اتنا کہہ دینے سے باقی کلاس میں واقعہ سننے کے لئے اشتیاق بڑھ گیا اوروہ آگے کا واقعہ سنانے پر اصرار کرنے لگے۔وہ مس کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے:”ہماری گلی میں گاڑی سے اترتے ہوئے کسی کی بھی گائے نہیں بھاگی تھی، ہمیں مزہ ہی نہیں آرہا تھا تب میں نے اور میرے دوستوں نے مل کر ایک منصوبہ بنایا۔ جب پڑوس میں ایک انکل کے گھر گائے اتر رہی تھی تو ہم نے اس کے پاؤں کے پاس پٹاخہ پھوڑدیا ِ، وہ ایسا بدکی کہ دو لڑکوں کو زخمی کرتے ہوئے بھاگ گئی۔۔۔ اور مس وہ نا اتنی تیز بھاگی کہ آگے جا کے نالے میں گر گئی پھر اسے نکالنے کے لئے۔۔۔“
”اچھا بیٹا بس بس۔۔۔“ مس جو اب تک بے حد تحمل کے ساتھ سب کی کہانیا ں سن رہی تھیں اتنا خطرناک واقعہ سن کر گھبرا گئی تھیں۔اب مزید سننے کی ان میں تاب نہ رہی۔ ان کی کلاس کا وقت بھی بس ختم ہی ہونے والا تھا۔کلاس میں ایک غیرمعمولی سنجیدگی طاری تھی۔باہر سے کوآرڈینیٹرمس عمارہ راؤنڈ لگانے کے لئے گزریں تو شدید حیران ہوئیں کہ آج چوتھی جماعت کے بچے اتنے خاموش کیوں ہیں؟
وہ تجسّس کے عالم میں کلاس کے باہر کھڑے ہو کر سننے لگیں،اندر مس فروا بچّوں سے کہہ رہی تھیں۔”آپ کو احساس ہو گیا یہی کافی ہے، بس اب کرنا یہ ہے کہ آپ سب نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی ہے اور اگلی عید پر جانور سے اتنی محبت اور اپنائیت والا سلوک کرنا ہے کہ وہ جنت میں جانے کے بعد آپ سے خود ملنا چاہے۔“ انہیں اپنی باتیں بچّوں کے دل میں اترتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ کلاس ختم ہو جانے پر وہ اپنا رجسٹر اٹھا کر باہر نکلنے ہی والی تھیں کہ مس عمارہ اندر داخل ہوئیں اور طلبہ کی خاموشی کی وجہ جاننا چاہی۔سب بچّے سمجھے کہ مس تو ہماری ساری غلطیاں انہیں بتا دیں گی لیکن۔۔۔ انہوں نے یہ کہ کر پردہ رکھ لیا۔”مس عمارہ۔۔ بچّے صرف شور ہی تھوڑی مچاتے ہیں یہ کبھی سنجیدہ بھی ہو جاتے ہیں۔“اور اسٹاف روم کی جانب قدم بڑھا دئیے۔

حصہ