عید قرباں

294

قربانی کے لیے ہم سب کی کوشش ہوتی ہے کہ خوب صورت اور مہنگا جانور ہو، بلکہ حکمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: جانور بے عیب ہو۔ ہم اس جانور کو محبت سے رکھتے ہیں۔ اسے اچھا کھلاتے پلاتے ہیں۔ جانور قربان ہوتے ہی کوشش ہوتی ہے کہ گوشت اصل حصے داروں کو پہنچے۔ غریبوں کا حصہ، رشتے داروں کا حصہ اور اپنے گھر والوں کا حصہ… لیکن اس سارے مرحلے کے پیچھے اللہ تعالیٰ نے دو بڑے سبق جو ہمیں سکھائے ہیں ان پر غور کیا؟ ’’پیاری چیز کو قربان کرنا۔‘‘ حضرت ابراہیمؑ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آیا کہ بیٹے کو اللہ کی رضا کی خاطر ذبح کردو۔ بڑھاپے کی عمر میں رب بیٹے سے نوازے، اسی طلب میں جوانی گزار دی ہو، کیوں کہ اولاد کی طلب تو شادی ہونے کے فوراً بعد شروع ہوجاتی ہے، اب وہ تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک بیٹا تمہارا دل بہلانے کے قابل ہوا ہے، اور اس سے تم نے اپنی جو امنگیں وابستہ کررکھی ہیں اب انہیں حاصل کرنے کا وقت قریب ہے، اور تمہارا رب حکم دے دیتا ہے کہ تم اس کی گردن پر چھری چلا دو، تو بتاؤ تمہارا کیا ردعمل ہوگا؟ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام بے چوں و چرا حکم کی تعمیل کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ رب کے فرماں بردار ابراہیم علیہ السلام کے فرماں بردار بیٹے اسماعیل علیہ السلام بھی فوراً ذبح ہونے کے لیے تیار… اور دنیاکو سکھا دیا کہ ہماری جانیں ہمارے رب کی ملکیت ہیں اور ہمارے جسم اس کی امانت ہیں۔
اسماعیل علیہ السلام نے نوجوانوں کو سکھا دیا کہ رب کی رضا کے ساتھ ساتھ والدین کی فرماں برداری لازم ہے، چاہے یہ کتنی ہی پُرمشقت کیوں نہ ہو، مگر شرط یہ ہے کہ اس فرماں برداری میں مالک کی نافرمانی نہ ہو۔ چلیے دیکھتے ہیں اب ہم اپنے رب کے راستے میں، اُس کی رضا کی طلب میں اپنی کون سی پیاری چیز قربان کرتے ہیں: اپنا قیمتی وقت، اپنی صلاحیتیں، اپنی انا و تسکین، انصاف کے راستے میں حائل ہونے والے اپنے خونیں رشتوں کی رضا، اپنا مال و دولت یا اپنی ترجیحات، اپنے شوق۔
قربانی کا فلسفہ ہمیں جو دوسرا اہم سبق سکھاتا ہے وہ دوسروں کا پیٹ بھرنا ہے، جس کی اہمیت و اجر و ثواب قرآن و حدیث میں بارہا بتایا گیا ہے۔ قرآن کے مطابق اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے دوسروں کو کھلانا صرف مومن کی صفت ہے، اور حدیثِ قدسی کے مطابق رب کو کھلانے سے ہی تشبیہ دے دی گئی۔
گوشت تمام کھانوں کا سردار ہے۔ اس سردار کھانے سے رب نے اپنے بندوں کی ضیافت کی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ ہے۔ خود بھی کھانا ہے، اپنے رشتے داروں اور اردگرد کے مساکین کا بھی خیال رکھنا ہے۔ اس کے تین حصے کرکے بتا دیا گیا کہ تمہاری ذمے داری صرف اپنا آپ نہیں، بلکہ تمہارے رشتے دار بھی ہیں اور تمہارے اردگرد کے محروم اور ضرورت مند لوگ بھی۔ تم کو صرف اپنی بھلائی کے لیے نہیں بلکہ دوسروں کی بھلائی کے لیے بھی سوچنا ہے، کیوں کہ تم وہ بہترین امت ہو جو دوسرے لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے۔
آئیے! اس عیدِ قرباں پر عزم کرتے ہیں کہ قربانی کے فلسفے میں چھپے ان دو بڑے اسباق پر عمل پیرا ہوکر اپنے رب کا محبوب بندہ بننے کا شرف حاصل کریں گے۔

حصہ