سود

-5 اگر باپ دارالاسلام میں ہو اور اس کی نابالغ اولاد دارالحرب میں ہو گو اس اولاد پر سے باپ کی ولایت ساقط ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر مال کا مالک دارالاسلام میں ہو اور مال دارالحرب میں ہو تو مالک کی جان معصوم ہوگی مگر مال معصوم نہ ہوگا۔ (فتح القدیر۔ ج:4‘ ص: 355)
-6 دارالاسلام کی رعایا میں سے دو مسلمان امان لے کر دارالحرب میں چلے گئے اور وہاں ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا۔ اگر قاتل دارالاسلام میں واپس آئے تو اس سے قصاص نہ لیا جائے گا۔ صاحب ہدایہ نے اس کی جو وہ بیان کی ہے وہ قابل غور ہے۔
’’اس پر قصاص اس لیے واجب نہیں کہ قصاص بغیر حفاظت مسلمین کے نہیں ہوتی اور یہ چیز دارالحرب میںموجود نہیں ہے۔‘‘ (ہدایہ: کتاب السیر)
-7 دارالاسلام کی رعایا میں سے دو مسلمان دارالحرب میں آئے تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا یا کوئی مسلمان امان لے کر دارالحرب گیا اور وہاں اس نے کسی مسلمان اسیر کو قتل کر دیا۔ دونوں صورتوں میں پر نہ قصاص ہے نہ خون بہا۔ علامہ ابن ہمام نے اس کی جو تشریح کی ہے وہ اور بھی زیادہ معنی خیز ہے‘ فرماتے ہیں:
’’ابو حنیفہؒ کے نزدیک قاتل پر احکام دنیا میں سے کچھ نہیں بجز اس کے کہ وہ خطا کی صورت میں کفارہ ادا کر دے۔ رہا قتل عمد تو اس پر کفارہ بھی نہیں‘ البتہ آخرت کا عذاب ہے۔ قصاص اور دیت کی ساقط ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قید ہونے کی وجہ سے وہ وہ اہل حرب کا تابع ہوگیا اور اس کی حیثیت اس مسلمان کی سی ہوگئی جس نے ہماری طرف ہجرت نہ کی ہو اور اس حیثیت سے اس کی دنیوی عصمت ساقط ہوگئی۔‘‘
دیکھیے ان مثالوں میں اعتقادی قانون اور دستوری قانون کا فرق کس قدر نمایاں ہے۔ اعتقادی قانون مسلمانوں کو ایک قوم اور کفر کو دوسری قوم قرار دیتا ہے اور اس کا تقاضہ یہ ہے کہ مسلمان کی جان‘ مال اور عزت کو کافر کی جان و مال اور عزت پر ترجیح دی جائے۔ لیکن دستوری قانون اس عالمگیر تقسیم کے بجائے اپنے حدود عمل ۔جو رسڈکشن) کو حدود ارضی تک محدود کرتا ہے‘ سلطنت اسلامیہ کے حدود میں جو جان ہے‘ جو مال ہے‘ جو شے ہے وہ ’’معصوم‘‘ ہے خواہ وہ مسلمان کی ہو یا کفر کی کیوں کہ سلطنت کا قانون اس کی حفاظت کا ذمہ لے چکا ہے اور ان حدود کے باہر جو چیز ہے ’’غیر معصوم‘‘ ہے‘ خواہ وہ مسلم کی ہویا کافر کی۔ اسلامی حدود کے باہر جو چیز ہے ’’غیر معصوم‘‘ہے‘ خواہ وہ مسلم کی ہو یا کافر کی۔ اسلامی حدود کے اندر کوئی چو ری کرے گا تو ہم ہاتھ کاٹیں گے‘ قتل کرے گا تو ہم قصاص یا دیت وصول کریں گے‘ناجائز ذرائع سے مال لے گا تو واپس دلائیں گے‘ اور ان حدود کے باہر کوئی مسلمان یا ذمی ایسا فعل کرے جو ہمارے قانون کی رُو سے جرم ہو تو ہم نہ علاقہ غیر میں اس کے خلاف کوئی کارروائی کرسکتے ہیں نہ اپنے علاقے میں واپس آنے کے بعد‘ اس لیے کہ فعل ان حدود میں ہوا ہے جہاں قیام امن اور حفاظت جان و مال کے ذمہ دار ہم نہیں ہیں۔ لیکن جو کچھ ہے دنیوی حیثیت سے ہے حدود اسلامی سے باہر جو گناہ کیا جائے گا وہ دنیوی حکومت کے حدود عمل سے باہر ہونے کے باعث صرف دنیوی مواخذہ سے چھوٹ جائے گا البتہ اللہ کے مواخذہ سے نہ چھوٹے گا کیوں کہ اللہ کی عمل داری حدود ارضی سے ناآشنا (Ultra territorial) ہے‘ اس نے جو کچھ حرام ٹھہرایا ہے وہ ہر جگہ حرام ہے۔
یہ امام ابو حنیفہؒ کا من گھڑت قانون نہیں ہے بلکہ قرآن اور حدیث سے ماخوذ ہے۔ وہی قرآن جو ایک طرف فان اقاموالصلوٰۃ واتو الزکوۃ فیاخوانکم فی الدین اور من یقتل مومناا متعمدا فجزاء جہنم خالداً فیھا کہتا ہے دوسری طرف وہی قرآن حدود اسلامی کے اندر رہنے والے مسلمان اور علاقہ غیر میں رہنے والے مسلمان کے خون میں فرق بھی کرتا ہے۔ اوّل الذکر کو دانستہ قتل کرنے والے پر کفارہ بھی ہے اور دیت بھی اور موخر الذکر کی قاتل پر صرف کفارہ ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُسامہ بن زید کو ایک سریہ کا افسر بنا کر حرقات کی طرف بھیجتے ہیں وہاںایک شخص لا الٰہ الا اللہ کہہ کر جان بچانا چاہتا ہے مگر مسلمان اس کو قتل کر دیتے ہیں۔ حضورؐ کو اس کی اطلاع ہوتی ہے تو اسامہ کو بلا کر آپ بار بار فرماتے ہیں ’’قیامت کے روز تجھے لا الٰہ الا اللہ کے مقابلے میں کون بچائے گا۔‘‘ مگر اس مقتول کو دیت ادا کرنے کا حکم نہیں دیتے۔ ایسے ہی ایک دوسرے موقع پر حدود اسلامی سے باہر رہنے والے چند مسلمان مارے جاتے ہیں تو حضورؐ فرماتے ہیں ’’میں ہر ایسے مسلمان کی حفاظت بری الذمہ ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو۔‘‘ خود قرآن میں بھی ایسے مسلمانوں کی ذمہ داری سے برأت کا اظہار کیا گیا ہے۔
’’اور جو لوگ ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کرکے (دارالاسلام میں) نہ آگئے ان سے تمہارا ’’ولایت‘‘ کاکوئی تعلق نہیں ہے جب تک وہ جرات کرکے نہ آجائے۔‘‘ (الانفال۔ 72)
اس طرح قرآن اور حدیث نے خود ہی دنیوی عصمت کو دینی عصمت سے الگ کر دیا ہے اور دونوں کے حدود بتا دیے ہیں۔ تمام فقہائے اسلام میں صرف امام ابو حنیفہؒ ہی ایسے فقیہ ہیں جنہوں نی اس نازک اور پیچیدہ قانونی مسئلے کو ٹھیک ٹھیک سمجھا ہے۔ امام ابو یوسف‘ امام محمد امام مالک‘ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل جیسے جلیل القدر مجتہدین بھی ان دونوں قسم کی عصمتوں میں پوری پوری تمیز نہیں کرسکے۔ چنانچہ مثال کے طور پر اگر دارالکفر میں اسلامی رعایا کا ایک فرد دوسرے کو قتل کردے تو یہ سب حضرات بالاتفاق فرماتے ہیں کہ قاتل سے قصاص لیا جائے گا کیوں کہ اس نے ایک شخص کو قتل کیا جو ’’معصوم بالاسلام‘‘ تھا۔ پس جب اتنے بڑے بڑے ائمہ اس مسئلے میں محتاط ہو گئے ہیں تو کچھ بعید نہیں کہ فقہ حنفی کے متاخر شارحین کو بھی امام ابو حنیفہؒ کی بات سمجھنے میں یہی خلط پیش آیا ہو۔
دارالحرب اور دارالکفر کا اصطلاح فرق:
امام اعظم کے متعلق ہم کو تحقیق ہے کہ اوپر جتنے مسائل بیان ہوئے ہیں ان میں اور اسی قبیل کے دوسرے مسائل میں انہوں نے دارالحرب کے بجائے ’’دارالکفر‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی کیوں کہ دستوری قانون کے نقطۂ نظر سے دارالاسلام کا مقابل دارالکفر بمعنی علاقہ غیر (Foreign territory) ہی ہو سکتا ہے‘ حرب اور غیر حرب کا اس میں کوئی دخل نہیں جو ممالک اسلامی سلطنت سے صلح رکھتے ہوں وہ بھی دارالکفرہیں اور ان سے بھی وہ سب احکام متعلق ہیں جو اوپر بیان ہوئے ہیں لیکن چونکہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں جتنے دارالکفراسلامی سلطنت سے متصل تھے وہ عموماً دارالحرب ہی میں رہتے تھے‘ اس لیے بعدکے فقہا نے دارالکفر کو بالکل دارالحرب کا ہم معنی سمجھ لیا اور ان دونوں اصطلاحوںکے باریک قانونی فردق کو نطر انداز کر گئے۔ اسی طرح امام ابو حنیفہؒ کے کلام میں ہم کو کسی جگہ کوئی ایسا لفظ نہیں ملا جو اس بات پر دلالت کرتا ہو کہ وہ ’’غیر معصوم‘‘ کو ’’مباح‘‘ کے معنی میں لیتے ہیں۔ وہ حدود اسلام سے باہر کی اشیا کو ’’غیر معصوم‘‘ کہنے پر اکتفا کرتے ہیں اور ایسی اشیا پر دست درازی کرنے والے کے لیے صرف اتنا کہتے ہیں ’’اس پر کوئی گرفت نہیں۔‘‘ یا ’’اس کے خلاف کوئی عدالتی فیصلہ صادر نہ کیا جائے گا۔‘‘ لیکن بعد کے فقہا نے اکثر مقامات پر ’’عدم عصمت‘‘ اور ’’اباحت‘‘ کو خلط ملط کر دیا جس سے یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ حدود اسلامی سے باہر جتنے ممنوع افعال کیے جائیں ان پر جس طرح حکومت اسلامی باز پرس نہیں کرے گی اسی طرح خدا بھی باز پرس نہیں کرے گا حالانکہ یہ دونوں چیزیں بالکل الگ الگ ہیں۔ آپ ہندوستان میں کسی کا مال چرا لیجیے‘ ظاہر ہے کہ افغانستان کی عدالت میں آپ پر مقدمہ نہ چلایا جائے گا۔ دارالاسلام کے قانون کی رُو سے آپ بری الذمہ ہیں۔ مگر اس کے یہ معنی کب ہیں کہ خدا کی عدالت سے بھی آپ چھوٹ گئے۔
اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کتب فقہ میں دارالحرب کے اندر سود اور قمار اور دوسرے عقود فاسدہ کی اباحت کا جو مسئلہ اس بنا پر لکھا گیا ہے کہ حربی کے لیے کوئی ’’عصمت‘‘ نہیں تو اس کے دو پہلو ہیں۔
ایک یہ کہ دارالحرب سے مراد محض ’’علاقہ غیر‘‘ ہو اس لحاظ سے یہ مسئلہ دستوری قانون سی تعلق رکھتا ہے اور اس کی نوعیت یہ ہے کہ ’’حربی‘‘ (بمعنی فرعیتِ غیر) کے مال کی حفاظت کا ذمہ چونکہ ہم نے نہیں لیا ہے اس لیے ہمارے حدود عمل سے باہر ہماری سلطنت کا کوئی شہری اگر اس سے سود لے کر یا جوا کھیل کر یا کسی اور ناجائز ذریعہ سے مال لے کر ہمارے علاقے میں آجائے تو ہم اس پر کوئی مقدمہ قائم نہ کریں گے‘ قطع نظر اس سے کہ دین و اعتقاد کے نقطۂ نطر سے وہ مجرم ہو یا نہ ہو۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ دارالحرب سے مراد وہ ملک لیا جائے جس سے بالفعل ہماری جگہ برپا ہو یعنی Enemy Country اس لحاظ سے یہ مسئلہ تعلقاتِ خارجیہ کے قانون سے تعلق رکھتا ہے جس کو ہم آگے بیان کرتے ہیں۔
تعلقات خارجیہ کا قانون:
اسلامی قانون کا یہ شعبہ ان لوگوں کے جان و مال کی قانونی حیثیات سے بحث کرتا ہے جو اسلامی حکومت کے حدود سے باہر رہتے ہوں۔ اس کی تفصیلات بیان کرنے سے پہلے چند امور کو توضیح ضروری ہے۔
فقہی اصطلاح میں لفظ ’’دار‘‘ قریب قریب انہی معنوں میں استعمال کیا گیاہے جن میں انگریزی لفظ Territory بولا جاتا ہے جن حدود و ارضی میں مسلمانوں کو حقوق شاہی حاصل ہوں وہ ’’دارالاسلام ہیں‘ اور جو علاقہ ان حدود سے خارج ہ وہ دارالکفر یا دارالحرب‘‘ ہے۔ تعلقات خارجیہ کا قانون تمام تر انہی مسائل سے بحث کرتا ہے جو اس ارضی تفریق یا اختلافِ داراین سے نفوس اور اموال کے بارے میں پیدا ہوتے ہیں۔
جیسا کہ ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں اعتقادی حیثیت سے تو تمام مسلمان اسلامی قومیت کے افراد (National) ہیں۔ لیکن اس شعبۂ قانون کی اغراض کے لیے ان کو تین اقسام پر منقسم کیا گیا ہے۔ ایک وہ جو دارالاسلام کی رعایا (Citizens) ہوں‘ دوسرے وہ جو دارالکفر یا دارالحرب کی رعایا ہوں‘ تیسرے وہ جو رعایا تو دارالاسلام ہی کی ہوں مگر مستامن کی حیثیت سے عارضی طور پر دارالکفر یا دارالحرب میں جائیں اور مقیم ہوں۔ ان سب کے حقوق اور واجبات الگ الگ متعین کیے گئے ہیں۔
اس کے مقابلے میں کفار اگرچہ سب کے سب اعتقاداً اسلامی قومیت سے خارج ہیں‘ مگر قانوناً ان کو بھی ان کے حالات کے لحاظ سے متعدد اقسام پر منقسم کیا گیا ہے ایک وہ جو پیدائش ذمی ہوں یا وضع جزیہ و خراج کے ذریعے سے جن کو ذمی بنا لیا گیا ہو۔ دوسرے وہ جو دارالاسلام کی رعایا نہ ہوں بلکہ مستامن کی حیثیت سے دارالاسلام میں آئیں اور رہیں۔ تیسرے وہ جو دارالکفر یا دارالحرب کی رعایا ہوں اور امان کے بغیر دارالاسلام میں داخل ہو جائیں۔ چوتھے وہ جو اپنے ہی دار میں ہوں۔ پھر اس آخری قسم کے کفار کی بھی متعدد اقسام ہیں ایک وہ جن سے اسلامی حکومت کا معاہدہ نہ ہو مگر دشمنی بھی نہ ہو۔ دوسرے وہ جو اسلامی حکومت کو خراج دیتے ہیں مگر ان کی حدود میں احکام اسلامی جاری نہ ہوں‘ تیسرے وہ جن سے کوئی معاہدہ نہ ہو مگر دشمنی بھی نہ ہو چوتھے وہ جن سے مسلمانوں کی دشمنی ہو۔
اس طرح حدود ارضی یعنی دار (Territory) کے لحاظ سے اشخاص اور املاک کی حیثیات میں جو فرق ہوتا ہے اور اس فرق کے لحاظ سے ان کے درمیان احکام میں جو تمیز کی جاتی ہے اس کو مدنظر رکھنا قانونِ اسلامی کی صحیح تعبیر کے لیے نہایت ضروری ہے جب کبھی ان فروق اور امتیازات کا لحاظ کیے بغیر محض قانونی عبارت کے الفاظ کی پیروی کی جائے گی تو صرف ایک سود کے مسئلے ہی میں نہیں بلکہ بہ کثرت فقہی مسائل میں ایسی غلطیاں پیش آئیں گی جن سے قانون مسخ ہو جائے گا اور اپنے مقاصد کے خلاف استعمال کیا جانے لگے گا۔
ان ضروری توضیحات کے بعدہم ان سوالات کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ دارالحرب کا اطلاق داراصل کن علاقوں پر ہوتا ہے‘ کن مراتب کے ساتھ ہوتا ہے اور ہر ہر مرتبہ کے احکام کیا ہیں‘ حربیت کے کتنے مدارج ہیں اور ہر درجہ کے لحاظ سے اباحتِ نفوس و اموال کی نوعیت کس طرح بدلتی ہے۔ پھر اختلاف دارین کے لحاظ سے خود مسلمان کی حیثیات میں کیا فرق ہوتا ہے اور ہر حیثیت سے ان کے حقوق و واجبات کس طرح بدلتے ہیں۔
کفار کی اقسام:
کفارکی جو اقسام ہم نے اوپر بیان کی ہیں ان میں سے اہل ذمہ کے متعلق تو ہر شخص جانتا ہے کہ بجز خمر و خنزیر اور نکاح محارم اور عبادت غیر اللہ کے اور تمام معاملات میں ان کی حیثیت وہی ہے جو مسلمانوں کی ہے۔ اسلام کے ملکی قوانین ان پر جاری ہوتے ہیں‘ وہ ان سب چیزوں سے روکے جاتے ہیں جن سے مسلمان روکے جاتے ہیں اور ان کو عصمت جان و مال و آبرو کے تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ مستامن کافروں کا معاملہ بھی ذمیوں سے مختلف نہیں ہے کیوں کہ ان پر بھی اسلامی حکومت کے احکام نافذ ہوتے ہیں ار دارالاسلام ہونے کی وجہ سے ان کو بھی عصمتِ جان و مال حاصل ہوتی ہے۔ ان کو الگ کرنے کے بعد اب ہمیں صرف ان کفار کے حالات پر نظر ڈالنی چاہیے جو دارالکفر میں مقیم ہوں۔
-1 باج گزار:
وہ کفار جو اسلامی حکومت کو خراج دیتے ہوں اور جن کو اپنے ملک میں احکام کفر جاری کرنے کی آزادی حاصل ہو‘ ان کا ملک اگرچہ دارالکفر ہے مگر دارالحرب نہیں اس لیے کہ جب مسلمانوں نے ادائے خراج پر انہیں امان دے دی تو حربیت مرتفع ہوگئی۔ قرآن میں آیا ہے کہ ’’اگر وہ جنگ سے باز آجائیں اور صلح پیش کریں تو اللہ نے تمہارے لیے ان پر دست درازی کی سبیل نہیں رکھی۔‘‘ (النساء: 90) اسی بنا پر فقہا نے تصریح کی ہے کہ ان کے اموال اور نفوس اور اعراض سے تعرض نہیں کیا جاسکتا۔
’’اور اگر ان سے اس بات پر صلاح ہوئی ہو کہ وہ ہر سال سو غلام دیں گے تو یہ سو غلام اگر خود انہی کی جماعت میں سے ہوں یا ان کی اولاد ہوں تو ان کا لینا درست نہ ہوگا‘ کیوں کہ صلح کا اطلاق ان کی پوری جماعت پر ہوا ہے اور وہ سب مستامن ہیں اور مستامن کو غلام بنانا جائز نہیں۔ (المبسوط للامام السرخسی۔ ج: 100‘ ص:88)
’’اگر ان میں سے کوئی شخص کسی دوسرے دارالحرب میں مقیم ہو اور اسلامی فوجی اس ملک میں داخل ہوں تو اس سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا‘ کیوں کہ وہ مسلمانوں کی امان میں ہے۔‘‘ (ایضاً‘ ص: 89)
’’اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت ان کے ساتھ غدر کرکے ان آدمیوں کو غلام بنالے تو مسلمانوں کے لیے ان غلاموں کا خریدنا جائز نہ ہو گا اور اگر انہوں نے خرید لیا تو اس بیع کو رد کر دیا جائے گا کیوں کہ وہ مسلمانوںکی امان میں تھے۔‘‘ (ایضاً‘ص: 97)
اس قسم کے کفار اگرچہ نظری حیثیت سے اہل حرب ضرورت رہتے ہیں۔ ’’لیکن ان کے اموال مباح نہیں اور ان کے ساتھ عقود فاسدہ پر کوئی معاملہ نہیں کیا جاسکتا‘ خواہ وہ سود خور ہی کیوں نہ ہو‘ بلکہ اگر وہ اپنی دار میں بھی نہ ہوں‘ کسی ایسے دار میں ہوں جہاں بالفعل جنگ ہو رہی ہو تب بھی مسلمانوں کے لیے ان سے عقود فاسدہ پر معاملہ کرنا جائز نہ ہوگا۔‘‘ (المبسوط‘ ج: 1‘ ص:88)
-2 معاہدین:
وہ کفار جن سے دارالاسلام کا معاہدہ ہو‘ ان کی متعلق قرآن کی تصریحات حسب ذیل ہیں:
’’مگر وہ مشرکین جن سے تم نے معاہدہ کر لیا اور انہوں نے تمہارے ساتھ وفائے عہد میں کمی بھی نہ کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد دی‘ تو ان کے ساتھ تم معاہدہ کی مدت مقرر تک عہد پورا کرو۔‘‘ (التوبہ:4)
’’پھر جب تک وہ عہد پر قائم رہیں تم بھی قائم رہو۔‘‘ (التوبہ:1)
’’اور جو مسلمان دارالکفر میں رہتے ہوں وہ اگر دین کے حق کی بنا پر تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرو مگر کسی ایسی قوم کے کلاف ان کی مدد نہ کرو جس سے تمہارا معاہدہ ہو۔‘‘ (الانفال 72)
’’اورا گر مقتول کسی ایسی قوم سے ہو جس کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہو تو اس کے وارثوں کو دیت دی جائے گی۔‘‘ (النساء 92)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ معاہدہ کفار اگرچہ نظری حیثیت سے حربی ہیں اور ان کے ملک پر دارالحرب کا اطلاق ہو سکتا ہے مگر جب تک اسلامی حکومت نے ان سے معاہدانہ تعلقات قائم رکھے ہیں‘ وہ مباح الدم والاموال نہیں ہیں اور ان کی جان و مال سے تعرض کرنا شرعاً ممنوع ہے۔ اگر کوئی مسلمان ان کا خون بہائے گا تو دیت لازم آگے گی اور اگر ان کے مال سے تعرض کرے گا تو ضمان دینا ہوگا۔ پس جب ان کے اموال مباح ہی نہیںہیں تو ان کے ساتھ عقود فاسدہ پر معاملہ کیسے کیا جاسکتا ہے کیوں اس کا جواز تو اباحت ہی کی اصل پر مبنی ہے۔
-3 اہل غدر:
وہ کفار جو معاہدہ کے باوجود معاندانہ رویہ اختیار کریں ان کے متعلق قرآن کا حکم یہ ہے کہ ’’اگر تمہیں کسی قوم سے بد عہدی کا اندیشہ ہو تو برابری کو ملحوظ رکھ کر ان کا معاہدہ ان کی طرف پھینک دو۔‘‘ (الانفال: 58)
شمس الائمہ سرخسی اس صورت مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’(ایسی صورت میں معاہدہ کو توڑ دینا جائز ہے) مگر لازم ہے کہ نقصِ معاہدہ برابری کے ساتھ ہو‘ یعنی تمہاری طرح ان کو بھی معلوم ہو جائے کہ تم نے معاہدہ کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ اس حکم سے ہم یہ سمجھے ہیں کہ اعلان و اطلاع سے پہلے ان کے ساتھ جنگ کرنا حلال نہیں ہے۔ (المبوسط‘ ص:87)
یہ آیت اوراس کی مذکورۂ بالا قانون تعبیر یہ ظاہر کر رہی ہے کہ معاہد قوم اگر بد عہدی بھی کرے تب بھی اعلانِ جنگ سے پہلے اس کے نفوس و اموال مباح نہیں ہیں۔
-4 غیر معاہدین:
وہ کفار جن سے معاہدہ نہ ہو‘ یہ ایک ایسی حالت ہے جس کو ہمیشہ بین الاقوامی تعلقات میں جنگ کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے‘ سیاسی تعلقات کا انقطاع دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ دونوں قومیں اب باہمی احترام کی قیود سے آزاد ہیں۔ ایسی حالت میں اگر ایک قوم دوسری قوم کے آدمیوں کو قتل کر دے یا لوٹ لے تو کوئی د یت یا ضمان واجب نہ ہوگا۔ اس معنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں قوموں کے لیے ایک دوسرے کے نفوس و اموال مباح ہیں۔ مگر کوئی مہذب حکومت باقاعدہ اعلانِ جنگ کیے بغیر کسی انسانی جماعت کا خون بہانا یا مال لوٹنا پسند نہیں کرسکتی۔ اسلامی قانون اس باب میں یہ ہے:
’’اگر مسلمانوں نے دعوت کے بغیر ان سے جنگ کی تو گناہ گار ہوں گے‘ لیکن ایسی جنگ میں ان کی جان و مال کا جو اتلاف وہ کریں گے اس میں سے کسی چیز کا ضمان حنفیہ کے نزدیک مسلمانوںپر لازم نہ آئے گا۔‘‘ ( المبسوط‘ ج:1‘ ص:30)
امام شافعی فرماتے ہیں کہ ضمان لازم آئے گا کیوں کہ جب تک وہ دعوت کو ردنہ کریں ان کی جان و مال کی حرمت و عصمت باقی ہے۔
مگر حنفیہ کہتے ہیں ’’جس عصمت کی بنا پر جان و مال کی قیمت قائم ہوتی ہے تو دارالاسلام کی حفاظت میں ہونے پر موقوف ہے اور یہ چیز ان کے حق میں موجود نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اباحت کے لیے تقدیم دعوت شرط ہے‘ اس کے بغیر اباحت ثابت نہیں ہوتی‘ لیکن محض حرمتِ قتل‘ وجوب ضمان کے لیے کافی ہیں۔‘‘ (ایضاً‘ ص: 31-30)
اس سے معلوم ہوا کہ حربی کفار جو ذمی نہیں ہیں‘ جن سے کوئی معاہدہ نہیں ہے‘جن کا دار ہمارے دار سے مختلف ہے‘ جن کی عصمت ہمارا قانون تسلیم نہیں کرتا‘ ان کے نفوس و اموال بھی ہم پر اس وقت تک حلال نہیں ہیں جب تک کہ اتمام حجت نہ ہو اور ہمارے اور ان کے درمیان باقاعدہ اعلانِ جنگ نہ ہو جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باب میں حضرت معاذ بن جبل کو جو ہدایات دی تھیں وہ قابل غور ہیں:
ان سے جنگ نہ کرناجب تک کہ ان کو دعوت نہ دے لو‘ پھر اگر وہ انکار کریں تب بھی جنگ نہ کرنا جب تک وہ ابتدا نہ کریں۔ پھر اگر وہ ابتدا کریں تب بھی جنگ نہ کرنا جب تک کہ وہ تم میںسے کسی کو قتل نہ کر دیں‘ پر اس مقتول کو دکھا کر ان سے کہنا کہ کیا اس سے زیادہ بہتر کسی بات کے لیے تم آمادہ نہیں ہوسکتے؟ اے معاذ اس قدر صبر و تحمل کی تعلیم اس لیے ہے کہ اگر اللہ تیرے ہاتھ پر لوگوںکو ہدایت بخش دے تو یہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ تیرے قبضے میں مشرق سے مغرب تک کا سارا ملک مال آجائے۔
-5 محاربین:
اب صرف وہ کفار باقی رہ جاتے ہیں جن سے مسلمانوں کی بالفعل جنگ ہو۔ اصلی حربی یہی ہیں‘ انہی کے دارکو تعلقات خارجیہ کے قانون میں ’’دارالحرب‘‘ کہا جاتا ہے انہی کے نفوس اور اموال مباح ہیں اور انہی کو قتل کرنا‘ گرفتار کرنا‘ لوٹنا اور مارنا شریعت نے جائز قرار دیا ہے۔ لیکن حربیت تمام محاربین میں یکساں نہیں ہے اور نہ تمام اموال حربیہ ایک ہی حکم میں ہیں۔ حربی کافروں کی عورتیں‘ ان کے بچے‘ ان کے بیمار‘ ان کے بوڑھے اور اپاہج وغیرہ بھی اگرچہ حربی ہیں‘ مگر شریعت نے ان کو مباح الدم نہیں ٹھہرایا ہے بلکہ اباحتِ قتل کو صرف مقاتلین تک محدود رکھا ہے۔ ’’اسی طرح اموال حربیہ میں بھی شریعت نے فرقِ مدارج کیا ہے اور ہر درجہ کے احکام الگ ہیں۔‘‘ (المبسوط‘ ج:۱‘ص:64)
اموالِ حربیہ کے مدارج اور احکام:
اگرچہ اصولی حیثیت سے تمام وہ اموال و املاک جو دشمنکے علاقہ میں ہوں‘ مباح ہیں‘ لیکن شریعت اسلامی نے ان کو دو اقسام پر منق

حصہ