سفر حج ۔۔۔۔۔۔سفر محبت

368

تیسرے حج کی خوشی میں مونا نے گھر میں آج ایک بہت بڑی دعوت کا اہتمام کیا تھا۔ سسرال اور میکے دونوں طرف کے تمام لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ آج مونا کی کوٹھی برقی قمقموں سے جگمگ جگمگ کررہی تھی۔ کل ہی وہ درزی سے اپنا انتہائی قیمتی اور شاندار سوٹ لے کر آئی تھی۔ اس نے منہ مانگے دام بھی تو لیے تھے، کیوں کہ وہ بتا چکی تھی کہ یہ حج کی دعوت کی خوشی میں سلوا رہی ہوں، دھیان سے اچھا سا سوٹ سینا اور خوب اچھی فٹنگ کرنا۔
وہ ابھی اپنے سوٹ کو ہینگ کر ہی رہی تھی کہ بیل کی آواز آئی ’’ٹنگ ٹونگ…‘‘
’’دیکھو کون آیا ہے؟ اتنی دیر سے بیل بج رہی ہے مجال ہے تم لوگوں کے کان پر جوں تک رینگے، ہر وقت موبائل پر جھکے رہتے ہو، یہ نہیں ہوتا کہ اٹھ کر دیکھو کہ کون آیا ہے؟‘‘
آواز آئی ’’باجی میں ہوں سکینہ، دروازہ کھولو…‘‘
ماسی سکینہ کو دیکھتے ہی موناپھٹ پڑی ’’اتنی دیر ہوگئی اور تم اب آئی ہو! تمہیں پتا ہے کہ آج گھر میں فنکشن ہے اور پھر بھی لیٹ آئیں! مجال ہے جو وقت پر آجاؤ، روز کا تماشا بنایا ہوا ہے… آج کل کی ماسیوں نے تو ناک میں دم کر رکھا ہے۔‘‘
’’ارے کیوں غصہ کررہی ہو، اس کو دَم تو لینے دو۔‘‘ مونا کے شوہر نے کہا۔
’’آپ تو ہر وقت اس کی طرف داری ہی کرتے رہتے ہیں۔‘‘
’’اچھا بھئی ایک کپ چائے تو بنا دو، بڑا دل چاہ رہا ہے چائے کا اِس وقت…‘‘ مونا نے لفظ ’’چائے‘‘ پر زور دے کر کہا۔
’’ہاں ہاں چائے… بہت تھکن ہورہی ہے…‘‘
’’بھئی اس وقت کوئی چائے وائے نہیں۔‘‘ مونا نے صاف انکار کردیا۔
’’تین حج کرلیے، مجال ہے جو عادتوں میں ذرا بھی تبدیلی آئی ہو، زبان قینچی کی طرح چلتی رہتی ہے، ذرا سا بھی کنٹرول نہیں۔ ایسے حج کا کیا فائدہ؟ جن کاموں سے تم اتنا الجھ رہی ہو یہ تو تم نے خود مول لیے ہیں، تم سے کس نے کہا تھا کہ تیسرے حج کی بھی دعوت رکھ لو؟‘‘ مونا کے شوہر نے کہا۔
تھوڑی دیر بعد ہی نند داخل ہوئیں۔ چار بچے ان کے ساتھ تھے۔ نند کو دیکھتے ہی مونا کا منہ کڑوا ہوگیا۔
’’اُفوہ! سب سے پہلے تو یہی پہنچتی ہیں، لگتا ہے گھر میں انہیں کام ہی نہیں ہے، مصیبت ہے اب انہیں دیکھو، ان کے چاروں بچوں کو دیکھو، دو تو گم سم بیٹھے رہتے ہیں لیکن باقی دو کتنے بدتمیز ہیں۔
لو اب ساس صاحبہ بھی کام سے گئیں، تھوڑی بہت جو مدد کروا لیتی تھیں، اب بیٹی کے آنے کے بعد ان کی کمر سے کمر ملاکر ہی بیٹھ جائیں گی…کیا مصیبت ہے۔‘‘ وہ جھنجلاہٹ میں مبتلا ہوگئی۔
تھوڑی دیر میں مونا کو یاد آیا کہ ڈرائیور کو مٹھائی لانے کو کہا تھا، وہ ابھی تک نہیں آیا۔ مونا نے ڈرائیور کو بھی نہ بخشا اور موبائل اٹھا کر اس کو بھی کھری کھری سنادیں۔
وہ حج ہی کیا جس کے بعد نہ عادتیں بدلیں، نہ مزاج میں کوئی تبدیلی واقع ہو نہ خیالات میں، اور نہ ہی آدمی انسان اور خدا سے قریب ہو… جبکہ حج کے بارے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’انسان حج کے بعد ایسا ہوتا ہے جیسے اُس کی ماں نے اسے آج ہی جنم دیا ہو‘‘، اور یہ اسی وقت ہوگا جب ہم اپنے آپ کوخود بدلنا چاہیں گے۔ اگر حج کو صرف تفریح سمجھ لیا جائے تو کیسی تبدیلی اور کہاں کی تبدیلی؟ حج تو لوگوں کو صالح اور پاکیزہ بنا کر ہی واپس لاتا ہے، اور حج تو اللہ کو وہ مطلوب ہے جو زندگی بدل دے۔ بندے کے مزاج میں تبدیلی آئے، اس کے روّیوں میں تبدیلی آئے، اس کی زبان شائستگی اختیار کرے۔ غرضیکہ پسند ناپسند اللہ کی مرضی کے مطابق ہو۔
اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے۔‘‘ یعنی یہ احترام دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ آ دمی کے دل میں کچھ نہ کچھ خدا کا خوف ہے جب ہی تو وہ اس کے شعائر کا احترام کررہا ہے، اور یہی وہ تقویٰ ہے۔ تعظیم اور اللہ سے محبت کا مجموعہ… جو حج کے سفر کا اصل ماحصل ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں حج جیسی بڑی سعادت عطا کرے۔ اپنے گھر کی زیارت کے ساتھ ساتھ بہترین تقویٰ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین۔

حصہ