پاکستان نصف صدی قبل: غیر بنگالیوں کا قتل عام

394

مشرقی پاکستان میں مارچ میں جب عوامی لیگ نے علم بغاوت بلند کیا اور وہاں خانہ جنگی شروع ہوئی تو نفرت اور انتقام کی آگ میں انہوں نے اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر ایسے انسانیت سوز مظالم کیے کہ تاریخ میں اس کی مثال خال خال ہی ملتی ہے۔ انہوں نے غیر بنگالیوں کے خون سے پورے مشرقی بنگال کو رنگ ڈالا، انہیں بے دردی، سفاکی اور وحشیانہ انداز میں قتل کیا، عورتوں کی آبرو ریزی کی اور ان کی بستیوں کو آگ لگا کر انہیں زندہ نذر آتش کردیا۔ ان میں سے چند واقعات سے اس جنون کا اندازہ ہوجائے گا، جس میں عوامی لیگ نے بنگالیوں کی اکثریت کو مبتلا کر دیا تھا۔
مارچ کے ابتدائی دو ہفتوں میںپورے مشرقی پاکستان میں ناقابل بیان مظالم روا رکھے گئے۔ ضلع بوگرہ کے سانتا بار کے علاقے میں پندرہ ہزار افراد کو گھیرے میں لے کر نہایت بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ عورتوں کے برہنہ جلوس نکالے گئے اور ماؤں کو اپنے بیٹوں کا خون پینے پر مجبور کردیا گیا۔ چاٹگام کے ایک چھوٹے سے علاقے میں دس ہزار افراد کو جن میں ساڑھے سات سو عورتیں اور بچے شامل تھے، موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ پبنہ کے نزدیک سراج گنج میں ساڑھے تین سو عورتوں اور بچوں کو ایک ہال نما کمرے میں بند کرکے زندہ جلا دیا گیا۔ میمن سنگھ میں دو ہزار خاندانوں پر مشتمل ایک بستی کو مکمل طورپر ملیا میٹ کردیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے دوسرے شہروں سے بھی اسی طرح کی رپورٹیں منظر عام پر آئیں۔ بیرونی اخبارات نے بھی، عوامی حقوق کے نام پر روا رکھے جانے والے ان مظالم کی دلدوز تفصیلات شائع کیں۔
مارچ کے تیسرے ہفتے میں ڈھاکہ کی گلیاں لاشوں سے اٹی پڑی تھیں۔ سڑکوں پر ہرطرف گندگی کے ڈھیر تھے۔ شہر غذائی قلت کا شکار ہوچکا تھا اور مسلح نوجوانوں کے گروہ غیر بنگالیوں کے گھروں میں لوٹ مار کر رہے تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ پانی اور بجلی مفقود تھی، جس سے صنعت و تجارت معطل ہوچکی تھی۔ جب ڈھاکہ کی گلیوں میں غیر بنگالیوں کو ہلاک کیا جاتا تو مکتی باہنی کے کارکن اپنی درندگی کے ثبوت چھپانے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔ قتل و غارت کے ایک ایسے ہی مظاہرے کے بعد ایک عوامی لیگی رہنما نے کہا کہ ان لاشوں کو یہیں پڑا رہنے دو، عبرت کے نشان کے طور پر۔
مارچ اور اپریل کے دوران بنگالی قومیت کا مدتوں سے رکا ہوا سیلاب کنارے توڑ کر بہہ نکلا اور پورے صوبے میں غیر بنگالیوں کے خلاف تشدد آمیز نفرت کی لہر دوڑ گئی۔ ڈھاکہ میں بنگالیوں نے انگریزی زبان میں لکھے ہوئے بورڈ توڑ ڈالے اور غیر بنگالیوں کی دکانوں میں لوٹ مار کر کے انہیں تباہ و برباد کر دیا۔ کئی مقامات پر انہوں نے پنجابیوں اور بہاریوں پر حملے کیے، ان کے جسم ٹکڑے ٹکڑے کرڈالے یا انہیں زندہ جلا دیا گیا یا ان کے گلے کاٹے گئے۔ ایسا کرنے میں مرد ، عورت اور بچوں کی کوئی تفریق روا نہ رکھی گئی۔ میمن سنگھ میں ایک پوسٹ ماسٹر نے صحافیوں کو اپنے جسم پر چھروں سے لگائے گئے زخم دکھاتے ہوئے بتایا کہہ وہ بنگالی بلوائیوں کے قتل عام کا نشانہ بننے والے پانچ ہزار غیربنگالیوں میں سے بچ رہنے والے پچیس افراد میں سے ایک ہے۔ انتھونی مسکرنہاس کے مطابق ہلاک ہونے والے غیربنگالیوں کی تعداد ایک لاکھ ہوسکتی ہے۔ اس نے آبروریزی ، تشدد، اعضاء بریدگی اور مردوں اور عورتوں کو سرعام کوڑے مارنے کے واقعات کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ کئی مقامات پر تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کو ہلاک کرنے سے پہلے ان کی چھاتیاں کاٹ دی گئیں۔ چاٹگام میں ملٹری اکیڈمی کے کمانڈنٹ کو ہلاک کر دیا گیا اور ان کی آٹھ ماہ کی حاملہ بیوی کی آبرو ریزی کے بعد پیٹ میں چھرا گھونپ دیا گیا اور اس کے بیٹے کا سر اس کے ننگے بدن پر ’’سجا‘‘ دیا گیا۔
یہ چند واقعات نمونے کے طورپر پیش کیے گئے، ورنہ پورے مشرقی پاکستان میں اس طرح کے بے شمار واقعات ہوئے اور مسلمانوں نے اپنے ہی بھائیوں کو نفرت کا نشانہ بنایا اور ایسے مظالم کیے کہ انسانیت کانپ اٹھی۔ ایسے مظالم تو شاید کفار نے بھی نہ کیے ہوں۔ یہی نہیں ، بنگلہ دیش بننے کے بعد بہاریوں کو کیمپوں میں محصور کردیا گیا اور جب بہاریوں یا غیربنگالیوں کو پاکستان لایا جانے لگا تو پاکستانیوں خاص طورپر سندھ کے قوم پرستوں نے بہاری نہ کھپے کا نعرہ لگا کر ان زخموں کو مزید گہر ا کردیا۔ ان عناصر کے دباؤ میں آکر حکومت پاکستان نے مزید محصور پاکستانیوں کو بنگلہ دیش سے لانے کا عمل روک دیا۔ نصف صدی گزرنے کے باوجود بہاری کیمپوں میں جانوروں سے بدتر زندگی بسر کررہے ہیں۔ صرف پاکستان سے وفاداری کے جرم میں اور وہی نہیں ، بلکہ وہ بنگالی مسلمان بھی پاکستان سے وفاداری کے جرم میں اب تک پھانسیوں پر لٹکائے جارہے ہیں جنہوں نے خانہ جنگی کے دوران محض اس لیے پاکستان کو بچانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگادی تھی، کیونکہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ میری مراد جماعت اسلامی کے رہنماؤں اور کارکنوں اور الشمس اور البدر کے عظیم مجاہدین سے ہے۔

حصہ