اسوۃ ابراہیمی نظام سے بغاوت

438

ہم جاننا نہیں چاھتے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں سے نہیں نظام سے بغاوت کا اعلان کیا تھا۔اگر حضرت ابراہیم کا پاکیزہ نفس بتوں کے آگے سر جھکانے پر تیار نہ تھا تو وہ پہاڑوں پر چلے جاتے،کسی خانقاہ میں جاکر معرفت حاصل کرتے۔اصحاب کہف کا راستہ بھی ایمان کی بقا کا راستہ تھا۔۔۔
ان کی ٹکر نظام سے تھی،جاری رسوم واقعات سے تھی۔
قدرت نے زندہ دل دیا تھا جس نے نظام کائنات میں تفکر کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ میں ڈوب جانے والوں سے محبت نہیں کرتا۔۔
جو ذات قائم رہنے والی ہے اس کی مخلوق پر حکم بھی اسی کا چلنا چاہیے۔
آپ ہی جانیں! اس سے اچھا کون سا وقت ہوگا اسوۂ ابراہیمیؑ کو جاننے کا۔
جب ہمارے چاروں سمت سے جانوروں کی آوازیں ،قربانی کی تیاری،حج کا موسم،یوم عرفہ کی عظمت۔حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی قربانی کی یاد۔۔۔
قربانی کی بات تو کی جاتی ہے مگر دین ابراہیمی کی نہیں۔۔
اللہ کے نبیﷺ کی زندگی گواہ ہے کہ آپﷺ نے جان لیا تھا کہ دین ابراہیمیؑ وقت کے طاغوتوں سے ٹکرانا ہے،سماج کے خداؤں کو للکارنا ہے، اور کہیں رسوم ورواج کی صورت میں بھی۔
دین ابراہیمیؑ اس حاکم وقت سے ٹکرانا ہے جو طاغوت کا استعارہ ہے۔
دین ابراہیمیؑ حاکم الحاکمین کی بندگی ہے۔
دین ابراہیمیؑ انسانوں کوظلم اور بے چارگی سے نکالنا ہے۔
آپﷺ نے جان لیا کہ دین ابراہیمیؑ نظام عدل ہے تو آپ ﷺ نے کمر کس لی کہ اس دین کو قائم کرکے رہیں گے۔
آپﷺ کو خوب معرفت تھی کہ ان کے جد امجد ابراہیم ؑ نے اس مشن کی تکمیل کے لیے جو جو صعوبتیں اٹھائی تھیں، جن امتحانوں سے گزرے تھے وہی مشعلِ راہ ہیں۔
قرآن نے اسوہ ابراہیمیؑ یونہی تو نہیں کھول کھول کر بیان کیا کہ قرآن کی منزلوں پر منزلیں پڑھتے جائیں، پڑھ پڑھ کر مردوں کے درجات بلند کرنے کی فکر کریں۔
ہم زندوں کے لیے جو مشن ہے اس کی طرف التفات ہی نہ کریں۔
جب ابراہیم ؑ کی ذات وصفات آشکارا ہوگئیں تو کیا آپﷺ نے “یا ابراہیم یا ابراہیم” کی تسبیح شروع کردی؟یا ان سے دست گیری کی امید کی،یا فرشتوں اور ابابیلوں کا انتظار کیا کہ اللہ اپنے دین کے نفاذ کے لیے آسمانی لشکر اتارے،چاہے فرشتوں کے ہوں یا ابابیلوں کے جھنڈ۔۔۔
آپ ﷺ نے اپنے اصحابؓ کو حضرت ابراہیمؑ کی شخصیت پرستی پر نہیں لگا دیا کہ ہزار دانے تسبیح پر درود ابراہیمی پڑھو اس کی برکت سے آسمانوں سے رزق کے دروازے بھی کھلیں گے اور دنیا کی خلافت بھی نصیب ہو جائیگی!!!
آپﷺ سے زیادہ دانا وبینا ہستی روئے زمین پر اور کون سی گزری ہے؟
آپﷺ پر لاکھوں درود ، لاکھوں سلام۔
ہم اور ہمارے جیسے ہزاروں بار آپﷺ پر قربان۔
آپﷺ نے انکا مشن اپنا لیا اور اپنےاصحابؓ کے ساتھ سینہ سپر ہوگئے۔
دنیا نے دیکھا کہ 23 برس کی ان تھک، مسلسل جدوجہد، جس میں طائف کی گھاٹیاں بھی تھیں اور شعب ابی طالب بھی، جہاں تین برس کی ایسی سختیاں کہ اصحاب رسولﷺ فرماتے تھے کہ درختوں کے پتے کھانے سے ہمارے منہ سے جانوروں کی طرح لعاب آنے لگا تھا۔(طبقات ابن سعد)
اور ۔۔۔۔۔بالآخر دین ابراہیمیؑ قائم ہوگیا۔۔
درجن بھر سے زیادہ غزوات اس سے دوگنا سرایا۔۔۔
حج اگر دین ابراہیمیؑ کے نفاذ کی جوت نہیں جگاتا پھر تو اقبال کا شکوہ بجا ہے کہ
ہے طواف وحج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام
ایک ہنگامہ یا گوشت کا سالانہ تہوار۔۔
اگر جانور کے گلے پر چھری پھیرتے وقت نہ سوچا کہ یہ کوئی منتر نہیں بلکہ قرآن کا زندہ پیغام ہے، جس کو گواہ بنایا ہے جانور کا خون بہانے سے پہلے کہ۔
انی وجھت وجھی للذی فطر السموات والارض۔حنیفا وما انا من المشرکین۔۔
اپنے “حنیف “ہونے کی گواہی ہمیں خود دینا ہے کہ جیسے جانور کو قبلہ رخ لٹایا ہے اے رب گواہ رہ کہ جانور تو استعارہ ہے آج میں نے اپنا قبلہ درست کرلیا۔
۔۔۔ہم تو تاریک راہوں میں مارے گئے۔۔۔
یوم عرفہ کی تکبریں۔۔لبیک اللھم لبیک۔۔۔زبان پکار رہی ہے لبیک۔عرش سے آواز آرہی ہے تم کہاں حاضر ہو تمہیں تو کار جہاں سے فرصت ہی نہیں۔۔
تمہاری حاضری کن چوکھٹوں پر لگ رہی ہے۔رزق کے دروازے کھٹکھٹاتے، غیروں کی چاکری کرتے اللہ کے ماسوا جن کو رازق سمجھتے ہو وہ تم سے اپنی چوکھٹ پہ سجدے بھی کراتے ہیں۔
انفرادی زندگی دو دو چار کرتے تمام ہوجاتی ہے۔
جب عمر کی نقدی ختم ہونے لگتی ھے تو تمہیں طفل تسلی دی جاتی ہے کہ سوالاکھ دفعہ کلمہ پڑھ لو جنت کے باغات میں سے بلند باغ کے وارث ہوجاؤ گے۔۔۔
تمہارے شعور نے کبھی تمہیں نہ بتایا کہ یہ روزہ ۔نماز،حج کب مطلوب تھے۔یہ تو راستے کا فیول تھے۔منزل تو دین کی سرفرازی تھی۔۔
حضرت ابراہیم ؑ کا اتباع دین ابراہیمیؑ کے قیام سوا اور کیا پے؟؟
رسولوں کی ذات کی پرستش نہ رسولوں کا مشن ہوتا ہے اور نہ ہی مقصد نبوت ۔1442 ہجری کا یہ مقامی حج۔۔۔چند لوگ۔۔
کووڈ کے سائے،حرم شریف کی تنہائی۔
بلاوے کے منتظر، پرنم آنکھوں سے سب دیکھ رہے ہیں۔
اس چوکھٹ پہ نہ جا سکے۔۔بلائے نہ گئے۔۔اتنی سخت پابندیاں کہ طواف پہ جرمانے لگ رہے ہیں۔۔۔یہ محرومی اگر ہمیں متوجہ نہیں کرتی کہ فلاح کا ایک ہی راستہ ہے کہ ابراہیمی مشن کو اپنا لیں اللہ کی رحمت بندوں کو مایوس نہیں لوٹاتی۔۔۔
ہمارے عزم ،ہمارے ارادے۔۔ہماری۔ایمانی قوت کا امتحان مقصود ہے۔۔
اور عرفہ کے روز۔۔۔۔
دین ابراہیمیؑ کے قیام کا جو مشن قرآن نے سونپا تھا اس کے بارے میں یقیناً ہم سب کوسوچنا ہے۔۔
کیونکہ یہ ہے مانگنے کا دن۔۔
مانگیے،مانگیے،بس مانگیے
جوتے کے تسمہ سے
امہ کی سرفرازی تک
یہ تمنائیں ہوتی ہیں جو۔۔
لبوں پہ دعا بن کے آتی ہیں۔۔۔
آج کے دن تمنا کیجیے۔۔
زندگی میں ایک اور دن ملا جو
مانگنے والوں کا دن ہے۔
دینے والا پھیلے ہوئے ہاتھ دیکھ رہا ہے،آنکھوں کے نم گوشے بھی اور۔۔۔
دل کی تمنائیں بھی۔۔۔
کچھ لوگوں کی تمنائیں بھی بہت بڑی ہوتی ہیں
ہمالیہ جیسی
اگر تمنائیں ہی دعائیں ہیں
پھر آج یہ عظیم دن ملنے کی سعادت پر
دل کی زرخیز کھیتی میں
کسی بڑی تمنا کا بیج بوتے ہیں۔
موسم بھی اچھا ہے۔۔
اس کی رحمتوں کی بدلی چھائی ہوئی ہے۔۔
پانی بھی وافرہے ندامت کے آنسوؤں کا
اور۔۔۔اور۔۔۔
مٹی بھی زرخیز ہے۔۔۔۔
پھر اس کے خزانوں میں کیا کمی ہے۔۔۔
ہم اپنے ظرف و ظروف بھر مانگتے ہیں
وہ اپنی شان کریمی کے مطابق عطا کرتا ہے۔۔
مانگنے کا دن بن مانگے نہ گزر جائے۔
مانگیے اور بس مانگیے۔۔
فقیروں کی طرح مانگیے
عاجز ودر ماندہ کی طرح مانگیے
ضعیفوں کی طرح مانگیے
منگتوں کی طرح مانگیے
اس سے مانگ کر نامراد کوئی نہیں رہتا،
اس در سے کوئی سائل جھڑکا نہیں جاتا،
ہمیں دوسروں کے پھیلے ہاتھ برے لگتے ہیں جب کہ وہ پھیلے ہوئے ہاتھوں کا منتظر رہتا ہے
وہ بن مانگے بھی دیتا ہے
مگر مانکنے کی لذت سے محروم نہ رہیے۔
دعا عبادت کا مغز ہے
جوہر ہے،زندگی ہے،بندگی ہے
زندگی بے بندگی
صرف شرمندگی ہے۔۔

حصہ