فائونٹین ہائوس میں ایک یادگار دن

208

زندگی کی رنگ سازیاں بہت عجیب ہیں۔ وقت گزر جاتا ہے لیکن اکثر یادیں زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں۔ بعض دن، بعض مقام، کچھ انسان، کچھ واقعات اور کچھ چہرے زندگی میں ایسی چھاپ رکھتے ہیں کہ جب بھی یاد کرنے لگو، ایسا لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔ وہ آوازیں، وہ حرکات، وہ پل، زندگی میں ایسے لگتا ہے کہ ابھی گزرے ہوں۔ یونیورسٹی میں سائیکالوجی ڈپارٹمنٹ کا آخری سمسٹر تھا اور پروفیسر صاحبان نے تمام اسٹوڈنٹس کو ’’فاؤنٹین ہاؤس‘‘ لے جانے کا پلان بنایا۔ یہ سائیکالوجی ڈپارٹمنٹ کے تمام اسٹوڈنٹس کا اکٹھا ٹرپ تھا۔ ہم سب بہت خوش تھے۔ جوش و خروش اس بات کا تھا کہ کبھی فاؤنٹین ہاؤس اندرونی طور پر نہیں دیکھا تھا۔ اس عمر میں اتنی شناسائی بھی کہاں ہوتی ہے! کتابوں میں انسانی دماغ کے متعلق پڑھنا، پاگل پن کی وجوہات اور حقیقت میں دیکھنا دو مختلف معنی رکھتے ہیں۔ سارے اسٹوڈنٹس بہت پُرجوش تھے۔ یہ ہماری زندگی کا بہت یادگار دن تھا جب ہم نے فاؤنٹین ہاؤس کے اندر رہنے والوں کو حقیقت کی آنکھ سے دیکھا، اور محسوس کیا کہ زندگی میں انسانوں پر کیسے کیسے کیا کیا گزرتی ہے، اور ان واقعات کے اثرات انسان کو کس حد تک زخمی کردیتے ہیں۔ انسان پَر کٹے پرندوں کی طرح جیتا ہے نہ مر سکتا ہے۔
صبح نو بجے یونیورسٹی کی بس ہمیں لے کر فاؤنٹین ہاؤس پہنچی۔ شادمان کے علاقے میں کریسنٹ گرلز اسکول کی دیوار سے ملحقہ بلڈنگ میں جب بس داخل ہوئی تو دونوں اطراف بڑے بڑے باغ بنے ہوئے تھے۔ تمام اسٹوڈنٹس بس سے اترے۔ ان کو ایک بہت بڑے ہال کی طرف لے جایا گیا۔ تمام لوگ کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ فاؤنٹین ہاؤس کے چیئرمین صاحب تشریف لائے۔ تمام اسٹوڈنٹس نے کھڑے ہوکر ان کا استقبال کیا۔ وہ اسٹیج پر تشریف لے گئے۔ انہوں نے انسانی ذہن کے متعلق ایک بہت اچھا لیکچر دیا:
’’انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو دماغ جیسی چیز عطا کی جس میں عقل کا مادہ رکھا، اور یہی چیز انسان کو تمام مخلوقات میں افضل کرتی ہے۔ لیکن بچو! جب انسان کے دماغ کی مشین میں نقص آجائے تو وہ عقل سے محروم ہوجاتا ہے۔ اشرف المخلوقات ہونے کے علاوہ انسان ایک معاشرتی حیوان بھی ہے، اور اس معاشرے میں رہنے کے لیے اُسے بہت سے اصولوں پر قائم رہنا ہوتا ہے۔ انسان کے دماغ کے تین حصے ہوتے ہیں: شعور، تحت الشعور اور لاشعور۔
’’شعور‘‘ میں انسان کو ایک عقل مند اور صحت مند انسان تصور کیا جاتا ہے جیسا کہ میں اور آپ سب۔ اس کے بعد دوسری منزل ’’تحت الشعور‘‘ ہے جس میں انسان نیند یا غنودگی کی کیفیت میں چلا جاتا ہے۔ نشہ بھی اس کی ایک قسم ہے۔ لیکن جب انسان ’’لاشعور‘‘ کی کیفیت میں چلا جائے تو یہ ایک انسانی دماغ کی خطرناک حد ہے۔ اس حالت میں انسان قابلِ رحم ہوجاتا ہے۔ آج آپ ایسے ہی لوگوں سے ملنے والے ہیں۔ اس لیے اپنے جذبوں اور حوصلوں کو مضبوط کیجیے، اور کوشش کیجیے کہ آپ کی وجہ سے اُن میں سے کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ بہت شکریہ!‘‘
اپنی تقریر ختم کرکے وہ مسکراتے ہوئے اپنے آفس کی طرف چلے گئے۔ وہاں کی وارڈن پروفیسر صاحبان اور اسٹوڈنٹس کو ڈپارٹمنٹس دکھانے لے گئیں۔ سب سے پہلے ایک ایسے ڈپارٹمنٹ میں لے جایا گیا، جہاں عورتیں مختلف ہنر سیکھنے اور کام کرنے میں مصروف تھیں۔ سلائی، کڑھائی کے علاوہ کوئی فائن آرٹ بنا رہی تھی، کوئی ہینڈی کرافٹس میں مصروف تھی۔ یہ ڈپارٹمنٹ دیکھ کر ہم سب حیران رہ گئے، کیونکہ جس طرح وہ عورتیں کام میں مصروف تھیں، لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ مینٹل ہاسپٹل میں ہیں۔ وارڈن صاحبہ ہمیں بتانے لگیں کہ یہ وہ عورتیں ہیں جو ویسے تو ذہنی طور پر پاگل ہیں لیکن اس قابل ہیں کہ زندگی کے کسی ہنر میں حصہ لے سکتی ہیں۔ اس لیے اس ڈپارٹمنٹ میں ہینڈی کرافٹس کا کام کروایا جاتا ہے۔
ہم ایک ایک عورت کے پاس جاتے، اُس کا کام دیکھتے اور بڑے حیران ہوتے کہ اس حالت میں بھی ان کے ہنر میں کمی نہیں آتی! اور جو شخص کام کے قابل ہوتا ہے اس کو اسی درجے میں رکھا جاتا ہے۔ کوئی عورت سوئیٹر بُن رہی تھی، کوئی ناڑے بُن رہی تھی۔ ایک عورت ہاتھ میں فریم پکڑے کپڑے پر کڑھائی کے بہت خوبصورت پھول بنا رہی تھی۔ جب اس کے قریب سے گزرے تو ایسا لگا کہ وہ کوئی گانا مسلسل ایک ہی لہر میں گائے جارہی ہے۔ ’’وارڈن صاحبہ! یہ کیا گنگنا رہی ہے؟ ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے کوئی پرانا گانا گا رہی ہو!‘‘
ہم نے وارڈن صاحبہ سے سوال کیا تو انہوں نے مسکرا کر جواب دیا ’’ہاں ایسا ہی ہے، واقعی یہ گانا گا رہی ہیں۔ دراصل یہ اپنی زندگی میں بہت خوش و خرم تھیں، لیکن ایک دن اچانک ان کے شوہر نے انہیں طلاق دی تو ریڈیو پر یہ گانا چل رہا تھا۔ یہ اپنے شوہر سے بہت محبت کرتی تھیں۔ اچانک طلاق کے الفاظ ان کے دماغ کو مائوف کر گئے۔ ان کی تمام یادداشت جاتی رہی، بس صرف یہ گانا ہی یاد رہ گیا۔ اب دماغ کی سطح پر تمام یادداشت ایک طرف، اور زبان پر صرف یہ گانا ہے‘‘۔ وارڈن صاحبہ کی زبانی یہ کہانی سن کر دل میں بہت سے احساس اوپر نیچے ہونے لگے۔ کیا بیتی ہوگی اُس وقت ان کے دل پرِ؟ انسان دوسروں کے جذبات کا احساس کیے بغیر جب اپنی خواہشات کے لیے کوئی قدم اٹھاتا ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اس بات کا اثر دوسروں پر کیا ہوگا۔ انسان کا ذہن بھی کس قدر کمزور ہوتا ہے۔ حادثات کا اثر کس حد تک قبول کرلیتا ہے۔
اگلا سروے ہمارا اُس وارڈ میں تھا جہاں شدید قسم کے ’’شیزو فرینیا‘‘ کے مریض تھے۔ یہ اس سے بھی زیادہ انوکھا اور خوفناک قسم کا وزٹ تھا۔ اس وارڈ میں داخل ہوتے ہی عجیب سی کپکپی کا احساس ہوا۔ یہ وارڈ ایک بڑی جیل سے کم نہیں تھا۔ یہاں ذہنی امراض کا شکار انسانوں کے ساتھ قیدیوں والا سلوک کیا جاتا تھا۔ وہ تھے بھی اتنے ہی خطرناک پوزیشن میں۔ بڑی بڑی سلاخوں والے بیرک، اور اس میں بند مریض، جن کو لاک اپ کے اندر ہی کھانا دیا جاتا اور اندر ہی واش روم بنے ہوئے تھے۔ اسٹوڈنٹس کا گروپ دیکھ کر یہ لوگ الرٹ ہوگئے اور مختلف آوازیں نکالنے لگے: ہمیں یہاں سے نکالو، ہم بہت پریشان ہیں۔ ہمیں ہمارے رشتے داروں سے ملنا ہے۔ ان مریضوں کی حالت دیکھ کر دل پہلے سے زیادہ پریشان ہوا۔ وارڈن صاحبہ کہہ رہی تھیں کسی بیرک کے نزدیک نہ جانا۔ چلتے چلتے ایک بیرک سے ایک عورت نے ایک خط ہمارے آگے کردیا اور چلاّنے لگی: ’’یہ خط میری بہن کو پہنچا دینا، اُس سے کہنا میں بالکل ٹھیک ہوں، مجھے آکر لے جائے۔ دیکھو بہن! میرے چچا نے جائداد کی لالچ میں مجھے یہاں پاگل ثابت کرکے قید کروا دیا ہے۔ براہِ کرم میری مدد کرو‘‘۔
میرے قدم اس طرف بڑھنے لگے۔ دیکھنے میں وہ عورت مکمل ٹھیک لگ رہی تھی کہ وارڈن صاحبہ نے چیختے ہوئے کہا: ’’خبردار! بالکل ہاتھ نہ بڑھانا، یہ شدید قسم کی ذہنی مریضہ ہے، نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔‘‘ میں نے ڈرتے ہوئے قدم پیچھے کرلیے۔ کچھ دیر کے لیے میرا دل سہم گیا۔ تھوڑا اور آگے بڑھے تو ایک بیرک میں دلدوز منظر دیکھ کر ہمارے اوسان خطا ہوگئے۔ شدید ذہنی کرب کا شکار ایک عورت اپنے جسم کو نوچ رہی تھی اور چلاّ رہی تھی۔ پھٹے ہوئے کپڑے اور بکھرے ہوئے گندے بال… انتہائی خوفناک سین تھا۔ ’’مجھے نوچ لو، مجھے کھا جاؤ، مجھے مار دو، میں اسی قابل ہوں۔‘‘ تمام اسٹوڈنٹس کو شدید قسم کا ذہنی جھٹکا لگا۔ ’’اس کو کیا ہوا تھا وارڈن صاحبہ؟‘‘ میرے ساتھی اسٹوڈنٹ نے سوال کیا۔ ’’بس بیٹا! یہ عورت معاشرے کی شدید درندگی کا شکار ہوچکی ہے۔ اتنا زیادہ کہ اپنی ذہنی کیفیت کے اصل کو بھول چکی ہے اور بس اسی کیفیت کو یاد رکھ سکی ہے‘‘۔ وارڈن صاحبہ نے انتہائی دکھی انداز میں جواب دیا۔
یہ منظر تمام اسٹوڈنٹس کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ خیر، شام کے 4 بج چکے تھے۔ وارڈن صاحبہ ہم سب اسٹوڈنٹس اور پروفیسر صاحبان کو لے کر فاؤنٹین ہاؤس کے بڑے ہال میں آگئیں۔ وہاں ہمارے لیے چائے وغیرہ کا انتظام کیا ہوا تھا۔ تمام اسٹوڈنٹس نے چائے پی کر ذہن فریش کیے۔ ہم سب خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے۔کچھ دیر بعد چیئرمین صاحب تشریف لائے اور اعلان کیا کہ یہاں کے ایک گائیک ہمیں ایک غزل سنائیں گے۔ ایک انتہائی وجیہ قسم کے انسان، جن کی عمر لگ بھگ 40 سال ہوگی، نفیس اور عمدہ لباس پہنے اسٹیج پر تشریف لائے۔ انتہائی خوبصورت آرکسٹرا کا انتظام کیا گیا تھا۔ بڑی خوبصورت آواز میں ان محترم نے غزل گائی۔
ہم تمام اسٹوڈنٹس کچھ دیر کے لیے بھول گئے کہ ہم کہاں پر ہیں۔ آواز میں اتنا سحر تھا کہ غزل ختم ہوئی تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ سب نے بہت داد دی۔ شاید پہلی دفعہ سب نے کسی کو لائیو گاتے ہوئے دیکھا تھا۔ آواز میں انتہائی سحر تھا۔ وہ صاحب غزل ختم کرتے ہی ہال سے باہر تشریف لے گئے۔ تمام اسٹوڈنٹس یہ سمجھے کہ وہ کوئی گلوکار ہیں، لیکن ان کے جانے کے بعد چیئرمین صاحب نے بتایا کہ یہ صاحب بھی ذہنی مریض ہیں۔ ہم سب حیران و ششدر رہ گئے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک شخص ذہنی مریض بھی ہو اور اس کا سُر اور تال بھی اتنا اچھا ہو! ابھی ہم انہی باتوں میں مصروف تھے کہ اچانک فاؤنٹین ہاؤس کے باہر لان میں ایک شور اُٹھا۔ سب باہر کی طرف بھاگے۔ لان کے پاس پکے فرش پر ایک شخص کی لاش پڑی تھی جس نے فاؤنٹین ہاؤس کی چھت پر چڑھ کر خودکشی کرلی تھی۔
جب ان کو سیدھا کرکے دیکھا گیا تو سب کی چیخیں نکل گئیں۔ یہ تو وہی محترم تھے جو ابھی ابھی غزل سنا کر ہال سے باہر نکلے تھے۔ غلطی صرف یہ ہوئی کہ اُن کو اُن کی اصل جگہ پر لے جانے میں کچھ دیر ہوگئی۔ ایمبولینس منگواکر انہیں فوراً اسپتال لے جایا گیا۔ وارڈن صاحبہ نے بتایا کہ یہ صاحب محبت میں دھوکے کھا چکے تھے، اس لیے ان کی ذہنی حالت ان کے کنٹرول میں نہیں تھی۔ خیال تو بہت رکھا جاتا تھا کہ یہ صاحب اپنے کمرے میں رہیں، لیکن چھوٹی سی کوتاہی ان کی موت کا سبب بن گئی۔ دیکھنے میں وہ بالکل بھی مریض نہیں لگ رہے تھے۔
یہ واقعہ دیکھ کر اسٹوڈنٹس اور پروفیسر صاحبان کو چکر آ رہے تھے۔ شام کے 7 بج رہے تھے، سب بس میں سوار ہوئے اور واپس یونیورسٹی آگئے۔ یہ دن زندگی کا اہم اور یادگار دن بن گیا۔ آج پانچ سال گزر چکے ہیں لیکن یہ واقعات آج بھی آنکھوں کے سامنے گھومتے ہیں۔ شاید عام دنیا میں رہنے والے انسان کبھی بھی فاؤنٹین ہاؤس کے اندر رہنے والے انسانوں کے جذبات، احساسات اور کیفیات کو نہیں سمجھ سکتے جب تک اُن کے قریب سے ہوکر نہ آجائیں۔ اللہ سب پر اپنی رحمت کا سایہ کرے۔ آمین!

حصہ