روشن ستارے

442

سوال:آپ کا نام اور تعارف ؟
جواب: میرا نام سعدیہ اعجاز ہے۔
(تعارف نے ذہن میں سوالات کی بوچھاڑ کر دی ہے کہ میری شناخت کیا ہے؟ وہ جو میں نے پڑھا، جو میں نے کِیا یا میرے اباء و اجداد یا میری ہم جولیاں، یا وہ زمین جس پر میں نے آنکھ کھولی یا وہ آسمان جس کے نیچے میں نے زندگی کے ماہ و سال گزار دئیے)۔ مختصرا ، ایک مسلمان پاکستانی ہوں جو علم و عمل کی راہگزر سے اپنے گرد و نواح میں موجود لوگوں کو ان کے مقصد حیات، بامعنی زندگی، حقیقی شناخت، حقیقی خوشی، عزت و کامیابی کے مفہوم سے آشنا کرنے کی خواہشمند اور کوشاں ہوں۔
تعلیم بی ایس سی( حساب، فزکس اور شماریات )، جامعہ المحصنات کراچی سے شھادۃ الخاصہ، ایم اے (اسلامک اسٹڈیز) ، ایم اے (اسلامک اسٹڈیز مع کمپیوٹر ٹیکنولوجی)، پی ایچ ڈی (تقابل ادیان و مذاہب) اور دیگر ڈپلومے اور کورسز وغیرہ شامل ہیں۔
تجربہ، الحمدللہ تعلیم و تعلم سے وابستہ ہوں، پیشے کے لحاظ سے استاد، منتظمہ، ماسٹر ٹرینر، لائف کوچ اور کنسلٹنٹ کی ذمہ داریاں نباہنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ فی الحال ، رفاہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے شعبہ تربیت سے وابستہ ہوں۔
سوال:آپ کے نزدیک کامیابی کا کیا تصور ہے ۔۔؟ اور کیا آپ اپنے آپ کو کامیاب سمجھتی ہیں ۔۔؟
جواب:میرے نزدیک ، دنیا میں کامیابی جزوی ہوتی ہے اس لیے ، ہم اپنا مقصد یا ہدف حاصل ہونے کے بعد مطمئن نہیں ہوتے بلکہ مزید کی جستجو میں لگ جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں، کامیابی کا مفہوم ہر ایک کے لیے مختلف ہوتا ہے جو کہ اس کے نظریات، عقائد، جذبات اور افکار کی عکاسی کرتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ فی الحال میں کامیاب فرد نہیں ہوں۔ الحمد للہ، یقینا ً مستفید ضرور ہوں۔ اللہ رب العزت نے جو مواقع مجھے زندگی میں دئیے ، اس کی دی ہوئی توفیق اور والدین کے شفقت و دعاؤں کے نتیجے میں ان مواقعوں سے استفادہ کرسکی ہوں۔ الحمد للہ۔
اگر یہاں کامیابی سے مراد آپکی موجودہ توفیق سے متعلق ہے تو، 2020 کے کورونا کے اس pandemicکے دوران، رفاہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے شعبہء تربیت کے تحت ہزاروں طلبہ و طالبات اور سینکڑوں فیکلٹی ممبران کے لیے آن لائن لیکچرز و ورکشاپس کا اہتمام کرنے میں اپنی ٹیم کے ساتھ مصروف ہوں، الحمدللہ۔ اور یقیناً اس کے لیے میں ادارے کو قابل ستائش سمجھتی ہوں کہ جہاںشعبہء تربیت کے تحت مربیت کا مکمل نظام موجود ہے اور آج کہ سوشل ڈسٹینسگ کے دور میں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کر رہا ہے۔
سوال:جامعۃ المحصنات میں داخلہ کے لیے کیا جذبہ محرک بنا ؟
جواب: بنیادی طور پر، ایک فکر نے ذہن کو جکڑ رکھا تھا کہ دین کا بنیادی علم اتنا سیکھ لیا جائے کہ اپنی زندگی گزارنے کے لیے بنیادی مسائل کے لیے دوسروں کا محتاج نہ ہونا پڑے۔ اور درست و غلط میں فرق کر سکوں، فیصلے کرنے کے بعد پچھتاوہ نہ ہو اور کوئی پونجی ایسی ہو جو ہمیشہ ساتھ رہے۔
سوال:جامعۃ المحصنات سے کہاں تک تعلیم حاصل کی ؟
جواب: جس زمانے میں جامعۃ المحصنات کراچی کیمپس سے پڑھا، اس وقت صرف شھادۃ الخاصہ کا کورس ہی آفر ہورہا تھا۔ لہذا اتنا ہی پڑھ سکی۔
سوال:درس نظامی اور عصری علوم کی مشترکہ تعلیم میں کن مشکلات کا سامنا ہوا اور ان مسائل کو کیسے حل کیا ؟
جواب: اگر یہ سوال جامعۃ المحصنات میں پیش آنے والے مشکلات سے ہے تو، جامعہ میں داخلے کے وقت میں بی ایس سی کے امتحان دے کر آئی تھی لہذا عصری علوم میں نسبتا عبور تھا۔ بنیادی مشکل یہ درپیش رہتی تھی کہ درس نظامی کے علوم کا طریقہ تدریس عصری علوم سے مختلف ہوتا ہے، لذیا طلبہ کے سوالات کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی کہ وہ سوالات کریں یا پھر ایسے طلبہ ذہین ہونے کے باوجود اساتذہ کی توجہ لینے سے قاصر رہتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ میں درس نظامی کی تعلیم کے دوران اچھی طالبہ نہیں رہی۔ جہاں تک جامعۃ المحصنات کراچی کی ہم نسابی سرگرمیوں کا تعلق ہے تو شاید میں کسی سے پیچھے نہیں تھی۔
مذکورہ مسائل کو کیسے حل کیا ، بڑا دلچسپ اور جان گزاں سوال کا حصہ ہے۔ کبھی ڈانٹ کھا کر، کبھی ٹیسٹ میں نمبر کم لا کر، کبھی ہم نصابی سرگرمی میں غیر معمولی اور قائدانہ صلاحیت کے جوہر دکھا کر ۔
سوال:آپ کی پڑھائی کے معمولات کیا تھے؟
جواب: روٹین کے مطابق ہی رہی ۔ ہاں لیکن دیگر طالبات کی طرح کبھی ہاتھ میں ہر وقت کتاب نہیں ہوتی تھی، لائبریری سے شغف تھا۔ لحاظہ ہر موضوع کی کتاب ، رسالے، مجلے، اخبارات وغیرہ کی گرد جھاڑتے جھاڑتے مطالعہ بھی ہو جاتا تھا۔ بعد میں ڈانٹ ضرور پڑتی تھی کی ایک گھنٹے کا کام چند گھنٹوں پر محیط ہو جاتا ہے اور دیگر عائد ذمہ داریاں خاص طور پر ہوم ورک چھوٹ جاتا تھا۔
باقی صفحہ نمبر (7نمبر پر)
سوال: آپ کے مشاغل؟
جواب: سننا، سنانا، صفحات کی روگردانی کرنا، مذاکرہ کرنا، کھیلنا اور خوب کھیلنا، کھیلانا، پکانا، پینٹنگ کرنا، ہم جولیوں کو ستانا، جونئیرز پر کبھی کبھی زیادہ ہی رعب ڈال دینا اور ہاں ڈرانا بھی۔
سوال:جامعہ کی تعلیم عملی زندگی میں کس طرح معاون ثابت ہوئی؟
جواب: اس کا جواب بھی طویل ہے لیکن آسانی اور اختصار کے لیے چند مثالیں دے دیتی ہوں۔ جامعۃ المحصنات سے پہلے میں ایک واجبی طالبہ تھی۔ اس کے بعد اللہ رب العزت نے تعلیمی میدان میں ٹارگٹ متعین کردیا تھا۔ میرے دونوں ماسٹرز ڈسٹنکشن کے ساتھ ہیں اور میں اپنی یونیورسٹی کی پہلی پی ایچ ڈی ہوں۔ مزے کی بات یہ کہ جس یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا اس میں ماسٹرز میں داخلے مجھ سے پہلے ماضی میں کبھی نہیں ہوئے۔ اس تعلیم کے بعد میں پہلی ماسٹرز کی اسٹوڈنٹ بنی اور دیگر کے لیے راہ ہموار ہوئی، الحمد للہ۔
سب سے بڑھ کر زندگی کا ڈھب اور اسلوب ہی بدل گیا۔اگر میں یہ کہوں کہ جو سوچ کر داخلہ لیا تھا، میرے رب ذی شان نے رجھ رجھ کے عطا کیا، تو بے جا نہ ہوگا۔ الحمدللہ۔
سوال: جامعہ سے وابستہ کوئی دلچسپ یاد؟
جواب: جناب ہر لمحہ یاد ہے اور تمام لمحات انتہائی دلچسپ۔ اگر موقع ملا تو اس پر کتاب ضرور لکھوں گی۔ اختصار کے سبب صرف ایک بیان کردیتی ہوں۔ ایک رات جب لائٹ گئی ہوئی تھی( اس زمانے میں یو پی ایس نہیں ہوتا تھا)، تمام طالبات جامعہ کے برآمدے میں نظمیں اور ترانے پڑھ رہی تھیں۔ میں نائب ہیڈ گرل کی حیثیت سے راونڈ پر تھی ۔ جامعہ کا جائزہ لیتے لیتے مین گیٹ کے تک پہنچی تو دور سے دیکھا کہ ایک لڑکی گیٹ سے منہ لگائے اس کی درز سے باہر جھانک رہی ہے۔ میں دور سے اس کو ڈانٹ لگائی کہ وہ کون ہے اور کیا کر رہی ہے۔ آپ تصور نہیں باندھ سکتے کہ گھپ اندھیرے میں میرا خود جائزہ لیتے ہوئے ڈر کے مارے حال برا تھا ، اوپر سے اس لڑکی کی جرات پر شدید غصہ آرہا تھا۔ تھوڑا قریب جاکر پھر میں نے اس کو ڈانٹا کہ وہ وہاں کیا کر رہی ہے۔ بغیر کچھ سنے اس کو پرنسپل کے پاس لے جانے کی دھمکی بھی دی ۔ جب غصہ کچھ کم ہوا تو پوچھا کہ نام بتاؤ کون ہے، وہ لڑکی بڑی متانت اور نرمی سے گویا ہوئی کہ، ” بیٹا میں زینت (ہماری محترم پرنسپل صاحبہ)”۔ اف خدایا ، کاٹو تو بدن میں لہو نہیں (پہلی مرتبہ محاورے کی سمجھ آئی) ، سانپ سونگھ گیا، دل چاہے کہ زمین نگل جائے یا آسمان۔ (اس وقت اس واقعے کو تحریر کرتے ہوئے کیفیت کا اندازہ کریں کہ محاورے بھی اسی رفتار سے آرہے ہیں جس رفتار سے یاداشت کی ٹرین دوڑ رہی ہے)۔ بحر حال ، دو دن تک منہ چھپاتے رہے کہ میڈم سے سامنا نہ ہو۔ دوستوں نے تو مذاق ہی بنا لیا تھا۔ بیٹھے بیٹھے کہتی کہ میڈم آرہی ہیں اور میں وہاں سے نو دو گیارہ ہوجاتی۔
سوال:دیگر طالبات اور گھر والوں کے نام کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
جواب: الف۔ کچھ بھی کرنے سے پہلے یہ سوچیں کہ کیوں کر رہے ہیں، اگر واضح طور پر سمجھ نہ آئے تو چھوڑ دیں ۔ وقت ضائع نہ کریں۔
ب۔ جو کچھ کر نے جارہے ہیں ، سوال کریں کہ اس سے آپ کو اور دوسروں کو کوئی فائدہ ہوگا۔
ج۔جو کچھ کریں صرف اور صرف اللہ کی رضا اور اس کو خوش کرنے والے طریقے سے کریں، میں آپ کو گارنٹی دیتی ہوں کی آپ کو وہ خوشی ملے گی کہ اس بیان اور تصور سے باہر، عزت ، تکریم اور بہت کچھ جو اربوں روپوں کے ڈھیر خرچ کرکے بھی نہیں ملتا۔
د۔جب کچھ ایسا کرلیں جس سے خوشی ہو اس کو بھول جائیں۔ راز کی بات بتا رہی ہوں۔ ہم انسانوں کے لیے بھولنا بہت آسان ہے، لہذا اس کام کو بھول جائیں، اس بات کی میری گارنٹی کہ وہ خوشی آپ کے ساتھ رہے گی اور آپ کو یہ سمجھ نہیں آئے گا کہ آپ خوش اور مطمئن کیوں ہیں۔ آپ قار ی خواتین و حضرات کہتے ہوں گے کہ کتنے آرام سے خوش فہمی کا اظہار کر رہی ہیں کہ کتاب لکھیں گی ، ویسے آپس کی بات ہے میرا بھائی بھی یہی کہتا ہے باجی خواب آپ کے کڑوڑوں کے اور دکان پکوڑوں کی، بعد میں میں نے سوچا کہ کیا ہی غلط ہے۔ میرا رب کہتا ہے کہ ایک اچھا سوچنے پر ایک اجر، تو میرے خواب یقینا کڑوڑوں کہ ہیں اگرچہ کہ دکان پکوڑوں کی ہی ہے۔ لیکن جب یہ کیش ہوگا تو میرے خواب میرا سرمایا بنیں گے انشاء اللہ۔

حصہ