میٹرک بورڈ آف ریوینیو

140

کورونا وائرس کے شدید حملوں کے باعث رکنے والا تعلیمی سلسلہ ایک مرتبہ پھر شروع ہوگیا ہے۔ ویسے تو آن لائن کلاسز جاری رہیں، لیکن اس وقت میرا اشارہ میٹرک کے سالانہ امتحانات کی جانب ہے۔ کراچی میٹرک بورڈ کے تحت پیر سے شروع ہونے والے امتحانات میں 348،249 طلبہ نے سائنس اور عام گروپوں میں اندراج کروایا، جبکہ 438 امتحانی مراکز قائم کیے گئے، جن میں سے 185 سرکاری اسکولوں میں، اور 253 نجی اسکولوں میں قائم کیے گئے۔
یہاں تک تو سب ٹھیک رہا، پھر وہی کچھ ہوا جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے۔ ہزاروں طلبہ و طالبات ایڈمٹ کارڈ نہ ملنے کے باعث بورڈ کی سیڑھیاں چڑھتے اور اترتے دکھائی دیے، بلکہ اِس مرتبہ تو سینٹر کنٹرول آفیسر ہی غیر حاضر رہے، جس کی وجہ سے شہر کے مختلف علاقوں میں قائم امتحانی مراکز میں پرچہ تاخیر سے پہنچنے کی خبریں صبح سے ہی موصول ہونے لگیں، جبکہ جن امتحانی مراکز پر پرچہ بروقت پہنچا وہاں ساڑھے 9 بجے شروع ہوجانے کے 4 منٹ بعد بآسانی فوٹو کاپی کی دکانوں پر موجود تھا۔ امتحانی مراکز پر ہونے والی بدانتظامی اور کراچی بورڈ کی جانب سے کی جانے والی بے ضابطگیوں کی تاریخ نئی نہیں۔ یہاں گزشتہ تیس برسوں سے یہی کچھ دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ کراچی بورڈ سے لے کر امتحانی مراکز تک ہونے والی بے ضابطگیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہمارا تعلیمی ڈھانچہ کرپشن اور اقربا پروری کے باعث زمین بوس ہوچکا ہے۔ اپنے من پسند امتحانی مراکز بنوانے کے لیے باقاعدہ بولیاں لگائی جاتی ہیں، جو جتنی بڑی آفر کرے اُسے اس کی حیثیت سے بڑھ کر مراعات حاصل ہوتی ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی انتظامیہ سے لے کر نجی اسکولوں کے مالکان تک… سب کے سب پیسہ بنانے میں مصروف ہیں۔ یہ تحریر لکھنے تک جماعت دہم کے پرچے ختم، جبکہ جماعت نہم کے جاری ہوں گے۔
بولی لگاکر بنوائے جانے والے امتحانی مراکز کی حالت تو انتہائی دل خراش ہے، جہاں چند درجن طلبہ کے بیٹھنے کی گنجائش نہیں وہاں ایک ایک ڈیسک پر تین بچوں کو بٹھاکر گھر جیسے ماحول میں پرچے لیے جارہے ہیں۔ میٹرک بورڈ کی جانب سے رقم لے کر مخصوص امتحانی مراکز بنانے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چاند رات تک، میرا مطلب ہے امتحانات شروع ہونے سے ایک روز قبل تک امتحانی مراکز کی تبدیلی کا بازار گرم رہا، جبکہ شدید گرمی کے باوجود امتحانی مراکز کے باہر والدین کے بیٹھنے کے لیے شامیانے لگائے گئے اور نہ ہی پینے کے صاف پانی کا کوئی انتظام تھا۔ میں نے خود مختلف سرکاری و نجی اسکولوں کے باہر دھوپ میں بیٹھے متعدد ایسے عمر رسیدہ افراد دیکھے جو شدید گرمی میں پانی نہ ملنے کے باعث نیم بے ہوش دکھائی دیے۔ امتحانی مراکز کے اندر کی صورتِ حال بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھی۔ امتحانی مراکز سے باہر آنے والی طالبات بھی بجلی اور پینے کا پانی نہ ملنے کا رونا روتی دکھائی دیں۔ شمائلہ نامی ایک بچی نے اسکول کے اندر کی صورت حال بیان کرتے ہوئے بتایا:
”ہمیں پرچہ گیارہ بجے ملا ،ابھی m,c,qs ہی کیے تھے کہ بارہ بجتے ہی چھین لیا گیا۔ ہمارے احتجاج کے باوجود اضافی وقت نہ دیا گیا۔ یہ کس قسم کا امتحان لیا جارہا ہے! سارا سال پڑھائی نہیں ہوئی، اس پر سینٹر چلانے والے ناخدا بنے ہوئے ہیں۔“
جبکہ اسی کی ہم جماعت عنبرین نے بتایا:
”دورانِ امتحان مجھے تین مرتبہ کبھی اِس کلاس میں، تو کبھی اُس کلاس میں بٹھایا گیا۔ ایک طرف مجھے یوں ذہنی اذیت دی جارہی تھی، تو دوسری جانب اسکول انتظامیہ اپنی جاننے والی لڑکیوں کو موبائل فون کے ذریعے نقل کروانے میں مصروف تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اِس مرتبہ ہونے والے امتحانات انتہائی متنازع رہے تو غلط نہ ہوگا۔“
ظاہر ہے جب فزکس کا پرچہ ایک سینٹر میں صبح ساڑھے نو بجے پہنچے، جبکہ وہی پرچہ دوسرے امتحانی مرکز میں دو گھنٹے کی تاخیر سے پہنچایا جائے تو اس جدید دور میں واٹس ایپ کو اپنا کمال تو دکھانا تھا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس قدر بدانتظامی کے باوجود چیئرمین میٹرک بورڈ سید شرف علی شاہ نے سوائے اگر مگر کی گردن کے، عملی طور پر کچھ نہ کیا۔ یعنی ناظمِ امتحانات محمد شائق اور سیکریٹری بورڈ محمد شائق کے خلاف کسی قسم کی کوئی محکمانہ کارروائی نہ کی گئی، بلکہ چیئرمین بورڈ اب تک اپنی ساری توانائیاں بورڈ کے اہم عہدوں پر فائز افراد کو بچانے میں صرف کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں ناظم امتحانات کا نام دو مرتبہ لکھنے کا مطلب عوام کو یہ باور کرانا ہے کہ میٹرک بورڈ کراچی کی ایک شخصیت کس طرح اور کس قانون کے تحت دو اہم عہدوں پر فائز ہے۔ شاید قانونی طور پر اس میں کوئی مسئلہ نہ ہو، لیکن سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا اس ادارے کے پاس کوئی دوسرا شخص اس قابل نہیں کہ اُسے کسی ایک عہدے پر تعینات کردیا جائے! اگر کوئی دوسرا اہل نہیں تو پھر یہ ہمارے سسٹم کی خرابی کی وجہ ہے۔
فزکس کے پرچے میں جو کچھ بھی ہوا اُسے دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ایک سال امتحانات نہ ہونے کے باعث کراچی بورڈ امتحانی طور طریقے ہی بھول گیا۔ چیئرمین میٹرک بورڈ سید شرف علی شاہ کو یہ بات ماننا ہوگی کہ اُن کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات سے نہ صرف خرابیوں میں مزید آضافہ ہوا بلکہ ان کے ادارے نے ثابت کردیا کہ یہ کام اب اس کے بس کا نہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ امتحانات اور رجسٹریشن کی مد میں غریبوں سے کروڑوں روپے بٹورنے والا کراچی ثانوی بورڈ امیدواران کو پُرسکون امتحانی ماحول فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ثانوی بورڈ کراچی اپنی اصل ذمہ داریاں پسِ پشت ڈال کر ”میٹرک بورڈ آف ریونیو“ بن چکا ہے تو غلط نہ ہوگا۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اور آگے بڑھتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس کی ذمہ داری ہمارے اُن حکمرانوں پر بھی عائد ہوتی ہے جنہوں نے تعلیمی نظام میں بہتری لانے کے بجائے پیسے کی خاطر ایسے کاروباری لوگوں کو نجی درسگاہیں بنانے کے اجازت نامے جاری کیے جنہوں نے خود کبھی اسکول کا دروازہ تک نہ دیکھا ہو، بلکہ اجازت نامے دیتے وقت اسکول مالکان کی تعلیمی قابلیت اور صلاحیت دیکھنا تو درکنار، دودھ والوں سے لے کر گٹکا فروشوں تک کو تعلیم کے نام پر کاروبار کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ میں نے خود کئی ایسی سڑکیں دیکھی ہیں جن کے دونوں طرف رہائشی مکانات میں اتنی زیادہ تعداد میں اسکول قائم ہیں کہ کسی جمعہ بازار کا منظر پیش کرتے ہیں۔ ظاہر ہے جو کروڑوں روپے لگاکر اونچی اونچی عمارتیں بنائے گا وہ امتحانات میں اپنی مرضی کے نتائج لینے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض پرائیویٹ اسکول مالکان نے پیسے کی بدولت میٹرک بورڈ کراچی میں اپنا اثر رسوخ قائم کیا، اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا شروع کردیے۔ میں یہاں یہ بتاتا چلوں کہ یہ بات اس گھنائونے دھندے سے منسلک چند کرپٹ عناصر سے متعلق کی گئی ہے، جبکہ زیادہ تر نجی اسکولوں کی تعلیمی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
خیر، بات ہورہی تھی کراچی میٹرک بورڈ کی نااہلی کی۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ امتحانی مراکز سرکاری اور نجی اسکولوں کی عمارتوں میں بنائے جاتے ہیں، جبکہ عملہ بھی انہی کا ہوتا ہے۔ ان عمارتوں کا میٹرک بورڈ کراچی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، یعنی یہ بورڈ کی ملکیت نہیں ہوتیں، جب کہ امتحان لینا بورڈ کا کام ہے، تو اس اعتبار سے امتحانی مراکز بنانے کی تمام تر ذمہ داری کراچی میٹرک بورڈ پر عائد ہوتی ہے۔ اب یہ اس ادارے کا کام ہے کہ اپنی جگہ کا بندوبست کرے ورنہ کوئی اور کام کرے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا، بلکہ سرکاری اور نجی عمارتوں کو امتحانی مراکز بناکر وہاں کے عملے کو خیرات کی صورت میں تھوڑی سی رقم ادا کرکے برسوں سے اربوں روپے بٹورے جارہے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکمران ہوش کے ناخن لیتے ہوئے امتحانات کے نام پر ہونے والے اس کھلواڑ پر سنجیدگی سے توجہ دیں، تاکہ آنے والی نسلوں کو نہ صرف بہترین امتحانی ماحول میسر ہوسکے بلکہ تعلیمی میدان میں کامیابیاں حاصل کرنے کی پوری آزادی بھی مل سکے۔ اگر حکمرانوں نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا تو یقیناً ہمارے تعلیمی ڈھانچے میں بہتری لائی جا سکتی ہے، ورنہ اہداف کا حصول ناممکن ہوگا۔

حصہ