جان لیوا بیماریاں فالج اور ہارٹ اٹیک سےکیسے بچا جائے۔؟

552

پاکستان میں بڑی تعداد میں لوگ بلڈ پریشر، شوگر اور اس جیسے کئی امراض کا تیزی سے شکار ہورہے ہیں اور یہ بیماریاں زیادہ ہوکر فالج اور دل کی بیماری کی طرف لے جاتی ہیں۔ اور اس وقت ہمارے یہاں  فالج ہو یا دل کا دورہ… یہ عروج پر ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر نبیلہ سومرو کا نام ری ہیبلی ٹیشن کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے ۔آپ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف فزیکل میڈیسن ری ہیبلی ٹیشن ڈائو میڈیکل یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر نبیلہ سومرو کا نام ری ہیبلی ٹیشن کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں ذہنی و جسمانی معذور آپ کی خدمات کی بدولت آج معاشرے میںاپنا کردار ادا کررہے ہیں اس حوالے سے آپ سے بات ہوئی تو آپ آٹھ عوامل کا ذکر کرتے ہوے کہتی ہیں جو ان دو بڑی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں جن میں سونے کے اوقات اور اس کا دورانیہ، کمر کا بڑھا ہوا سائز، نامناسب غذا، آپ کا مزاج، تمباکو نوشی۔ یہ تمام چیزیں دل کے دورے اور فالج کی طرف لے جاتی ہیں، اور ان عوامل سے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کو آئندہ دل کے امراض اور فالج کے کتنے چانس ہیں۔اس کی وضاحت میں آپ کا کہنا ہے کہ ایک لفظ ہے میٹابولک سنڈروم(Metabolic Syndrome)، اس میں اگر آپ کو تین چار چیزیں ایک ساتھ ہیں تو آپ زیادہ خطرے میں ہیں۔ اگر آپ کا بلڈ پریشر بڑھا ہوا ہے،آپ کو شوگر بھی ہے اور آپ موٹاپے کا بھی شکار ہیں تو یہ انتہائی خطرناک بات ہے۔ موٹاپے کو اس لیے بھی اس حوالے سے زیادہ اہمیت حاصل ہے کہ موٹاپا خود بہت بڑی بیماری ہے جس سے کئی امراض جنم لیتے ہیں، جن میں دل کے امراض، فالج اور بادی امراض سمیت کئی چیزیں ہیں۔ سنڈروم سے مراد ہے ایک ہی شخص میں کئی امراض یکجا ہوجائیں۔ ہمارے ملک میں ان امراض میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ توآپ کا کہنا تھا کہ بیمار ی کا باعث بننے والے عوامل میں سے سب سے اہم بلڈ پریشر ہے،اس بیماری میں اضافے کا باعث ہماری نامناسب غذا ہے جس میں چٹنیاں، اچار، ہوٹل کا کھانا اور نمک مرچ کا کثرت سے استعمال ہے۔ بعض لوگ ہر چیز پر نمک اور مسالہ ڈال کر کھاتے ہیں چاہے فروٹ ہو، کھانا ہو، چاٹ ہو۔ اس سے جسم میں سوڈیم کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ سوڈیم ان ٹیک جتنا بڑھے گا، بلڈ پریشر اتنا زیادہ ہوگا۔ اس کے علاوہ آپ کے کھانے میں جتنی زیادہ چکنائی ہوگی، آپ کی آرٹریز ہارڈ ہوں گی اور آپ کا بلڈپریشر بڑھے گا، اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں لوگ چکنائی کے استعمال میں کس قدر بے پروا ہیں۔ شادی کے کھانوں سے لے کر گھر میں تیار ہونے والے کھانوں تک ہر جگہ اس میں خاصی بے احتیاطی برتی جاتی ہے، کیونکہ ہمارے دن کا آغاز ہی گھر میں پراٹھوں سے ہوتا ہے۔شوگر کے ذکر کے حوالے سے کہنا تھا کہ “” جسم کے ہارمونز میں جو انسولین بڑھتی ہے اس کی کمی کی وجہ سے شوگر بڑھتی ہے جو بچپن سے بن رہی ہوتی ہے، اور اس کی پیداوار کے لیے آپ کو زیادہ سے زیادہ فزیکل سرگرمی درکار ہوتی ہے۔ موبائل فون اور کمپیوٹر کے استعمال کے باعث بچے، جوان، بوڑھے سب منجمد ہوکر رہ گئے ہیں۔ شوگر جو بھی آپ اپنے جسم میں داخل کرتے ہیں اسے استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک تو انسولین کم بن رہی ہے، کیونکہ بچپن سے فزیکل سرگرمی کم ہے، وزن بڑھا ہوا ہے، اور دوسری بات اس شوگر کو استعمال بھی نہیں کیا جارہا ہے۔ کھانے پینے کے بعد لوگ دفاتر میں اور بچے اسکولوں میں بیٹھ جاتے ہیں۔ پہلے بچے بسوں کا استعمال کرتے تھے یا پیدل اسکول جاتے تھے ۔ لیکن اب ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ گھر سے گاڑی یا وین میں بیٹھے، اسکول گئے، اور وہاں اسکول سے گاڑی یا وین میں بیٹھ کر گھر آگئے۔ بچوں کا گلیوں میں آپس میں کھیلنا ختم ہوگیا ہے۔ اب آجائیں اس کے بعد کولیسٹرول سے متعلق کہنا تھا کہ “” کولیسٹرول اس لیے بڑھ رہا ہے کہ چکنائی کھا تو رہے ہیں لیکن اس کوکنزیوم نہیں کررہے، جس طرح شوگر استعمال کررہے ہیں مگر کنزیوم نہیں کررہے ہیں۔ اور خدا کا نظام ایسا ہے کہ جو بھی اضافی شوگر استعمال کی جاتی ہے وہ موٹاپے کی صورت میں جسم میں جمع ہوجاتی ہے۔آپ نے اس پر مزید کہا کہ حالیہ تحقیقات کے مطابق نیند پانچ گھنٹے سے کم نہ ہو اور سات گھنٹے سے زیادہ نہ ہو۔ اور نیند ہمیشہ رات کے وقت میں ہو۔ یعنی سورج غروب ہوتے ہی اگر نہیں سو سکتے تو دس سے گیارہ بجے کے دوران سو جائیں۔ جبکہ اُس وقت تو ہمارے ہاں بیشتر تقاریب شروع ہوتی ہیں۔ ہم گھر آتے ہیں اسی وقت، اور ٹی وی لگا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کمر کے سائز کا پیمانہ مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ ہے۔ مردوں میں 32 تا 34 انچ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے، اور عورتوں میں 28 تا 30 انچ ۔ اور جتنے بھی انچ اضافہ کمر میں ہورہا ہے یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ اسی تناسب سے آپ کی رگوں میں چربی بڑھ رہی ہے چاہے وہ دماغ کی ہوں یا دل کی۔ دماغ میں اگر جمع ہورہی ہے تو خون کی روانی متاثر ہوگی اور فالج کا باعث بنے گی، جبکہ دل میں جمع ہورہی ہے تو دل کی بیماریوں کا باعث بنے گی، حتیٰ کہ ہارٹ اٹیک کا سبب بھی ہوسکتی ہے۔ جتنا آپ کی طبیعت میں غصہ ہوگا، جتنا آپ منفی سوچیں گے، جتنا آپ پریشانی مول لیں گے، جتنا آپ چیخیں گے چلاّئیں گے، اِس سے ناراض اُس سے خوش نہیں، ہر شخص میں برائی تلاش کریں گے، اتنے ہی آپ کے جسم میں پیدا ہونے والے ہارمونز جو آپ کو متحرک رکھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں اور آپ کو ڈپریشن سے بچاتے ہیں، وہ کم ہوتے جائیں گے۔ تو مزاج میں تیزی بھی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ آپ کو دل کے امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔ پہلے ہم کولیسٹرول، بلڈ پریشر اور شوگر سے متعلق ہی جائزہ لیا کرتے تھے، لیکن اب دس سال کی تحقیقات کے بعد یہ علامت دیگر علامات سے زیادہ اہمیت حاصل کرگئی ہے۔ جیسے آپ کی شخصیت ہے، کمر کا سائز ہے، نیند کا دورانیہ ہے، یہ چیزیں ہارٹ اٹیک اور فالج کے اسباب میں سرفہرست آگئی ہیں ۔ ساتویں چیز ہے آپ کی غذا۔ غذا انتہائی مناسب استعمال کرنی چاہیے جس میں سبزیوں اور پھلوں کے ساتھ مٹھی بھر خشک میوے کا استعمال مناسب ہے بہ نسبت گھی، گوشت، مرغی، مچھلی کے۔ گوشت ہفتے میں ایک بار استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ گوشت میں چربی زیادہ نہ ہو۔ مچھلی کا بھی خیال رکھیں کہ صحت مند ہو۔ چونکہ سمندری آلودگی کے باعث یا فارم کی مچھلیوں میں ناقص خوراک اور افزائش کے باعث ان کی صحت بھی مشکوک ہے۔ جیسے پہلے وقت میں گھر پر مرغیاں پالی جاتی تھیں جن کی خوراک مناسب ہوتی تھی۔ فارم کی مرغیوں کی بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ ان کی غذا کیا ہے، ان کے ہارمونز کیسے ہیں۔ لیکن مناسب یہی ہے کہ آپ کا جو کھانا ہو وہ قدرتی ہو، اس میں کیمیکل کی آمیزش نہ ہو۔کینولا یا زیتون اور مونگ پھلی کا تیل صحت کے لیے بہتر ہیں۔ اس کے علاوہ سرسوں اوردیگر سبزیوں کا تیل بھی مناسب ہے۔ بناسپتی گھی اور دیگر سے اجتناب ضروری ہے۔ نسوار، پان پراگ، گٹکا، شیشہ اور گانجا کے بے جا استعمال کے علاوہ ہیپاٹائٹس بی اور سی بھی فالج کی شرح میں اضافے کا سبب ہیں۔ دماغی، اعصابی امراض کو بھی نظرانداز کرنا فالج کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ سماجی، معاشی، معاشرتی، سیاسی، مالی مسائل کے سبب بھی لوگوں میں شدید ڈپریشن کا شکار ہوکر فالج کا مریض بننے کا امکان موجود رہتا ہے۔ آٹھویں چیز سگریٹ نوشی اور تمباکو خوری ہے۔ سگریٹ اور تمباکو کا استعمال بھی بہت بڑی وجہ ہے۔ تحقیق کہتی ہے کہ صرف ایک سگریٹ پینے والے افراد میں سگریٹ نہ پینے والوں کے مقابلے میں دل کی بیماریوں کا 50 فیصد زیادہ امکان ہوتا ہے، اور 30 فیصد امکان فالج کا ہوتا ہے۔آپ کا کہنا ہے کہ یہ بنیادی آٹھ چیزیں ہیں، لیکن اس کے علاوہ یہ بیماریاں موروثی بھی ہوتی ہیں۔اور اب تو یہ تحقیق ہے کہ جو بچے پیدائشی موٹے یا ان کے ماں باپ کی خوراک اچھی نہیں ہوتی، ان بچوں کی خون کی رگوں میں پیدائشی چربی ہوتی ہے۔ اب تو یہ فکر میں ہیں کہ ان کے اسکولوں اور کالجوں میں ورزش کرائی جائے۔آپ کا کہنا تھا کہ فالج تب ہوتا ہے جب آپ کے دماغ کی رگیں بلاک ہوجاتی ہیں۔ دل کی بیماریاں یا ہارٹ اٹیک تب ہوتا ہے جب آپ کے دل کی رگیں بلاک ہوجاتی ہیں۔ جب دل کی رگیں بلاک ہوتی ہیں اور دل کی دھڑکن چند لمحوں کے لیے بھی حرکت کرنا بند کردے تو وہاں لوتھڑے بن جاتے ہیں، وہ بھی دماغ تک پہنچ کر فالج کا باعث بن سکتے ہیں جس کو Atrial Fibrillationکہتے ہیں۔یہ دونوں آپس میں منسلک ہیں اور دونوں میں مماثلت ایک ہی ہے کہ خون کی روانی متاثر ہوجائے۔ دل اور دماغ سے متعلق جتنی بھی بیماریاں ہیں اس سے بچائو کے لیے درج بالا علامات کا ہی خیال رکھنا ضروری ہے۔کیا فالج کی علامات کو آسانی سے شناخت کیا جا سکتا ہے ؟تو اس پرپروفیسرڈاکٹر نبیلہ سومرو کا کہنا تحا کہ فالج کی چند علامات ہیں جو سب کو معلوم ہونی چاہئیں۔ جسم کے کسی بھی آدھے حصے کا دائیں ہو یا بائیں، آپ کو لگے کہ وہ کمزور ہے، اسے آپ استعمال نہیں کرپارہے۔ آدھے حصے کی نہ بھی ہو، صرف ٹانگ یا ہاتھ کی حرکت متاثر ہو۔ منہ کا ایک طرف مڑ جانا۔ بولنے میں لڑکھڑاہٹ یا نگلنے میں دقت پیش آرہی ہو، یا اس قسم کی علامات چار گھنٹے، دو گھنٹے، ایک گھنٹہ یا صرف چند منٹ کے لیے بھی ہوں اور پھر غائب ہوجائیں، یا اسی طرح کچھ دیر کے لیے یادداشت متاثر ہوجائے، یا جسم کے ایک سمت میں محسوس کرنے کی صلاحیت متاثر ہوجائے۔ آپ نے اسی ضمن میں بتایا کہ “”ابھی ایک کیس ہوا ہمارے کولیگ کے ساتھ، ان کو فالج کا اٹیک ہوا جبکہ نہ ان کو شوگر ہے، نہ کولیسٹرول اور نہ ہی بلڈ پریشر کا مسئلہ ہے، نہ وہ غصے والے ہیں، لیکن ایک دن دفتر میں دیکھا اچانک طبیعت خراب ہوگئی۔ ایسے میں معمولاتِ زندگی کو دیکھنا پڑے گا… لائف اسٹائل کیا ہے، پیدل کتنا چلتے ہیں، عمر کتنی ہے، تمباکو نوشی تو نہیں کرتے؟ اس کے علاوہ موروثی طور پر بھی فالج ہوسکتا ہے۔ بلکہ ایک تحقیق کے مطابق جو بچے پیدائشی طور پر موٹے ہیں یا ان کے والدین کی خوراک اچھی نہیں ہے تو ان پیدا ہونے والے بچوں کے خون میں بھی چربی موجود ہونے سے ان میں فالج کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ ہمارے اسکولوں کی کینٹین میں آپ دیکھیں، کتنی فرائی چیزیں مل رہی ہیں۔ کہیں پھل ملتا ہے؟ تلے ہوئے سموسے، تلے ہوئے رول، چپس۔ یہ تمام اشیاء کولیسٹرول بڑھانے کا باعث بنتی ہیں۔ یہ تمام Fat Trans ہیں جو آسانی سے ڈپوزٹ ہوجاتے ہیں۔ ہر چیز جو ڈبے میں بند ہے، پیکٹ میں بند ہے چاہے وہ دودھ ہو، چپس ہو‘ فروزن کھانا ہو… اور فروزن کھانے کی تو مارکیٹ میں بہتات ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکولوں میں بچوں کی ورزش کا اہتمام کیا جائے اور کینٹین میں صحت بخش کھانا فراہم کیا جائے۔ جتنی چیز میٹھی ہوگی، اس میں فائبر کم ہوگا اور ٹرانس فیٹس زیادہ ہوں گے، اتنی ہی رگوں میں خون کی روانی متاثر ہوگی۔ ہمارا پورا معاشرہ اس وقت پیکٹ کے کھانوں پر چل رہا ہے۔ جب آپ سے پوچھا کہ “”اگر ایک شخص کو فالج ہوگیا ہے، اس کی بحالی کے کتنے امکانات ہوتے ہیں؟ اور مریض و گھر والوں کو کیا کرنا چاہیے؟تو پروفیسرڈاکٹر نبیلہ سومرو کا کہنا تھا کہ “” جب فالج ہوجاتا ہے تو علاج میں دو تین چیزیں ہیں۔ ایک تو دوائیں جو معالج تجویز کرتے ہیں۔ دوسرے بحالی جو فزیشنز کرتے ہیں، اور تیسرے نمبر پر جراحی اگر ضرورت ہو۔ میڈیکل مینجمنٹ نیورولوجسٹ بہت اچھی طرح بتا سکتے ہیں، میں ری ہیب مینجمنٹ پر بات کروں کہ اس میں تین ری ہیب میڈیسن کے ڈاکٹر کرتے ہیں۔ مریض کا علاج شروع ہونے کے بعد تقریباً ایک ہفتے کے اندر اندر نیورولوجسٹ فزیاٹرس کو معالجے کی ٹیم میں شامل کرلیتا ہے کہ اگر مریض کے جبڑے میں کسی قسم کی کمزوری ہے یا چہرے پر مرض کے باعث اثر ہوا ہے تو فزیاٹرس جائزہ لے کر ٹیم بناتا ہے جو اس مریض کا علاج کرتی ہے۔ اس ٹیم کے ممبرز میں آکوپیشنل تھراپسٹ جو فالج کے مریض کے ہاتھ پر کام کرتے ہیں کہ مرض کے باعث ہاتھوں کی کھوئی ہوئی طاقت کیسے بحال ہو، اور فالج کے اس مریض کو آگاہی فراہم کرتے ہیں روزانہ کہ کام کاج کیسے کرنے ہیں۔ فزیو تھراپسٹ طاقت کی بحالی پر کام کرتا ہے۔ کندھوں کی طاقت، کندھوں میں درد، پیروں میں کمزوری… اس طاقت کی بحالی کا کام اس کی ذمہ داری ہے۔ تیسرے نمبر پر لینگویج اینڈ سولونگ پیتھالوجسٹ جسے ہم اسپیچ تھراپسٹ بھی کہتے ہیں کہ اگر خوراک کے نگلنے یا بولنے میں مسئلہ ہے تو وہ اس حوالے سے مریض کے علاج میں مدد کرتا ہے۔ فزیاٹرس اپنا جائزہ لینے کے بعد نیوروسائیکالوجسٹ کو آگاہ کرتا ہے۔ مریض کا اگر بائیں جانب متاثر ہے تو مریض کی یادداشت، چیزوں کے بارے میں اندازہ اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کتنی متاثر ہوئی ہے، اور اس میں آکوپیشن تھراپسٹ مل کر اس کی نگرانی کرتے ہیں۔ فالج کے مریض کے علاج میں مرض کے فوراً بعد ایک ہفتے کے اندر اندر فزیاٹرس سے رابطہ ضروری ہے تاکہ مریض جلد صحت یاب ہوسکے۔

حصہ