ہم کیوں مسلمان ہوئے؟میوس بی جولی

میں ایک عیسائی خاندان میں پیدا ہوئی۔ چرچ آف انگلینڈ میں بیتسمہ دیا گیا اور ہوش سنبھالنے پر ایک چرچ اسکول ہی سے تعلیم کا آغاز کیا جہاں میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں وہ کہانیاں پڑھیں جو بائبل میں بیان کی گئی ہیں۔ ان کہانیوں نے اور چرچ کی فضا نے مجھے جذباتی طور پر بہت متاثر کیا۔ اونچی قربان گاہ پر بھڑکتی ہوئی شمعیں‘ تیز خوشبو کی لپتیں‘ لانبے چوغوں میں مبلوس پادری اور عبادت کے وقت سرگوشیوں کا ماحو ل۔ یہ سب کچھ مجھے بہت پُراسرار لگتا اورمیرے ننھے سے ذہن پر رعب سا طاری رہتا۔ ان دنوں میں واقعی مخلص اور پرجوش عیسائی تھی‘ لیکن جوں جوں عمر بڑھتی گئی اور بائبل اور عیسائیت کا مطالعہ تسلسل سے جاری رہا‘میں سوچنے لگی کہ جو کچھ میں پڑھتی ہوں‘ جس پر میرا ایمان ہے اور جسے میں عبادت کی عملی صورت بھی دیتی ہوں‘ آخر اس کی حقیقت کیا ہے؟ اسی سوچ کا نتیجہ تھا کہ عیسائیت پر مجھے کامل اطمینان نہ رہا اور کئی باتوں میں یقین ڈگمگانے لگا۔ حتیٰ کہ حالت یہ ہوئی کہ جب میں اسکول سے فارغ ہوئی تو مکمل طور پر دہریت کی نذر ہو چکی تھی۔
دہریہ بننے کے باوجود دل کو سکون حاصل نہ ہوا تو میں نے دیگر مذاہب کا مطالعہ کرنے کی ٹھانی۔ آغاز بدھ مت سے کیا اور بہت دل چسپی سے اس کی پیچیدہ فلاسفی کا مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچی کہ بلاشبہ اس مذہب کے کچھ نیک مقاصد بھی ہیں لیکن انسانی رہنمائی اس کے مقدر میں نہیں ضروری تفصیلات کا بھی وہاں غیر معمولی قحط نظر آیا۔
ہندومت کا مطالعہ کیا تو میں بہت سٹپٹائی۔ میں عیسائیت کے تین خدائوں سے بے زار تھی مگر یہاں تو ہزاروں خدا کلبلا رہے تھے اور ان کی کہانیاں اتنی مضحکہ خیز تھیں کہ انہیں قبول کرنا تو درکنا پڑھتے ہوئے بھی گھن آتی تھی۔
میں نے یہودیت کو جاننے کی کوشش بھی کی۔ عہد نامہ قدیم (توریت) کو میں پہلے ہی پڑھ چکی تھی اور اندازہ کر چکی تھی کہ میرے معیار کے مطابق ایک مذہب کو جیسا ہونا چاہیے‘یہودیت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایک دوست نے روحانیت کی طرف توجہ دلائی اور مشورہ دیا کہ روحوں کو بلانے کے لیے چلّہ کشی کروں۔ میں نے یہ کام شروع بھی کیا‘ مگر اسے زیادہ دیر تک جاری نہ رکھ سکی۔ دارصل مجھے بہ خوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ کم از کم میرے معاملے میں یہ شغل سرار خود فریبی کے مترادف ہوگا بلکہ اگر اسے مزید جاری رکھا گیا تو سخت نقصان دہ ثابت ہوگا۔
دوسری عالمی جنگ ختم ہوگئی میں نے لندن کے ایک دفتر میں نوکری کرلی۔ بظاہر مصروف ہوگئی مگر میرا ذہن مذہب کی جستجو سے بے نیازنہ رہ سکا۔ انہی دنوں کی بات ہے ایک اخبار میں کسی کا خط چھپا جس کی تردید میں نے بائبل کے حوالوں سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مسیح کا تقدس واہمے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ میرا یہ خط بہت سے لوگوں سے رابطے کا سبب بن گیا جن میں سے ایک مسلمان بھی تھا۔ اس نے قرآن کے حوالوں سے ثابت کیا تھا کہ مسیح کی عظمت اور تقدس ہر قسم کے شک و شبہے سے بالا ہے۔ واقفیت بڑھتی تو میں نے اپنی اس مسلمان دوست سے اسلام کے بارے میں مراسلت شروع کی۔
میں اعتراف کرتی ہوں کہ ہر نکتے پر میرے اندر اسلام کی مخالفت کا جذبہ دَم توڑتا گیا۔ اگرچہ یہ بات ناممکن لگتی تھی‘ مگر میں یہ تسلیم کیے بغیر نہ رہ سکی کہ انسانی تاریخ میں مکمل انقلاب ایک فردِ واحد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے برپا کیا تھا جب کہ بیسویں صدی کے تمام تر وسائل کے باوجود آج کی بہترین حکومتیں اس انقلاب کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکیں اور تہذیبی و فکری اصلاح کی لیے اسلام کی مرہون منت ہیں۔
اس موقع پر میں چند دیگر مسلمانوںسے بھی ملی اور نو مسلم انگریز خواتین سے بھی تبادلۂ خیال کیا مگرشرحِ صدر حاصل نہ ہوسکا۔ اس دوران میں‘ میں نے کئی کتابوں کا مطالعہ کیا جن میں ’’ریلیجن آف اسلام‘‘’’ محمدؐ اینڈ کراسٹ‘‘ اور ’’سورسز آف کریبلٹی‘‘ قابل ذکر ہیں۔ آخرالذکر کتاب ک مطالعے سے انکشاف ہوا کہ عیسائیت اور قدیم بت پرسی کے درمیان حیرت انگیز مشابہت پائی جاتی ہے پھر میں نے (باقی صفحہ11 پر)

حصہ