بقرہ عید، دو بڑے سبق

468

بقرہ عید‘ عید کے ساتھ بقرہ کا سابقہ۔ شاید ہم نے بکروں کی محبت میں دے رکھا ہے ورنہ اس دن صرف بکروں کی قربانی نہیں کی جاتی، بلکہ ہر وہ حلال چوپایہ جس کی خرید و فروخت کے لیے ہماری تجوریوں کا مال حرکت میں آتا ہے۔ کچھ شرائط ہونے پر ذبح کیا جاتا ہے۔ یہ سنت ابراھیم ٔ ہے جو اپنے رب کی ہر آزمائش پر پورے اترے اور اس کا اعتراف اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ِ مبارک میں خود کیا۔ حضرت ابراھیم ٔ کی فرمانبرداری کو قیامت تک رہنے والی کتاب کا حصہ بنایا۔ مخلوق کے لیے اسوہ ابراھیم پر چلنا فلاح کا راستہ قرار دے دیا۔
قربانی کے لیے ہم سب کی کوشش ہوتی ہے کہ خوبصورت اور مہنگا جانور ہو۔ بلکہ حکمِ رسول صلی علیہ وآلہ وسلم ہے، جانور بے عیب ہو۔ ہم اس جانور کو محبت سے رکھتے ہیں۔ اسے اچھا کھلاتے پلاتے ہیں۔ جانور قربان ہوتے ہی کوشش ہوتی ہے کہ گوشت اصل حصہ داروں کو پہنچے۔ غریبوں کا حصہ، رشتے داروں کا حصہ اور اپنے گھر والوں کا حصہ، لیکن اس سارے مرحلے کے پیچھے اللہ تعالیٰ نے جو دو بڑے سبق ہمیں سکھائے ہیں کیا کبھی ان اسباق کو اپنے اندر سمویا ہے ہم نے؟
پیاری چیز کو قربان کر نا
حضرت ابراھیم ٔ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آیا کہ بیٹے کو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ذبح کر دو۔ اب مسلمانو! زرا اپنے سینوں پر ہاتھ رکھ کر سوچو کہ تمہیں بڑھاپے کی عمر میں رب بیٹے سے نوازے۔ اسی طلب میں جوانی گزار دی ہو، کیونکہ اولاد کی طلب تو شادی ہونے کے فوراً بعد شروع ہو جاتی۔ اب وہ تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک بیٹا تمہارا دل بہلانے کے قابل ہوا ہے اور جو تم نے اس سے اپنی امنگیں وابستہ کر رکھیں ہیں اب انہیں حاصل کرنے کا وقت قریب ہے اور تمہارا رب حکم دے دیتا ہے کہ تم اس کی گردن پر چھری چلا دو تو بتاؤ تمہارا کیا ردعمل ہو گا؟ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام بے چون و چرا تعمیل کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ رب کے فرماں بردار ابراھیم علیہ السلام کا فرماں بردار بیٹا اسماعیل علیہ السلام بھی فوراً ذبح ہونے کے لیے تیار اور رہتی دنیا کو سکھا دیا کہ ہماری جانیں ہمارے رب کی ملکیت ہیں اور ہمارے جسم اس کی امانت ہیں۔ پھر ہم اپنے جسم و جان کو کیسے مالک کی مرضی کے خلاف چلا سکتے ہیں؟ اور جب وہ انہیں قربان کرنے کا حکم دے تو کیسے انکار کر سکتے ہیں؟ شوق سے میدان جہاد میں اترنے والے اس حقیقت کو پا لیتے ہیں۔ اسماعیل علیہ السلام نے نوجوانوں کو سکھا دیا۔ رب کی رضا کے ساتھ ساتھ والدین کی فرمانبرداری لازم ہے، چاہے یہ کتنا ہی پر مشقت کیوں نہ ہو۔ مگر شرط ہے اس فرماں برداری میں مالک کی نافرمانی نہ ہو۔
پھر ذبح کے وقت باپ اور بیٹے کا آنکھیں بند کر لینا سکھا گیا کہ حکم رب کی تعمیل میں قلبی خونی رشتوں کی شفقت و محبت رکاوٹ نہ بنے۔ ضرورت صرف ہمارے اخلاص کی ہے جب ہم خود ابراھیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی طرح مخلص ہو جائیں گے تو پھر ہمارا رب کبھی بھی ہم پر ہماری طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالے گا۔ ہماری مدد اپنی عنایات و رحمتوں سے کر دے گا، جس طرح حضرت ابراھیم علیہ السلام کی جگہ مینڈھے کو ذبح کر دیا۔ دیکھتے ہیں اب ہم اپنے رب کے راستے میں اس کی رضا کی طلب میں کون سی اپنی پیاری چیز قربان کرتے ہیں۔ اپنا قیمتی وقت، اپنی صلاحیتیں، اپنی انا و تسکین۔ انصاف کے راستے میں حائل ہونے والے اپنے خونی رشتوں کی رضا، اپنا مال و دولت یا اپنی ترجیحات۔
پیٹ بھرنا
قربانی کا فلسفہ ہمیں دوسرا اہم سبق جو سکھاتا ہے وہ دوسروں کا پیٹ بھرنا ہے، جس کی اہمیت و اجر و ثواب قرآن وحدیث میں بار ہا بتائی گئی ہیں۔ قرآن میں دوسروں کو کھلانا اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے صرف مومن کی صفت ہے اور حدیث قدسی کے مطابق رب کو کھلانے سے ہی تشبیہ دے دی گئی۔
گوشت تمام کھانوں کا سردار کھانا ہے۔ اس سردار کھانے سے رب نے اپنے بندوں کی ضیافت کی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ ہے۔ خود بھی کھانا ہے، اپنے رشتہ داروں کو اور اردگرد کے مساکین کا بھی خیال رکھنا ہے۔ اس کے تین حصے کر کے بتا دیا گیا کہ تمہاری ذمہ داری صرف اپنا آپ نہیں بلکہ تمہارے رشتہ دار بھی ہیں اور تمہارے اردگرد کے محروم اور ضرورت مند لوگ بھی۔ تم نے صرف اپنی بھلائی نہیں بلکہ دوسروں کی بھلائی کے لیے بھی سوچنا ہے، کیونکہ تم بہترین امت ہو جو دوسرے لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے۔ آئیے! اس بقرہ عید پر عزم کرتے ہیں کہ قربانی کے فلسفے میں چھپے یہ دو بڑے اسباق پر عمل پیرا ہو کر اپنے رب کا محبوب بندہ بننے کا شرف حاصل کر لیں۔

حصہ