کتاب ملت ِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے

483

یہ ملک کی ایک مہنگی ترین یونیورسٹی کی بزمِ ادب ہے۔
آج اس نے فلسطین پر ایک خصوصی نشست کا انعقاد کیا ہے۔یہاں ملک کے پر اعتماد نوجوان جمع ہیں۔ ان کو مجاہدین کےتذکرے میں کوئی عار نہیں ہے۔
وہ ایک طالب علم عز الدین القسام بریگیڈکی تاریخ بیان کر رہا ہے۔ شیخ احمد یاسین کی زندگی سے مسلمانوں کے مستقبل کو آشنا کر رہا ہے۔ اب وہ حماس کی حکمت عملی کا تذکرہ کر رہا ہے۔
’آپ کا دشمن آپ سے تب ہی مذاکرات کرتا ہے جب اس کو ڈر لگنا شروع ہوتا ہے۔‘ اقبال کے شاہینوں کوجہاد اور مزاحمت کا ماڈل سمجھا یا جا رہا ہے!
جہاں نام نہاد دانشور ہیومن ازم اور non-violence کی آڑ میں مسلمان بچوں کو دب کر جینا سکھا رہے ہیں وہاں یہ باشعور طلبہ جہاں گیری کے اسلوب سے بخوبی واقف ہیں۔
یہ ۲۰۱۳ ءہے ۔نسٹ کے ایک انجینئر نگ کالج کا منظر ہے۔
حال ہی میں یہاں گھڑسواری کے لیے اصطبل کاافتتاح ہوا ہے۔ علی الصبح طالبات کا ایک دستہ تازہ دم گھوڑوں پر سواری کی تربیت حاصل کر رہا ہے۔
ان طالبات میں سے اکثر کا تعلق متمول گھرانوں سے ہے ۔ یہ کوئی دینی مدرسہ نہیں ہے۔ مگر جامعہ کے سخت احکامات ہیں کہ جس وقت طالبات سواری کر رہی ہوں اس وقت کوئی طالب علم رائیڈنگ کلب کے قریب بھی نہیں پھٹکے گا۔
ان لڑکیوں کے لیے یہ تجربہ نیا بھی ہے اور دلچسپ بھی! دنیا کو کچھ کر دکھانے اور اپنی صلاحیت منوا لینے کا موقع بھی ہے۔ مگر ان کا طے شدہ اصول ہے کہ اپنی سواری کی تصویر کشی کو لوگوں کے سامنے نمایاں نہیں کریں گی ۔ آزادیٔ نسواں کے فرسودہ نظریے کے منہ پر ان مسلمان لڑکیوں نے طمانچہ رسید کر دیا ہے!
یہ ۸۰ کی دہائی ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ سرخ آندھی کے سامنے سینہ سپر کھڑی ہے۔
وہ اشتراکیت جو وقت کی سپر پاور کا نظریہ ہے۔ جس نے تعلیمی اداروں میں تیزی سے مقبولیت پائی ہے۔ لادینیت اور الحاد اس کے نتیجے میں نوجوانوں کے ذہنوں پر غلبہ پا رہے ہیں۔ اس نظریے کو شکست دینا ناممکن نظر آتا ہے۔
اس کے مقابلے کا بیڑہ اٹھا کر جمعیت کے نوجوان علمی اور فکری محاذ پر سرگرم ہیں۔ معاشرے کے افکار کی تطہیر اور اپنی تہذیب کے تحفظ کی جدوجہد جاری ہے۔ ایک طرف نظریات کا مطالعہ ہو رہا ہےتو دوسری طرف خون گرما دینے والے ترانوں میں ان کی creativity جھلک رہی ہے۔
۲۰۲۱ء میں سرخ بگولے ہوا میں بکھرچکے ہیں مگر اپنی مٹی پر چلنے کا سلیقہ سکھانے والے یہ مسلمان نوجوان باقی ہیں۔
یہ اسلامی جمعیت طالبات کی کارکنان کھڑی ہیں۔ اس پوری جامعہ میں ان کے علاوہ کوئی طالبہ باپردہ نہیں ہے۔ برائی کی کثرت نے ان کے دلوں میں کوئی مرعوبیت پیدا نہیں کی ہے ۔یہ اسلام کے احساسِ برتری سے اعتماد کشید کر کےاپنے اصولوں پر قائم ہیں ۔ اپنے اخلاق اور دعوت سے ہر طبقۂ فکر کی طالبہ کو اپنا ہم نوا بنا رہی ہیں۔
چند دہائیاں گزرنے کے بعد یہ وہی جامعہ ہے جہاں طالبات کی کثیر تعداد پردے یا حجاب کی کسی نہ کسی شکل کو اپنا چکی ہے۔
جہاں شاذ و نادر ہی سر ڈھکے نظر آتے تھے وہاں اسکارف اور دوپٹے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے وقار میں اضافہ کر رہے ہیں۔
علم اور اخلاق کی قوت سے بیانیہ تبدیل ہو رہا ہے!
یہ دانیال حقیقت جو ہے۔ اس نے امریکا میں مقیم ایک لادین گھرانے میں آنکھ کھولی ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ یہ نوجوان دین کی طرف آیا تو اس طرح کہ اس میں کسی باطل کی ملاوٹ قبول نہیں کی۔
ایک جانب مغرب میں ان مقررین کا زور ہے جو دین کی وہی تشریح بیان کررہےہیں جو لبرل ذہن کو قبول ہو۔ اس لہر کی مخالفت میں چلنا دعوت کی خود کشی نظر آ رہا ہے۔ مگر دوسری جانب جب دین کے حق ہونے پر شرحِ صدر ہو جائے تو اس کی غلط تاویلیں کوئی کیسے گوارا کر سکتا ہے!
نظریاتی کشمکش میں اسلام کو اس کی خالص شکل میں پیش کرنا!
اس کو اس نوجوان کی بیوقوفی قرار دیا جا رہا ہے۔ اب اس پر ذاتی حملے کیے جا رہے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود اس سے سیکھنے والے ان نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے جو اسلام اور لبرل ازم میں فرق کی نشاندہی کرنے کے قابل ہو چکے ہیں !
دنیا کے تیزی سے بدلتے منظرنامے میں حق اور باطل کی تفریق واضح ہوتی جا رہی ہے۔
دنیا دو گروہوں میں منقسم ہوں کا اثر پیدا
خلیل اللہؑ کے دریا میں ہوں گے پھر گُہر پیدا
کتابِ مِلّتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا

اسماء صدیقہ

بے اثر نہیں جاتا ٹوٹ کے بکھرنا بھی
درد کی گواہی ہے حرف کا سنورنا بھی
زندگی سے اتنا تو کھو کےہم نے پایا ہے
آگہی کی نقدی ہے عمر کا گزرنا بھی
رونقوں کے میلے میں وحشتوں کا جنگل ہے
بے مزہ نہ کر جائے لذتوں پہ مرنا بھی
بے بسی میں دیکھا ہے اک جمال غم پنہاں
راج کرنے والو !کیا؟ حد سے یوں گزرنا بھی
جو کمال کرتے تھے اب سوال کرتے ہیں
راس کس کو آیا ہے ناز خود پہ کرنا بھی

تحریم آصف

سوال محبت اب مجھ سے کرے نہ کوئی
انسان ہوں سانپ نہیں مجھ سے ڈرے نہ کوئی…
احساس سے، نہ جذبات سے عاری ہوں مگر ہوں
اپنے خول میں سو بات مجھ سے کرے نہ کوئی…
سوال در سوال پوچھتے رہو کوئی حرج نہیں
مجھے ڈر ہے کہ بس میری آنکھیں پڑھے نہ کوئی…
ایک نئی کہانی کا آغاز چاہتی ہوں اگر
ماضی کے دریچوں کے باب کھولے نہ کوئی…

حصہ