بزم تقدیس ادب پاکستان کا مشاعرہ

225

بزم تقدیس ادب پاکستان نے ساجد رضوی کے اعزاز میں ایک شعری نشست کا اہتمام کیا جس کی صدارت رشید اثر نے کی۔ احمد سعید کی رہائش گاہ پر ہونے والے اس مشاعرے میں محمد علی گوہر نے نعت رسولؐ پڑھنے کی سعادت حاصل کی جب کہ رشید اثر‘ ساجد رضوی‘ ظہور الاسلام جاوید‘ سید آصف رضا رضوی‘ اختر سعیدی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ پروفیسر علی اوسط جعفری‘ سلیم فوز‘ محمد علی گوہر‘ صاحبزادہ عتیق الرحمن‘ خالد میر‘ محمد علی زیدی‘ ضیا حیدر زیدی‘ احمد سعید خان‘ شکیل حیدر اور دیگر نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ اس موقع پر ساجد رضوی نے کہا وہ بزم تقدیس ادب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے میرے اعزاز میں یہ محفل سجائی انہوں نے مزید کہا کہ وہ پچاس برس سے شعر کہہ رہے ہیں لیکن وہ آج بھی خود کو طفلِ مکتب سمجھتے ہیں۔ آج شعرائے کرام گروہوں میں تقسیم ہو کر انجمن ستائش باہمی کے اصول پر کاربند ہیں۔ خالد میر نے کہا کہ ان کی تنظیم چاہتی ہے کہ گوشہ نشین سینئر شعرا کے لیے ایک بڑی تقریب کی جائے جہاں ان کا کلام سنا جائے اور ان کی پزیرائی بھی کی جائے۔ خالد میر کی اس تجویز کو تمام حاضرین نے شرفِ قبولیت سے نوازا۔ ناظم مشاعرہ احمد سعید خان نے کہا کہ پروفیسر جاذب قریشی بہت بڑے شاعر و ادیب تھے‘ انہوں نے اپنی تمام عمر شعر و ادب کی آبیاری کی۔ انہوں نے بے شمار قلم کاروں پر مضامین لکھے انہوں نے جن قلم کاروں پر قلم اٹھایا تھا وہ سب کے سب آج ادبی منظر نامے کا اہم حصہ ہیں۔ صاحبِ صدر رشید اثر نے کہا کہ انہیں بڑی خوشی ہے کہ کراچی میں امن وا مان بحال ہوا جس کے سبب ادبی محفلیں منعقد کرنا آسان ہو گیا ہے‘ آج کے مشاعرے میں بہت اچھی شاعری ہماری سماعت تک پہنچی۔

غزل/اسما صدیقہ

بکھرے ہوے احساس کو میں کیسے سمیٹوں
آغاز سے نمٹوں تو میں انجام کو دیکھوں
ہرگام پہ اخلاص تو اک جرم ھوا ہے
ہر راہ میں اک منزل ناکام جو دیکھوں
کیا کیا نہ مہارت ہے تصنع میں ہنر کو
اب سچے جواہر کی طلب نام کو دیکھوں
جس جھوٹ نے قسمت کو شکنجے میں ہے جکڑا
اس تلخ حقیقت کو تہ دام تو دیکھوں
راتوں کا اندھیرا بھی تو اب جا کے رہے گا
اک صبح کے تارے کو سر شام جو دیکھوں

حصہ