قربانی کی اصل روح

383

ابراہیم علیہ السلام سے قربانی کا سلسلہ کیسے شروع ہو ا۔وہ کون ہیں۔سنت جاریہ کا عظیم مقام ان کے عمل کو کیسے ملا۔وہ کیا عظیم پیغام ہے جو انکی زندگی میں ہمارے لئے پوشیدہ ہے۔جیسے وہ سوالات ہیں ۔جو عیدالاضحی کے موسم میں بطور خاص جنم لیتے ہیں۔
ابراہیم علیہ السلام وہ نبی ہیں۔جنھیں اللہ نے وفادار ی کی سند عطا کی ۔
فرمایا کہ یہ وہ ہیں جنھوں نے وفادار ی کا حق ادا کر دیا۔
ان کو خلیل کا مقام عطا کیاگیا۔رب کریم نے خود ان کے بارے میں فرمایا
ابراہیم علیہ السلام اپنے رب کی ہر آزمائش میں پورے اترے۔
اس کے نتیجےمیں اللہ نے انھیں تمام جہاں والوں کی پیشوائی عطا کی۔
یہ وہ نبی ہیں جن کی زندگی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اسوہ قرار دیا ان کی امتیازی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان پر تمام امتوں کا اتفاق ہے۔مسلمان ،یہودی،عیسائی سبھی ان کواپنا جد امجد مانتے ہیں۔
ابراہیم علیہ السلام کی وفا کی کہانی بہت طویل ہے۔جو ان کی زندگی کے لمحے لمحے پر محیط اقداراور راز حیات سے پر ہے۔
آپ عراق کی سرزمین میں بت پرست گھر انے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنے اردگرد کے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کی۔اور پھربرملا اظہار برات کیا۔فرمایا:
ترجمہ:’’میرے رب میں ان کے مشرکانہ سب اعمال و افعال سے بری الزمہ ہوں‘‘۔
پھر غور وفکر اور مشاہدے سے رب کریم کی تلاش کی ۔فرمایا “انی وجھت وجھی للذی فطر السموات والارض حنیفا وما کان من المشرکین۔”
کہ میں صرف اللہ کی طرف رخ کر تا ہوں۔اس کے حقوق و اختیارات میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔
پھرابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کا سلسلہ شروع ہو تا ہے۔سب سے پہلی قربانی مشرکانہ رسوم و رواج کو توڑ کر دیتے ہیں یہی ان کے اسوہ کا پہلا سبق ہے۔کہ زمانے کے خداؤں سے اعلان برات اور بیزاری ظاہر کی جائے۔
آپ کی دوسری قربانی اس مشرکانہ معاشرے میں عملی قدم اٹھانا تھا۔آپ نے گویا اس معاشرے کی جڑوں کو ہلا ڈالا۔بتوں کو توڑا اور دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کی کہ یہ بت کچھ نہیں کر سکتے۔ جو خود کو محفوظ نہ رکھ سکتے ہوں وہ آخر کر بھی کیا سکتے ہیں۔
اب جان دینےکا مرحلہ تھا۔آگ کا الاؤ تیار کیا گیا۔آپ جان دینے میں ذرہ برابر نہ ہچکچا ئے۔وہ تو خالق کائنات کا آگ کو حکم ہوا۔ یا نار کونی بردا و سلاما علی ابراھیم۔۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
پھر بھی اطمنان سے نہیں بیٹھے ۔وطن ،گھر بار والدین،خاندان سے الگ ہونے کی قربانی دی۔شام اور پھر مصرکی طرف گئے۔وہاں کچھ واقعات ہوئے۔ مصر کے بادشاہ نے متاثر ہو کر اپنی بیٹی ہاجرہ ان کو دے دی۔وہ فلسطین کی طرف گئے۔جو انتہائی سرسبزوشاداب علاقہ تھا۔ان کی عمر ستر سال سے اوپر تھی رب کریم سے انھوں نے صالح اولاد کی دعا کی۔ وہ مایوس نہ تھے۔تب رب کریم نے اولاد عطا کی۔ کہ ایک اور نئی قربانی کا مرحلہ درپیش ہوا۔ وہ اپنی زوجہ اور بچے کے ساتھ فلسطین سے نکلے حجاز مقدس کی سرزمین پر کالے پہاڑوں کے درمیان ایک بے آب وگیاہ تپتی وادی میں اپنے لخت جگر اور زوجہ کو چھوڑ آئے۔تصور کیجیے۔ایسے سخت ترین حالات میں بڑے بڑوں کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔مگر ابراہیم علیہ السلام یکسو تھے۔ان کے لیے قرآن نے حنیف کا لفظ استعمال کیا۔
ایک سال بعد ملاقات کی اجازت ملی۔اگلی آزمائش انتہا کی تھی بیٹے کو ذبح کر نے کا حکم ہوا۔
یہ ابراھیم ہی تھے کہ تیار ہو گئے۔بیٹا بھی باپ کا پر تو۔والد صاحب جو حکم ہواہےکر گزرئیے ۔صابر شاکر ماں کی تربیت بھی ایسے میں واضح جھلکتی نظر آتی ہے۔ اس آزمائش میں بھی سرخرو ٹھہرائے جاتے ہیں۔
اللہ کا بھیجا دنبہ قربان ہوکر، رہتی دنیا تک کے لیے سنت جاریہ بنتاہے۔بانظر غور دیکھیے۔حج کا پورا عمل اس خاندان کی وفاؤں کے گرد گھومتا نظر آتا ہے۔
اسوہ ابراھیم قربانی کی عظیم داستان کی صورت بتاتا ہے کہ۔اس دنیا میں بغیر قربانی کچھ نہیں۔اس دنیا کا حسن یہ ہے کہ انسان اس تڑپ میں گزار دے کہ رب راضی ہو جا ۓ۔ اور اس راستے میں سب کچھ قربان کر نے پر ہر لمحہ آ مادہ اور تیار رہے۔
یہ ہے قربانی کی اصل روح۔جو اس وقت کھو چکی ہے۔جسے پھر سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔

حصہ