باضمیر اور دلیر امریکی صحافی ہیلن تھامسن

202

عراق پر حملے کا جواز:
تین سال بعد صدر بش نے پہلی مرتبہ ۲۱مارچ۲۰۰۶ء کو ہیلن کو اپنی پریس کانفرنس میں بلایا اس نے بش سے جو پہلا سوال کیا وہ عراق جنگ کے متعلق تھا اور اس نے دریافت کیا ’’جناب صدر، عراق پر حملہ کرنے سے ہزاروں عمر بھر کے لیے معذور ہوگئے۔ حملے کی جو بھی وجوہ پائی گئی تھیں، وہ ایک ایک کرکے جھوٹی ثابت ہوئیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ آخر آپ نے جنگ کا آغاز کیوں کیا؟ آپ کا کہنا ہے کہ وجہ تیل نہیں … اسرائیل بھی درمیان میں نہیں تھا، پھر آخر حملہ کیوں ہوا؟‘‘ اس سوال پر صدر بش خاصا گھبرا گیا لیکن پھر وہی پرانا راگ الاپنے لگا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ضروری تھی، صدام حسین خطرہ بن گیا تھا وغیرہ وغیرہ۔
اسرائیل کی لبنان پر وحشیانہ بمباری:
ہیلن نے پھر ۱۸جولائی ۲۰۰۶ء کے دن بھی امریکی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ تب اسرائیلی لبنان میں وحشیانہ طور پر اپنی طاقت اور خباثت کا مظاہرہ کرنے میں مصروف تھے۔ ہیلن نے وائٹ ہائوس پریس بریفنگ میں بہ بانگ دہل کہا ’’امریکا اتنا بے دست و پا نہیں، وہ چاہے تو ابھی لبنان میں بمباری رکوا سکتا ہے۔ ہمیں اسرائیلیوں پر اتنا کنٹرول حاصل ہے۔ ہماری وجہ سے تمام لبنانیوں اور فلسطینیوں کو سزا مل رہی ہے۔‘‘
جواباً وائٹ ہائوس کے پریس سیکریٹری شام شیلز نے کہا :
’’مادام! حزب اللہ کا نقطۂ نظر پیش کرنے پر شکریہ‘‘ ہیلن کے ان جملوں پر بھی خاصا ہنگامہ ہوا۔ یہودیوں کے چمچوں نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ مگر غیر جانبدار دانش وروں نے اظہار حق پر ہیلن کو سراہا۔ بش دور حکومت میں ہیلن کے چٹکیاں لیتے جملے مسلسل سامنے آتے رہے۔ نتیجتاً صدر بش اس سے متنفر رہا۔
سی این این کی رپورٹ ۔ ہیلن کو مدعو نہیں کیا گیا
۳۰نومبر ۲۰۰۷ء کو وہائٹ ہائوس میں ایک اخباری کانفرنس کے دوران ہیلن تھامس نے امریکی پریس سیکریٹری ڈانا پیرینو (Dana Perino) سے سوال کیا کہ عراق میں امریکی فوج کو دوبارہ بھیجنے کے بارے میں امریکا جنرل ڈیوڈ پیٹریاس (David Petraeas) پر کیوں انحصار کررہا ہے؟ پیرینو جواب دے رہا تھا تو ہیلن تھامس نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ ’’تمہارا مطلب یہ ہے کہ ہم مزید کتنے لوگوں کو اور ماریں گے؟‘‘
پیرینو نے فوراً ہی ہیلن پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا ’’یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ تمہارے ساتھیوں نے اگلی قطار میں تمہیں جو نسبت عطا کی ہے تم ایسے بیانات دے کر اس کا ناجائز فائدہ اٹھارہی ہو۔ اس کانفرنس میں شرکت ایک اعزاز اور استحقاق کی بات ہے جس میں شریک ہوکر تم یہ تاثر دے رہی ہو کہ ہم یعنی امریکا بے گناہ لوگوں کو مار رہا ہے، یہ تاثر انتہائی غلط ، جارحانہ اور مخالفانہ ہے‘‘۔
اس تلخ جواب پر ہیلن نے ہمت نہ ہاری اور فوراً ہی پیرینو سے ایک اور سوال کرڈالا کہ اب تک کتنے بے گناہ عراقی مارے جاچکے ہیں اور اس پر امریکا کو کتنا افسوس ہے؟
پیرینو نے جواب میں کہا کہ بش انتظامیہ کو تمام بے گناہ عراقیوں کی ہلاکت پر افسوس ہے۔
۴دسمبر ۲۰۰۷ء کو سی این این نے اپنے ایک نمائندے، جین موس کی ویڈیو رپورٹ دکھائی۔ اس میں دکھایا گیا کہ صدر بش کی اگلی پریس کانفرنس میں کون سے اخباری نمائندے و صحافی شریک ہوں گے۔ ہیلن کی نشست پر ’’نہیں‘‘ کا نشان لگا تھا اور اسے نہیں بلایا گیا۔
صدر بارک اوباما کا عہدِ صدارت اور ہیلن تھامس
۲۰۰۹ء میں صدر بارک اوباما (Brack Obama) کا پہلا عہدِ صدارت شروع ہوا۔ ۹فروری ۲۰۰۹ء کو نئے منتخب صدر کی پہلی اخباری کانفرنس منعقد ہوئی۔ ہیلن کو دوبارہ صحافیوں کی پہلی قطار میں نشست دی گئی۔ صدر اوباما نے اس موقع پر ہیلن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’ہیلن میں بہت پرجوش ہوں یہ میرے افتتاحی لمحات ہیں‘‘۔ غالباً وہائٹ ہائوس میں ہیلن تھامس کی طویل خدمات اور موجودگی کے حوالے سے اس کو خراج تحسین ادا کرنے کا ان کا یہ اپنا انداز تھا۔
ہیلن تھامس نے ان سے سوال کیا کہ کیا مشرق وسطیٰ کے کسی ملک کے پاس جوہری ہتھیار ہیں؟ اوباما نے جواب دیا کہ وہ اس بارے میں قیاس آرائی نہیں کرنا چاہتے۔یاد رہے اسرائیلی بموں کے متعلق امریکی پالیسی یہ ہے کہ ان کی موجودگی تسلیم کی جائے نہ انکار کیا جائے لہٰذا اوباما نے ہنس کر یہ سوال ٹال دیا۔
یکم جولائی ۲۰۰۹ء ہیلن تھامس نے پریس پر پابندیوں کے بارے میں اوباما انتظامیہ کے رویئے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’اس سے قبل پریس پر کچھ پابندیاں ضروری تھیں لیکن اتنی زیادہ نہیں تھیں۔ مجھے حیرت ہے آپ لوگ کچھ نہ چھپانے اور شفافیت کی باتیں کرتے ہیں مگر آپ نے پریس پر پابندیاں لگائی ہیں۔ ہیلن نے کہا کہ حتیٰ کہ صدر نکسن نے بھی پریس پر اتنی پابندیاں نہیں لگائی تھیں جتنی صدر اوباما نے لگائی ہیں۔
صدر اوباما اور ہیلن تھامس کی سالگرہ
۴ اگست ۲۰۰۹ء کو پریس کانفرنس سے پہلے صدر اوباما نے جن کی سالگرہ بھی اسی دن تھی، ہیلن تھامس کو ان کی نواسی ویں سالگرہ پر کیک پیش کیا اور سالگرہ کی مبارک باد پیش کی۔
اپریل ۲۰۱۰ء میں ہیلن نے افغانستان کے مسئلے پر دوران پریس کانفرنس میں صدر اوباما کو حواس باختہ کردیا۔ ہیلن نے کہا ’’جناب صدر! آخر آپ کب افغانستان سے نکلیں گے؟ آپ وہاں کیوں انسانوں کو مروارہے ہیں؟ یہ خونی جنگ جاری رکھنے کی وجہ کیا ہے؟ اور خدا کے لیے ہمیں بش ازم کا فلسفہ نہ پڑھایئے … کہ اگر ہم وہاں نہ پہنچے، تو وہ یہاں آجائیں گے۔‘‘
فلوٹیلا پر اسرائیلی حملہ;
ہیلن کی بہادری کا اگلا مظاہرہ اواخر مئی میں دیکھنے کو ملا۔ تب اسرائیلی غنڈوں نے تمام اخلاقی، قانونی اور انسانی آداب کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بحری جہازوں پر سوار معاشرتی رضاکاروں پر حملہ کیا اور نو ترک افراد شہید کرڈالے۔ اس وقت پوری دنیا میں فلوٹیلا جہاز پر اسرائیلی فوجیوں کے حملے پر احتجاج جاری تھا۔ حملے میں ترک غیرسرکاری تنظیموں کے نوکارکن شہید ہوگئے تھے۔ اس غیرانسانی واقعے کے خلاف وائٹ ہائوس کے سامنے بھی مظاہرے ہوئے۔ غرض کئی برس بعد پوری دنیا میں اسرائیلی حکومت کے خلاف احتجاج ہوا اور اسے شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ امریکی کانگریس کے ایک یہودی رکن، بارنی فرینک نے یہ کہہ ڈالا ’’مجھے اپنے یہودی ہونے پر ندامت ہے‘‘۔
اس موقع پر امریکی حکومت نے جو بیان دیا، اس نے انسانی حقوق کی زبردست حمایتی ہیلن کو چراغ پا کردیا۔ وائٹ ہائوس کے ترجمان، رابرٹ گبز کی پریس کانفرنس کے دوران وہ کھڑی ہوئی اور باآواز بلند بولی۔
’’آپ نے صرف اظہار افسوس کیا ہے … صرف افسوس؟ فلوٹیلا میں قتل عام ہوا ہے … ایک دانستہ قبل عام اور ایک بین الاقوامی جرم کے متعلق میری حکومت کا ردعمل شرمناک ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس واقعہ پر زبردست احتجاج کیا جاتا۔ اگر دنیا کا کوئی اور ملک یہ حرکت کرتا تو اب تک ہم اس کے خلاف اعلان جنگ کرچکے ہوتے۔ میں پوچھنا چاہتی ہوں کہ آخر اس ملک (اسرائیل) کے ساتھ ہمارے تعلقات مقدس، خفیہ اور ضروری ہیں؟ ایسا ملک جو دانستہ انسانوں کو قتل کرتا اور انہیں محاصرے میں رکھتا ہے … اور ہم نہ صرف اس کی حوصلہ افزائی کرتے بلکہ اسے امداد بھی دیتے ہیں۔‘‘
ہیلن کا صحافت چھوڑنے کا اعلان:
وائٹ ہائوس کے ترجمان، رابرٹ گبس نے ہیلن کے جملوں کو ’’موجب آزار اور قابل مذمت‘‘ قرار دیا۔ وائٹ ہائوس میںاخباری نمائندوں کی تنظیم نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ ہیلن کی کتب شائع کرنے والے اداروں نے اعلان کیا کہ اب وہ اس کی کتب شائع نہیں کریں گے۔ ہیلن نے واشنگٹن میں ایک اسکول کی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرنا تھی، اس کے پرنسپل نے ہیلن کو آنے سے روک دیا۔ غرض ہیلن پر اتنا شدید دبائو ڈالا گیا کہ اس نے ۷جون کو دنیائے صحافت ہی چھوڑنے کا اعلان کردیا۔:
امریکی حکومت اور صحافیوں کی منافقت
سوال یہ ہے کہ کس امر نے ہیلن تھامس کو یہود کے خلاف نہایت تلخ جملے بولنے پر اکسایا؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہیلن پچھلے ساٹھ برس سے امریکی حکومتوں کا منافقانہ رویہ دیکھتی چلی آرہی تھی۔ ایک طرف اسرائیلی امریکیوں کی آشیرباد سے فلسطینیوں پر ظلم و ستم ڈھانے میں مصروف رہے، دوسری طرف امریکی حکومت زبانی کلامی اسرائیل کو برا بھلا کہہ کر خاموش ہوجاتی۔ ظاہر ہے، ہیلن برسر عام اسرائیل کو برا بھلا نہیں کہہ سکتی تھی لیکن اس ملک کے خلاف اندر ہی اندر جذبات پلتے رہے آخر جب وہ اندرونی گھٹن برداشت نہ کرسکی تو اس نے ربی کو سچائی کہہ ڈالی۔
امریکیوں نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ ہیلن نے ربی سے باتیں کیں تو وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض نہیں نبھا رہی تھیں۔ وہ محض ایک تقریب میں شریک تھی پھر امریکیوں نے یہ بھی محسوس نہیں کیا کہ ہیلن سچ بول رہی تھی۔ بس ہمیشہ کی طرح یہودی ذرائع ابلاغ نے انہیں جو پٹی پڑھائی وہ اس پر عمل کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ امریکیوں کو احساس ہوگا کہ ہیلن کی شکل میں وہ کتنی دلیر صحافی سے محروم ہوگئے۔
امریکی عربوں کی تقریب میں تقریر
۲دسمبر ۲۰۱۰ء کو امریکہ میں مقیم عربوں کی آٹھویں سالانہ کانفرنس جو ڈیربورن مشی گن میں امریکی عربوں کے تصورات اور مشاہدات (Images and Perceptions) کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے ہیلن نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس نے مئی ۲۰۱۰ء میں ربی ڈیوڈ نیزے نیف(Nesenoff) سے جو گفتگو کی تھی وہ اب بھی اپنے اس موقف پر قائم ہے۔ اپنے استعفے کے بارے میں اس نے کہا کہ ’’میں نے سچ بولنے کی قیمت ادا کی ہے لیکن سچ بولنے کی ضرورت ہے‘‘۔ اپنی تقریر میں اس نے کہا کہ کانگریس وہائٹ ہائوس، ہالی وڈ اور وال اسٹریٹ پر صہیونیوں(Zionists) کا قبضہ ہے۔ اکتوبر ۲۰۱۱ء میں WMRNکے اسکاٹ اسپیرز کے ساتھ ایک ریڈیائی انٹرویو میں تھامس نے کہا کہ مجھے اپنے تبصرے کے بعد جلد ہی یہ احساس ہوگیا کہ مجھ پر عتاب نازل ہوگا۔ آپ امریکہ میں اسرائیل پر نکتہ چینی کرکے جی نہیں سکتے۔

حصہ