محبت اور اظہار محبت

496

فی زمانہ محبت کا اظہارِ محبت کی محدودات کا اظہار بن کر رہ گیا ہے ۔ یہاں تک کہ یہ اظہار ِمحبت کی بھونڈی پیروڈی میں ڈھل جاتا ہے ۔ فلمیں ، ڈرامے ، یہاں تک کہ ادب بھی اس صورت حال کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے ۔
اظہار کا ہمیشہ سے یہ مسئلہ رہا ہے کہ اس میں حقائق کسی نہ کسی حد تک بدہیئت (Distort) ہوجاتے ہیں، اس لیے کہ الفاظ بہت سے حقائق کے اظہار کے لیے کفایت ہی نہیں کرپاتے ۔ پھر یہ مسئلہ اپنی جگہ ہے کہ آپ ایک بات کہہ دیتے ہیں اور اس کی وجہ سے تین دوسری باتیں اظہار سے محروم رہ جاتی ہیں، چنانچہ محبت ہی نہیں اور بہت سی چیزیں بھی اظہار کی د ست برد میں آکر برباد ہوجاتی ہیں اور اس طرح اظہار ان چیزوں سے زیادہ ان کی محدودات کے اظہار کا اشتہار بن جاتا ہے ۔ لیکن ہم نے یہاں محبت کے اظہار کی بات کسی اور تناظر میں کہی ہے ۔
محبت کا اظہار مجرد نہیں ہوتا ۔ محبت کا اظہار انسان کی طرف سے ہوتا ہے اور انسان کی محبت کو انسان سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا اور انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا ایک مزاج ، تناظر ، چند عادات وخصلات اور کچھ ترجیحات ہوتی ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ چڑیوں کے گیت انسانوں کی شاعری سے زیادہ خوبصورت اور با معنی ہوتے ہیں ، لیکن آج تک کسی چڑیا کو شعر لکھتے ہوئے نہیں دیکھا گیا اور اگر کسی دن کوئی آپ کو بتائے کہ اس نے چڑیا کو میرتقی میر کی زمین میں غزل کہتے دیکھاہے تو آپ یقینا اس بات پر اعتبار کرنے سے صاف انکار کردیں گے اور یقیناآپ کو مذکورہ اطلاع فراہم کرنے والے کی ذہنی حالت پر شبہ ہوگا ۔ فی زمانہ انسان اور محبت کے باہمی تعلق کی نوعیت بھی کم وبیش یہی ہے ۔ یعنی چڑیا کے شعر کہنے کی بات پر اعتبار کرنا جتنا مشکل ہے ، لوگوں کے دعوی محبت پر اعتبار کرنا اس سے کہیں زیادہ دشوار ہے ۔ لیکن ہم یہ فرض کیے چلے جارہے ہیں کہ محبت کا وجود ہے ۔ بلاشبہ محبت کا وجود ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو محبت کرنے کی ’’صلاحیت‘‘ رکھتے ہوں ؟؟
یہاں بعض لوگوں کو ’’صلاحیت ‘‘ کے لفظ سے غلط فہمی ہوسکتی ہے ، ہوسکتا ہے کہ وہ اس لفظ کے استعمال ہی پر معترض ہوں ، چنانچہ اس لفظ کی وضاحت ضروری ہے ۔ صلاحیت کا ایک مفہوم موٹر سائیکل ٹھیک کرنے یا خلائی شٹل اڑانے کی صلاحیت ہے ، لیکن صلاحیت کا ایک مطلب ’’جذب‘‘ کرنے کی ا ستعداد بھی ہے ۔ کچی زمین پر پانی گرتا ہے اور مٹی اس پانی کو جذب کرلیتی ہے ، اس لیے کہ اس میں پانی کو جذب کرنے کی صلاحیت ہے ، لیکن پختہ فرش پانی جذب نہیں کرتا یا اتنانہیں کرتا جتنا کہ کچی زمین کرسکتی ہے ۔ فی زمانہ لوگوں کی عظیم اکثریت ایسا ہی پختہ فرش بن گئی ہے ۔ یہ فرش محبت کو جذب نہیں کرسکتا چنانچہ محبت کی بارش ہوتی بھی ہے تو پانی سطح پر ٹھہرایا پڑا رہتا ہے ۔ پانی زیادہ ہو تو پھر اس سے مچھر پیدا ہوتے ہیں۔ مکھیاں اس سے استفادہ کرتی ہیں ۔ پانی کی مقدار مزید زیادہ ہو تو کچھ دنوں بعد اس میں مینڈک پیدا ہوجاتے ہیں جو وقتا فوقتا محبت کے ترانے کمپوز کرتے رہتے ہیں ۔ اس صورتحال سے محبت کا ایسا منظر نامہ تیار ہوتا ہے کہ جس پر شعر کہے جاتے ہیں ، ڈرامے تخلیق ہوتے ہیں، فلمیں تیار ہوتی ہیں، لیکن اس منظر نامے میں سب کچھ ہوتا ہے سوائے محبت کے ۔
ڈی ایچ لارنس نے ’’محبت‘‘ کے بارے میں ایک اچھی بات کہی ہے ۔ اس نے کہا ہے کہ محبت کی ضد نفرت نہیں بلکہ فردیت یا Individuation ہے ۔ یہ بات بڑی حد تک درست ہے ۔ محبت اور نفرت تعلق کے سکے کے دورخ ہیں اور اگر آپ اجازت دیں تو ہم عرض کریں گے ان دونوں میں ایک طرح کا جدلیاتی تعلق ہوتا ہے ، چنانچہ محبت کو نفرت سے اور نفرت کو محبت سے ’’فروغ‘‘ حاصل ہوتا ہے ، ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے یہ بات قابل قبول نہ ہوکہ محبت اور نفرت تعلق کے ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔ تاہم اگر ہم محبت اور نفرت کی جگہ دو اور لفظ رکھ دیں تو بات زیادہ عیاں ہوجائے گی ۔ محبت دراصل ’’ التفات‘‘ کی اگلی منزل ہے اور نفرت ’’گریز‘‘ کی ایک انتہائی صورت لیکن ان میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں کا تعلق ایک ہی وجود سے ہوتا ہے ۔ ہمیں محبت اور نفرت دونوں کا تجربہ نہیں ، البتہ مشاہدے اور قیاس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ نفرت بسا اوقات وجود کے ان گوشوں کو روشن اور متحرک کرنے کا فریضہ انجام دیتی ہے جو بالآ خر کام تو محبت کے آتے ہیں لیکن جن کو محبت یا التفات نہ روشن کرسکتی ہے اور نہ متحد ، استثنائی صورتوں کی بات البتہ اور ہے ۔ بہر حال یہاں کہنے کی بات یہ ہے کہ محبت کی ضد نفرت نہیں، فردیت ہے اور فردیت محبت کی ضد اس لیے ہے کہ محبت کا اصول انجذاب اور اتباط باہمی ہے اور فردیت ان دونوں اصولوں کے انکار سے جنم لیتی ہے ، انفرادیت کا ایک مفہوم کائناتی سطح پر بھی کلام کرتا ہے ۔ یہاں ہر انسان اپنے جوہر میں دوسرے سے مختلف ہے ، میرتقی میر کے شعر
وجہ بیگانگی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہو ، واں کے ہم بھی ہیں
کا مفہوم یہی ہے ۔ اس بیگانگی سے المیہ احساس ، تنہائی اور بہت کچھ پیدا ہوسکتا ہے ، لیکن ہم جس انفرادیت کا ذکر کررہے ہیں وہ سماجیات ، نفسیات ، یہاں تک کہ اقتصادیات کی سطح پر آپریٹ کرتی ہے ، بہ الفاظ دیگر اس کا تعلق شخصیت سے ہوتا ہے ۔
شخصیت کا لفظ Personality کا ترجمہ ہے اور Personality کے بارے میں ’’محققین‘‘ فرماتے ہیں کہ یہ لفظ Persona سے بنا ہے اور Persona اس چہرے کو کہتے ہیں جسے کبھی اسٹیج پر اداکار چہرے پر لگا کر ناظرین باتمکین کے سامنے آیا کرتے تھے ۔ اس اعتبار سے شخصیت ، اوڑھے ہوئے یا لگائے ہوئے چہرے کو کہتے ہیں ۔ اس تناظر میں شخصیت ایک اکتسابی چیز ہے اور ذات ایک فطرح حقیقت ، یہ سب باتیں درست ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کسی انسان کی شخصیت اور اس کی ذات میں تعلق کی نوعیت کیا ہے ؟کسی شخص میں شخصیت اور ذات کے مابین نہ ہونے کے برابر تعلق ہے ؟ کیا کسی شخص میں شخصیت ذات پر قابض ہوکر رہ گئی ہے ؟ یا اس پر ذات کا غلبہ ہے ۔ ان دو حقائق کے مابین تعلق کی نوعیت سے شخصیت کی گہرائی وگیرائی کا تعین ہوتا ہے ۔ وہ شخصیت جو ذات سے کٹ کر رہا جاتی ہے یا اس کا ذات سے بہت سطحی اور سرسری تعلق ہوتا ہے ایک اتھلی شخصیت ہوتی ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارا دور اتھلی شخصیتوں کا دور ہے ۔
اس پس منظرمیں دیکھا جائے تو محبت کے حوالے سے ’’ کریلا اور نیم چڑھا‘‘ والی صورت حال درپیش ہے ۔ فردیت محبت کی ضد ہے اور فردیت کا تعلق شخصیت سے ہے ۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ شخصیت جتنی اتھلی ہوگی ، فردیت اتنی ہی سطح ہوگی ۔ اور فردیت جتنی سطحی ہوگی ، محبت کا تجربہ بھی اتنا ہی سرسری ہوگا ۔ اظہار تجربے ہی سے جنم لیتا ہے ۔ چنانچہ جب تجربہ ہی سطحی ہوگاتو اظہار بھی اتھلا ہوگا ۔ لیجیے بات جہاں سے شروع ہوئی تھی گھوم پھرکر دوبارہ وہیں آگئی ہے ۔ یعنی یہ کہ فی زمانہ محبت کا اظہار محبت کی محدودات کا اظہار بن کررہ گیا ہے ۔ یہاں تک کہ محبت کا اظہار محبت کی بھونڈی پیروڈی میں ڈھل جاتا ہے اور یہ کہ ہماری فلمیں اور ڈرامے ہی نہیں ، ہمارا ادب بھی اس نوع کی محبت کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے ۔
خلیل جبران نے کہیں لکھا ہے کہ لوگ مذہب کے لیے جان دے سکتے ہیں مگر مذہب پر عمل نہیں کرسکتے ۔ یہ بات محبت کے لیے بھی یکساں طور پر درست ہے ۔ لوگ محبت کے لیے جان دے سکتے ہیں لیکن محبت کے تقاضوںکو نہیں نبھاسکتے ۔ بلاشبہ یہ کوئی آج ہی کا مسئلہ نہیں لیکن یہ مسئلہ آج جس طرح نمایاں ہوا ہے ، پہلے شاید ہی کبھی ہوا ہو ۔ لیکن محبت کے تقاضے کیا ہیں؟ محبت کا ایک اہم تقاضا خاموشی ہے ، اس لیے کہ خاموشی محبت کی سب سے بڑی قوت ہے ، لیکن فی زمانہ محبت میں خاموشی کی جگہ گفتار اور لذت گفتار نے لے لی ہے ۔یہاں گفتار کا مطلب زبان کے وسیلے تک محدود نہیں بلکہ اس سے مراد وہ منظر نامہ Setting ہے جس میں ڈرامائی عنصر کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے ۔
یہاں ڈرامائی عنصر سے مراد ڈرامائی یا فلمی عناصر نہیں بلکہ اس سے مراد وہ احوال ہیں جو محبت کے حوالے سے فرض کرلیے گئے ہیں اور جن کے بغیر کسی کو یقین نہیں آسکتا کہ اسے محبت ہو گئی ہے ۔ ان احوال سے ایک ایسا اسٹیر یو ٹائپ جنم لیتا ہے جسے انسان تو کیا انسان کا سایہ قرار دیتے ہوئے بھی مشکل ہوتی ہے ۔
ابھی چند روز پیشتر احباب کی مجلس میں محبت کا ذکر خیر ہورہاتھا تو ہم نے عرض کیا تھا کہ لوگ محبت میں سانپ کی طرح کینچلی بدل لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ اب ایک مختلف انسان بن گئے ہیں، حالانکہ کینچلی بدلنے سے سانپ نیا سانپ نہیں بنا جاتا ۔ اس پر ہمارے عزیز دوست شہاب محمود نے سوال کیا کہ کینچلی بدلنے سے تکلیف تو ہوتی ہوگی ۔ ہم نے عرض کیا کہ چونکہ ہم کبھی سانپ نہیں رہے ، اس لیے یہ کہنا تو مشکل ہے کہ اس سے تکلیف ہوتی ہوگی یا نہیں ۔ تاہم اتفاق سے ہم نے سانپ کی کینچلی بھی دیکھی ہے اور سانب کو کینچلی بدلتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ کینچلی بدلنے سے پہلے اور بعد میں سانپ کی حالت ٹھیک نہیں رہتی، وہ مضمحل سا ہوجاتا ہے ۔ بہت سے لوگ محبت میں کینچلی بدل کر اسی طرح مضمحل سے ہوجاتے ہیں اور اس اضمحلال سے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بجائے خود محبت کی علامت ہے ۔ یہ اضمحلال بھی انھی احوال میں سے ایک ہے جن کا ہم نے ابھی ذکر کیا ہے ۔
بہت سے لوگ سمجھتے کہ یہ سب کچھ فلموں اور ٹیلی ویژن وغیرہ کا کیا دھرا ہے لیکن یہ سوچنے کی زحمت کوئی نہیں کرتا کہ فلمیں اور ٹیلی ویژن کے ڈرامے کیا ازخود وجود میں آگئے ؟ کیا ان کے موضوعات اور موضوعات سے بڑھ کر موضوعات کے ’’ ٹریٹمنٹ‘‘ کی پشت پر کوئی تصور کام نہیں کررہا؟ کیا اس کا کسی ذہنیت سے کوئی تعلق نہیں ؟ یہ یقینا دھوبی کے بجائے دھوبی کے گدھے کے کان اینٹھنے والی بات ہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ ذرائع ابلاغ بھی انسانوں اور معاشرے میں کچھ ’’تقاضے‘‘ پیدا کرتے ہیں ، لیکن یہ بھی ٹھیک ہے کہ یہ تقاضے معاشرے اور انسانوں کی کمزوریوں کی وجہ ہی سے وبا بنتے ہیں۔ انسان کی قوت مزاحمت سلب ہوجائے تو وہ معمولی سردی میں نزلے زکام کا شکار ہوجاتا ہے ورنہ تپ دق کے جراثیم بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ پاتے ۔
مذہب انسان کو نہ بدل پائے تو تین ہی امکانات ہوسکتے ہیں یا تو وہ مذہب جھوٹا ہے یا انسان جھوٹا ہے یا پھر دونوں ہی جھوٹے ہیں۔ جو محبت انسان کو نہیں بدل سکتی اس کے حوالے سے بھی تین ہی امکانات سامنے آتے ہیں یا تو وہ محبت اتھلی ہے یا انسان یا دونوں ۔ اتفاق سے ہم جس عہد میں زندہ ہیں وہ اتھلے انسانوں کی اتھلی محبت کا زمانہ ہے ۔ لیکن اس بات کا اعتراف جان لیو اہے ۔ آخر کون ہوسکتا ہے جو یہ اعتراف کرے کہ وہ محبت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ۔ شاید یہ بات ہم نے پہلے بھی کہیں لکھی ہے کہ اب لوگوں کی اکثریت کو محبت کی نہیں ’’ توجہ ‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے ، ایسی تویہ جیسی اچھے ہسپتالوں میں نرسیں دیا کرتی ہیں ۔ وقت پر دوا ، وقت پر بلڈپریشر نوٹ کرنا اور وقت پر بستر کی چادریں بدلنا ۔ لوگ اب اس توجہ کو محبت سمجھتے ہیں۔ محبت میں بھی توجہ ہوتی ہے لیکن یہ تو جہ انسان کے سماجی کیا ؟ بعض نفسیاتی اور جذباتی متعلقات کو بھی فنا کردیتی ہے لیکن یہ زمانہ :
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
کا زمانہ ہے اور ذرا دیکھیے اس شعر میں نرس والی توجہ کس زور سے بول رہی ہے ۔

حصہ