نعت گوئی ایک عبادت ہے

439

’’نعت ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی تعریف و توصیف بیان کرنے کے ہیں لیکن ادبیات اور شاعری میں یہ لفظ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و مدح کے لیے مخصوص ہے۔ نعت ایک صنفِ سخن ہے۔ بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شاعری کی مختلف ہیتوں میں مثلاً قصیدہ‘ مثنوی‘ غزل‘ قطعہ‘ مسدس‘ مخمس‘ نظم اور ہائیکو میں نعت رسولؐ کہی جارہی ہے۔ نعت میں اب شمائل رسول‘ فضائل رسولؐ کے ساتھ ساتھ تبلیغ اور اسلام اور امت کے حالات بھی لکھے جارہے ہیں کہ سیرت رسولؐ کی اطاعت اور پیروی میں ہماری دنیاوی زندگی اور آخرت کی آسانیاں مضمر ہیں۔ نعت رسولؐ میں جھوٹ اور غلو کی گنجائش نہیں‘ ذرا سی بے احتیاطی سے ہم ثواب کے بجائے گناہ گار بن جاتے ہیں۔ نعت کہتے وقت عبد و معبود کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے۔ نعت میں حمد کے مضامین نہیں باندھے جائیں‘ حمت و نعت کے مابین فرق ہونا چاہیے۔ اسلامی اصولوں کے مطابق نعت کہنا‘ نعت پڑھنا‘ نعت سننا عین عبادت ہے۔
نعت گوئی کا آغاز حجازِ مقدس سے ہوا‘ پھر نعت رسولؐ ساری دنیا میں پھیل گئی۔ برصغیر ہند و پاک میں عربی اور فارسی شاعری کو نعت گو ئی کا کریڈٹ جاتا ہے۔ ہندوستان میں حضرت خواجہ نواز گیسودراز کے کہے ہوئے نعتیہ اشعار کو پہلی نعت کہا جاتا ہے تاہم بعض محققین کے مطابق فخرالدین نظامی کی نعتیہ مثنوی ہندوستان کی تاریخ میں پہلی نعت ہے۔ نعت گو شعرا نے ہر زمانے میں نعت کے ذریعے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا ہے۔ تحریک قیام پاکستان میں نعت گو شعرا نے لوگوں کو غلامی سے آزادی کی طرف راغب کیا۔ بہت سے نعت گو شعرا نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن آزادی کی تحریک کی ترویج و اشاعت میں مسلمانوں کے جذبۂ ایمان کو تازہ کیا۔ قیام پاکستان کے بعد نعتیہ شاعری روز بہ روز ترقی کر رہی ہے۔ اس وقت نعتیہ ادب میں پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جارہے ہیں۔ تحقیقی اور مطالعاتی کام جاری ہے نیز نعتیہ شعری مجموعے بھی تواتر کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں۔ نعت گوئی کے فروغ میں الیکٹرانک میڈیا‘ پرنٹ میڈیا اور نعتیہ مشاعروں نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ نعتیہ ادب کا جتنا سرمایہ اردود زبان میں موجود ہے اتنا دوسری کسی زبان میں نہیں۔ بہاریہ اشعار کہنے کے لیے آپ کے کردار و عمل کا دخل نہیں لیکن عشق رسولؐ کے بغیر نعت نہیں ہوسکتی۔ شاعری کی دوسری اصناف میں آپ اپنے محبوب کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملا سکتے ہیں‘ آپ کو کوئی کچھ نہیں کہے گا مگر نعت کا معاملہ دوسرا ہے‘ نعت گو کے لیے لازم ہے کہ وہ جوشِ بیاں میں نعت نگاری کی حدود و قیود سے باہر نہ نکلے‘ رسالت مآبؐ کے فضائل میں کوئی کمی و زیادتی نہ کرے۔
نعت طبع آزمائی کی محتاج نہیں‘ بلکہ یہ عطائے رب کریم ہے کہ تخلیق کار اپنے احساسات‘ جذبات سے سرشار ہو کر نعت کہتا ہے۔ نعت نگاری میں تنقیدی رجحانات پہ اتنا کام نہیں ہوا جتنا ہونا چاہیے تھا۔ وقت و حالات کا تقاضا ہے کہ ہم نعت کے روایتی مضامین کے ساتھ ساتھ جدید لب و لہجہ‘ نئے نئے استعاروں اور آسان زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ میں سمجھتی ہوں کہ نعت نگاری میں بھی تنقید نگاری کی گنجائش نکلتی ہے‘ تنقید کسی بھی زبان و ادب میں نہ صرف ترقی کی ضامن ہے بلکہ یہ مہمیز کا کام کرتی ہے۔ ادب میں تنقید نگاری سے اچھا اب تخلیق ہوتا ہے۔ نعتیہ ادب میں تنقید کے معیارات سے فکر‘ فنی محاسن‘ زبان و بیان کے ساتھ قرآن و حدیث کے مطابق ادب و احترام اور رسالت مآبؐ کے فضائل کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ نعت میں وہی ذکر ہونا چاہیے جو خدا کے نبی کے شایان شان ہو‘ جس کے پڑھنے اور سنانے سے لوگوں پر روحانی اور اخلاقی اثرات مرتب ہوں۔ اسلامی تعلیمات میں ہمیں ایسے اشارے مل جاتے ہیں جن سے ہم اپنی صلاح کر سکتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے میرے متعلق قصداً جھوٹ بولا تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لے۔ نعت میں طہارتِ فکر کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شریعت کے مطابق نعت گوئی کی سعادت عطا فرمائے۔

حصہ