قيمت

172

احمد کے ابّا کیا ہوا ؟ آج بھی جانور نہیں ملا ؟–امجد کے گھر میں قدم رکھتے ہی حاجرہ نے سوال کیا ۔
“کیا بتاؤں حاجرہ ،مہنگائی نے کمر ہی توڑ ڈالی ہے “۔امجد تھکے ہوئے لہجے میں مزید بولا ۔بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کورونا کے باعث ملکی معیشت تو بدحالی کا شکار تھی ہی دوسری جانب بیوپاری من مانی قیمتیں طلب کرہے ہیں ،لگتا ہے اس دفع قربانی میرے نصیب میں نہیں ۔
” امجد مایوسی کفر ہے ،ابھی تو اک ہفتہ باقی ہے کوئی نہ کوئی جانور مل ہی جائے گا ۔ہاجرہ نے ہمیشہ کی طرح امجد کی ہمت بندھائی۔
“لیکن احمد کو کیا کہونگا؟ کہاں ہیں یہ صاحب ؟امجد نے پورے گھر میں نظر دوڑائى۔
“کہاں ہونا ہے -گلی میں آئے جانوروں کی خاطرداری میں مشغول ہوگا”ہاجرہ بیٹے کے شب و روز بتاتے ہوئے باورچی خانے کی طرف چل دیں۔
امجد اور ہاجرہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔احمد کی عمر بارہ سال تھی، احمد کے بعد انکو کوئی اولاد نہ ہوئی ۔ہاجرہ نے احمد کی تربیت میں کوئی کمی نہ چھوڑی ۔سادگی اور صبر شکر سے زندگی گزاری احمد گھر میں داخل ہوتے ہی اپنا بکرا ڈھونڈنے لگا ۔
“آج بھی میرا بکرا نہیں آیا “احمد منہ بسورتے بولا۔
“بیٹا اک دو دن میں اچھا بکرا مل جائے گا”
“اماں میرے سب دوستوں کے جانور آگئے ہیں اور پتا ہے شارق کے ابّا اتنا بڑا بکرا لائے ہیں پورے لاکھ کا ہے -دور دور سے لوگ اسکا بکرا دیکھنے آتے ہیں”احمد کا روز یہی موضوع تھا جسے اماں خاموشی سے سنتی رہتی تھيں۔
تین چار دن ہی گزرے تھے امجد صاحب کی محنت رنگ لے آئی اور وہ بھی اک مناسب سا بکرا خرید لائے ۔ہاجرہ بہت خوش تھی ۔احمد نے بکرے کو دیکھا تو اس کا منہ لٹک گیا ۔
“ابّا کو یہی بکرا ملا تھا ،میں اپنے دوستوں کو کیسے دکھاؤںگا،اتنا چھوٹا ! سب میرا مذاق اڑاینگے” ۔امجد احمد کی بات سن کر خاموشی سے کمرے میں لیٹ گئے۔
“احمد کیا تم بھول گئے وہ قصّہ جو بچپن سے میں نے تمھیں سنایا ہے کس طرح ابراہیم علیہ سلام خدا کا اشارہ پاتے ہی خود اپنے بیٹے کو اللّه کی محبّت میں قربان کرتے ہیں اور عین وقت پر اللہ اپنے رحم و کرم سے ان کو اپنے بیٹے کے بدلے مینڈھے کی قربانی پیش کر دیتے ہیں”۔
ہاجرہ روانى میں سمجھارہى تھى
“ہماری قربانی کا مقصد بھی محض اللّه کی خوشنودی اور سنت ابراہیمى کے جذبے کو اجاگر کرنا ہی تو ہے”۔
“بيٹا اللہ کو ہمارے جانور کی قیمت اور اسکا وزن نہیں درکار -وہ تو صرف نیت دیکھتا ہے اور تمہارے ابّا کس طرح پیسے بچا کر اس عظیم قربانی میں اپنا حصّہ ڈالتے ہیں”ہاجرہ پيار سے بتارہى تھى۔
“لیکن امی لوگ کیوں اتنا دکھاوا کرتے ہیں ۔”احمد نے سوال کیا۔
“کیوں کہ لوگ اپنے دین کو بھلا بیٹھے ہیں” ہاجرہ بس اتنا ہی کہہ سکی – احمد بھی سمجھدار تھا اس نے بھى جانور کى خوب خدمت گزارى کى۔
عید کے دن جب امجد نے قربانی کی دعا کے ساتھ چھری چلائی-ان کی آنکھوں میں آنسوں تیرنے لگے جسے دیکھ کر احمد کو قربانی کی اصل قیمت پتہ چل چکى تھى۔

حصہ