قیصر و کسریٰ (قسط 5)

379

شمعون نے کہا ’’اگر تم اپنے گھوڑے دوسروں کے ہاتھ بیچنا چاہو تو میں تمہیں مہلت کیوں دوں، ،میں اُس دن کا انتظار کیوں کروں جب تم اپنا باغ، جانور اور گھر کا تمام اثاثہ بیچ کر کہیں بھاگ جائو‘‘۔
ہبیرہ خون کا گھونٹ پی کر رہ گیا اور کعب نے فوری مداخلت کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے کہا ’’شمعون تمہیں ایک معزز آدمی سے اس طرح بات نہیں کرنا چاہیے۔ میں ہبیرہ کو جانتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ تمہارا ایک ایک درم ادا کردے گا‘‘۔
ہبیرہ نے شکایت کے لہجے میں کہا ’’میں نے جو رقم اس سے لی تھی اُس سے تین گنا سود ادا کرچکا تھا۔ اور یہ کہتا تھا کہ اگر میں اسے اپنے آٹھ بہترین گھوڑے دے دوں تو بھی صرف سود کی بقایا رقم ہی پوری ہوسکے گی۔ اور میں یہ چاہتا تھا کہ اس کا پورا حساب چکا دیا جائے، پچھلے دنوں شام میں گھوڑوں کی بہت مانگ تھی اس لیے میں نے گھوڑے وہاں بھیج دیئے تھے‘‘۔
کعب نے کہا ’’اگر تمہارا یہ خیال تھا کہ شمعون تمہارے گھوڑوں کی قیمت کم لگاتا ہے تو یہاں کسی اور کے ہاتھ فروخت کردیئے ہوتے‘‘۔
ہبیرہ نے کہا ’’اگر وہ تمام گھوڑے میرے اپنے ہوتے تو میں شاید یہی کرتا۔ لیکن اُن میں میرا بھتیجا عاصم بھی حصہ دار تھا۔ اور وہ انہیں یہاں بیچنے کی بجائے شام لے جانے پر مصر تھا، اُس کے اصرار کی وجہ یہ تھی کہ ہمیں اسلحہ کی بے حد ضرورت تھی۔ عاصم شام میں گھوڑے بیچنے کے بعد تلواریں خرید کر لائے گا۔ اور ہم یہاں اپنی ضرورت سے زائد تلواریں اپنے قبیلے کے لوگوں کے ہاتھ تگنی قیمت پر فروخت کرسکیں گے۔ پھر میرے لیے شمعون کا قرضہ اتارنا مشکل نہ ہوگا۔ شمعون مجھ پر بدعہدی کا الزام لگاتا ہے لیکن آپ اس سے پوچھیے کیا اس نے ہمارے خاندان کے آدمیوں سے بیس تلواریں مہیا کرنے کا وعدہ کرنے کے بعد ہمیں دھوکا نہیں دیا اور وہ تلواریں ہمارے دشمنوں کے ہاتھ فروخت نہیں کیں؟‘‘
شمعون نے کہا ’’جب قبیلہ خزرج کے لوگ مجھے زیادہ قیمت دیتے تھے تو میں تم سے سودا کیوں کرتا؟‘‘
ہبیرہ نے کہا ’’پھر تمہیں یہ شکایت کیوں ہے کہ میں نے اپنے گھوڑے سستے داموں تمہارے ہاتھ فروخت کیوں نہیں کیے؟‘‘
شمعون نے جواب دیا ’’اس لیے کہ تم میرے مقروض ہو‘‘
ہبیرہ نے طیش میں آکر کہا ’’تمہاری تمام دولت ہمارے خون اور پسینے سے نچوڑی ہوئی ہے اور اب تم ہمیں مقروض ہونے کا طعنہ دیتے ہو؟‘‘
کعب نے کہا ’’دیکھو! جھگڑنے سے کوئی فائدہ نہیں، میں نے تمہیں اس لیے بلایا ہے کہ تمہارا تصفیہ کرادیا جائے‘‘۔
ہبیرہ نے کہا ’’آپ جو کہیں میں ماننے کو تیار ہوں، لیکن شمعون کو مجھ سے بدکلامی کرنے کا کوئی حق نہیں۔ میں نے آج تک اس سے کوئی بدعہدی نہیں کی لیکن اس نے ہمیشہ میری مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے مجھ سے پہلے اس نے میرے بھائی کو قرض دیتے وقت جو شرائط منوائی تھیں وہ انتہائی تکلیف وہ تھیں لیکن ہم نے مجبوری کی حالت میں سب کچھ برداشت کیا۔ میرے بھائی کو اپنا نصف باغ اور چشمے سے اپنے حصے کا نصف پانی اس کے پاس رہن رکھنا پڑا۔ ظاہر ہے کہ یہ پانی رہن شدہ باغ کی آبیاری کے لیے استعمال ہونا چاہیے تھا، لیکن جب میرا بھائی قرضے کی نصف سے زائد رقم ادا کرچکا تو اس کی نیت میں فتور آگیا اور اس نے پانی اپنے لیے باغ کو دینا شروع کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مزید تین سال گزرنے کے بعد جب میرے بھائی نے پوری رقم ادا کرکے اپنا باغ چھڑایا تو اُس کے بیشتر درخت سوکھ چکے تھے‘‘۔
شمعون نے کہا ’’لیکن تم یہ بات بھول گئے ہو کہ تمہارے بھائی نے اپنے ایک بیٹے کو بھی میرے پاس رہن رکھا تھا اور ہمارا معاہدہ یہ تھا کہ قرضے کا آخری درم ادا ہونے تک وہ میرے پاس رہے گا‘‘۔
ہبیرہ نے کہا ’’اگر تم اُسے اپنے پاس نہیں رکھ سکے تو اس میں میرا یا میرے بھائی کا کیا قصور تھا؟ کیا یہ درست نہیں کہ جب وہ تمہاری بدسلوکی سے تنگ آکر گھر بھاگ آیا تھا تو ہم اُسے پکڑ کر تمہارے پاس لے گئے تھے لیکن تم نے خود ہی اُسے اپنے پاس رکھنے سے انکار کردیا تھا؟‘‘
شمعون نے کعب سے مخاطب ہو کر کہا ’’جناب آپ ہی انصاف کریں کہ میں نے عاصم کے ساتھ کیا بدسلوکی کی تھی۔ میں نے اُسے کام کا آدمی بنانے کے لیے اُس کی تعلیم کا انتظام کیا، لیکن جب وہ پڑھنے لکھنے کے قابل ہوا تو الٹا میرا دشمن بن گیا۔ اس نے تین دفعہ میرے بڑے لڑکے کو پیٹا۔ چوتھی بار میرے چھوٹے لڑکے کو ایک سرکش گھوڑے کی پیٹھ پر بٹھا کر چھوڑ دیا۔ میرے پاس بنو خزرج کے ایک معزز شخص عدی کا لڑکا عمیر بھی رہن تھا۔ عاصم کی اس سے بھی نہیں بنتی تھی۔ ایک دن اس نے عمیر بن عدی کو اتنا پیٹا کہ اس کے منہ اور ناک سے خون بہنے لگا۔ میرے نوکروں کی مداخلت سے عمیر جان چھڑا کر گھر پہنچا تو اس کے خاندان کے بوڑھے اور جوان میرے پاس آئے اور مطالبہ کیا کہ عاصم کو ہمارے حوالے کردو۔ یہ عاصم کی خوش قسمتی تھی کہ وہ میری پناہ میں تھا ورنہ عدی کے بیٹے سے یہ سلوک کرنے کے بعد اُس کا ایک لمحہ کے لیے بھی زندہ رہنا ممکن نہ تھا۔ میں نے بڑی مشکل سے ان لوگوں کو سمجھا بجھا کر رخصت کیا۔ چند دن بعد مجھے معلوم ہوا کہ ادس اور خزرج پھر کھلے میدان میں ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں مجھے ڈر تھا کہ ادس، خزرج کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے اس لیے میں نے نوکروں سے کہہ دیا کہ وہ عاصم کا خیال رکھیں۔ چنانچہ لڑائی سے ایک دن قبل ہم نے اُسے ایک کوٹھڑی میں بند کردیا۔ میرا قیاس درست نکلا، اس لڑائی میں بنو ادس کا بہت نقصان ہوا۔ ہبیرہ کا ایک بیٹا اور اس کے بھائی کے دو بیٹے مارے گئے اور میری وجہ سے عاصم کی جان بچ گئی، لیکن اُس نے مجھے احسان کا بدلہ یہ دیا کہ جب اُس کی کوٹھڑی کا دروازہ کھولا گیا تو وہ باہر نکلتے ہی مجھ پر ٹوٹ پڑا یہ دیکھیے‘‘! شمعون نے اپنا منہ کھول کر دانتوں پر انگلی پھیرتے ہوئے کہا ’’میرے تین دانت اب بھی ہلتے ہیں‘‘۔
ہبیرہ نے فخریہ انداز میں کہا ’’یہ تم سے کس نے کہا تھا کہ میرا بھتیجا موت سے ڈرتا ہے۔ تم تو بنو خزرج کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ لڑائی کے دن تم نے ہمارے ایک شیر کو باندھ رکھا تھا۔ تمہیں اس بات کا دُکھ ہے کہ اُس نے عمیر بن عدی کو پیٹ ڈالا تھا لیکن تم نے یہ کیوں نہ سوچا کہ آگ اور پانی ایک جگہ نہیں رہ سکتے۔ پھر تمہارے بیٹوں کے دماغ میں یہ خیال کیسے پیدا ہوا کہ وہ میرے بھتیجے سے افضل تھے۔ ہم نے تم سے قرضہ لیا تھا، بھیک نہیں مانگی تھی‘‘۔ شمعون نے کہا ’’جناب! میں نے عاصم کو اپنے بچوں کی طرح گھر میں رکھا تھا۔ لڑائی کے دن میں نے اُسے صرف اس ڈر سے کمرے میں بند کردیا تھا کہ وہ ابھی تلوار اٹھانے کے قابل نہیں ہوا۔ اگر وہ میدان میں چلا جاتا تو اُس کا انجام اپنے بڑے بھائیوں سے مختلف نہ ہوتا۔ لیکن مجھے معلوم نہ تھا کہ اس نیکی کا یہ اجر ملے گا۔ بات دراصل یہ تھی کہ جب عاصم کے دو بھائی جنگ میں مارے گئے تو اس کے باپ نے اُسے اپنے پاس رکھنے کی ضرورت محسوس کی، پہلے اُس نے یہ کہا کہ میں تجارت کے سلسلے میں شام جارہا ہوں اور عاصم کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں۔ اُسے چند مہینے کے لیے آزاد کردو۔ لیکن جب میں ادائے قرض سے پہلے اُسے چھوڑنے پر رضا مند نہ ہوا تو اُس نے عاصم کو میرے خلاف بھڑکا کر ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی کہ میں اُسے واپس کرنے پر مجبور ہوجائوں‘‘۔
ہبیرہ نے اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا ’’تم جھوٹ کہتے ہو۔ اگر ہماری نیت بُری ہوتی تو ہم عاصم کو دوبارہ تمہارے پاس لے کر نہ آتے‘‘۔
شمعون نے کعب سے مخاطب ہو کر کہا ’’جناب! اُسے دوبارہ میرے پاس لانے سے ان کا مقصد صرف میرا مذاق اڑانا تھا۔ ایک طرف یہ مجھ سے مصالحت کی باتیں کررہے تھے اور دوسری طرف وہ لڑکا میرے بیٹے کے کان میں کہہ رہا تھا کہ اگر اب مجھے یہاں رہنا پڑا تو میں سب سے پہلے تمہیں قتل کروں گا اور اس کے بعد تمہارے باپ اور بھائیوں کی باری آئے گی‘‘۔
ہبیرہ نے کعب سے کہا ’’جناب! آپ اسی بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں عاصم کے ساتھ ان لوگوں کا سلوک کیسا تھا۔ ایک کمسن لڑکا بلاوجہ اس قدر مشتعل نہیں ہوسکتا‘‘۔
کعب نے قدرے درشت ہو کر کہا ’’ہبیرہ ہم تمہارے کسی آدمی کو اس کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ ہمارے بچوں کو پیٹے۔ تم بنو خزرج کے مقابلے میں اپنی ناکامیوں کا انتقام یہاں کے یہودیوں سے نہیں لے سکتے، میں تمہیں یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں سمجھتا کہ ہم سے بگاڑ کر تم ایک دن کے لیے بھی یثرب کی وادیوں میں نہیں رہ سکتے۔ میں نے انتہائی ضبط سے کام لے کر تمہاری باتیں سنی ہیں اور مجھے افسوس ہے کہ تمہارا یہ رویہ دانشمندانہ نہیں، تمہیں قدم قدم پر ہماری ضرورت پڑے گی‘‘۔
ہبیرہ کچھ دیر سکتے کے عالم میں کعب کی طرف دیکھتا رہا۔ بالآخر اُس نے کہا ’’آپ شمعون کی غلط بیانی سے متاثر ہوئے ہیں۔ عاصم نے کسی بچے پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا، اس کا چھوٹا لڑکا اس کا ہم عمر ہے اور باقی دونوں اُس سے بڑے ہیں۔ آپ شمعون سے یہ پوچھیے کہ اس کے لڑکوں نے عاصم سے کیا کہا تھا؟‘‘
شمعون بولا ’’تم خود ہی بتادونا؟‘‘
’’انہوں نے کہا تھا کہ آئندہ ہم قرضہ مانگنے والوں سے لڑکوں کی بجائے لڑکیاں رہن رکھنے کا مطالبہ کیا کریں گے۔ عدی کا بیٹا بے غیرت تھا اور وہ یہ برداشت کرگیا، لیکن عاصم اُس سے مختلف تھا‘‘۔
شمعون نے کہا ’’یہ بالکل غلط ہے۔ بات یہ تھی کہ لڑکے عمیر کے ساتھ مذاق کررہے تھے اور عاصم نے پہلے اُسے بے غیرتی کا طعنہ دے کر اکسانے کی کوشش کی تھی لیکن جب وہ اُس کی باتوں میں نہ آیا تو اُس نے بذاتِ خود میرے لڑکوں سے لڑنا شروع کردیا۔ وہ ہمیشہ میرے لڑکوں سے اُلجھنے کے لیے کسی بہانے کی تلاش میں رہتا تھا اور عمیر سے اُس کی عداوت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ میرے بیٹوں کے خلاف اُس کا ساتھ نہیں دیتا تھا‘‘۔
ہبیرہ نے کہا ’’جناب آپ خود ہی انصاف کریں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ شمعون کے بیٹوں نے بنو خزرج کے ایک لڑکے سے مذاق کیا ہو اور عاصم کو طیش آگیا ہو۔ بات دراصل یہ تھی کہ انہوں نے ان دونوں کی عزت پر حملہ کیا تھا۔ عمیر نے اپنے خاندان کی توہین برداشت کرلی لیکن عاصم برداشت نہ کرسکا۔ اُس وقت اُس کی عمر بارہ یا تیرہ سال سے زیادہ نہ تھی لیکن شمعون آج تک ہم سے انتقام لے رہا ہے‘‘۔
شمعون نے برہم ہو کر کہا ’’کیسا انتقام؟‘‘
ہبیرہ نے جواب دیا ’’تم نے پہلے میرے بھائی کا نصف باغ ویران کردیا۔ اس کے بعد ہمارے بجائے ہمارے دشمنوں کے ہاتھ تلواریں فروخت کیں پھر ابھی چار مہینے کی بات ہے کہ ہمارے گھر میں میرے بھائی کی لاش پڑی تھی اور تم رقم ادا کرنے پر اصرار کررہے تھے۔ عاصم کا اولین فرض اپنے باپ کے قتل کا انتقام لینا تھا، لیکن اُس پر تمہاری باتوں کا یہ اثر ہوا کہ وہ اپنے باپ کو دفن کرتے ہی گھوڑے لے کر شام کی طرف روانہ ہوگیا۔ تا کہ کسی تاخیر کے بغیر تمہاری رقم ادا کرنے کا بندوبست کردیا جائے لیکن اب تم کچھ دن بھی صبر نہیں کرسکتے‘‘۔
کعب نے کہا ’’شمعون میں ہبیرہ کو مدت سے جانتا ہوں یہ ایک بااصول آدمی ہے تمہیں اس کے وعدے پر اعتماد کرنا چاہیے‘‘۔
شمعون نے جواب دیا ’’میں اس کے وعدے پر اعتماد کرسکتا ہوں اول تو مجھے اس کے بھتیجے سے یہ توقع نہیں کہ وہ واپس آجائے گا۔ پھر یہ بھی ممکن ہے کہ وہ راستے ہی میں سب کچھ گنوا بیٹھے‘‘۔
ہبیرہ نے کہا ’’میرا بھتیجا اس سے پہلے بھی شام کا سفر کرچکا ہے اور مجھے اُس کی فراست پر اعتماد ہے لیکن اگر اُسے کوئی حادثہ پیش آگیا تو قرضے کی رقم کے عوض میں اپنا آدھا باغ تمہارے پاس رہن رکھ دوں گا‘‘۔
کعب نے کہا ’’شمعون! اب تمہیں مطمئن ہوجانا چاہیے اور ہبیرہ! تم کو بھی یہ محسوس نہیں کرنا چاہیے کہ میں نے تم پر دبائو ڈالنے کے لیے تمہیں یہاں بلایا ہے۔ میں صرف یہ چاہتا تھا کہ ہم سے تمہارے تعلقات خراب نہ ہوں۔ آئندہ اگر تمہیں کوئی دشواری پیش آئے تو میرے پاس آجانا‘‘۔
ہبیرہ نے اُٹھ کر احسان مندانہ لہجے میں کہا ’’میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ موجودہ حالات میں ہمارے لیے آپ سے اعانت طلب کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ اگر آپ لڑائی میں ہمارا ساتھ دینا پسند نہ کریں تو بھی ہمیں اتنا قرضہ ضرور دے دیا کریں کہ ہم بنو خزرج سے برابر کی ٹکر لے سکیں۔ ہمارے قبیلے کے معززین کا ایک وفد آپ کے پاس آنے والا ہے اور مجھے اُمید ہے کہ آپ انہیں مایوس نہیں کریں گے‘‘۔
کعب نے جواب دیا ’’تم اطمینان رکھو۔ ہم نے پہلے بھی تمہیں کبھی مایوس نہیں کیا۔ اور اب بھی اس شکایت کا موقع نہ دیں گے کہ ہم بنو خزرج کو بنو ادس سے افضل سمجھتے ہیں‘‘۔
’’اور ہم بھی کبھی آپ کو یہ کہنے کا موقع نہ دیں گے کہ بنوادس احسان کا بدلہ دینا نہیں جانتے‘‘۔ ہبیرہ یہ کہہ کر وہاں سے چل دیا اور اُس کے ساتھی اُس کے پیچھے پیچھے ہولیے۔ کعب کچھ دیر ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ اُن کی طرف دیکھتا رہا اور جب وہ نخلستان میں غائب ہوگئے تو شمعون سے مخاطب ہو کر پوچھا ’’شمعون اب تم سچ بتائو کیا یہ درست ہے کہ تمہارے بیٹوں نے صرف عمیر بن عدی سے مذاق کیا تھا اور عاصم کو اس پر بلاوجہ غصہ آگیا تھا؟ (جاری ہے)
’’ہاں میں اپنے بیٹوں کے علاوہ عمیر سے بھی تصدیق کی تھی‘‘۔
’’اور عمیر نے تمہیں یہ بھی بتایا تھا کہ عاصم نے اُسے تمہارے بیٹوں کے خلاف لڑائی پر اُکسایا تھا‘‘؟
’’ہاں!‘‘
’’تو اس کا مطلب یہ ہے کہ عاصم ادس اور خزرج کے عام لڑکوں سے مختلف ہے‘‘۔
’’جی ہاں! وہ جس قدر ذہین ہے اُسی قدر خطرناک بھی ہے، ایک دن اُس نے میرے منہ پر کہا تھا کہ وہ وقت دور نہیں جب ادس و خزرج ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے بجائے متحد ہو کر یہودیوں کے خلاف لڑیں گے‘‘۔
’’پھر تم نے ایسے خطرناک لڑکے کو تعلیم کیوں دلوائی؟‘‘
شمعون نے جواب دیا ’’جناب جب وہ میرے پاس آیا تھا تو اُس کی عمر زیادہ نہ تھی۔ وہ باتوں سے بیحد ذہین معلوم ہوتا تھا، میرا خیال تھا کہ وہ بڑا ہو کر میرے کاروبار میں ایک اچھا معاون ثابت ہوگا اور شاید واپس جانا نہ پسند کرے۔ پھر مجھے یہ بھی اُمید تھی کہ اُس کا باپ میرا قرضہ نہیں اُتار سکے گا، اور اُسے مجبوراً میرے پاس رہنا پڑے گا‘‘۔
کعب نے کہا ’’تمہاری پہلی غلطی یہ تھی کہ تم نے ایسے ہوشیار لڑکے کو اپنے گھر میں رکھا۔ دوسری یہ کہ تم نے اُسے تعلیم دلوائی اور تیسری یہ کہ جب وہ بڑا ہو کر لڑائی میں حصہ لینا چاہتا تھا تو تم نے اُسے کوٹھڑی میں بند کردیا‘‘۔
ایک یہودی نے کہا ’’جناب! ادس کے ایک معمولی خاندان کا لڑکا ہمارے لیے کسی پریشانی کا باعث نہیں ہوسکتا اوّل تو وہ خزرج کے کسی نوجوان کے ہاتھوں قتل ہوجائے گا ورنہ ہم اُس سے نبٹ لیں گے‘‘۔
کعب نے جواب دیا ’’میں اُس کے متعلق پریشان ہوں۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر ادس کے ایک نو عمر لڑکے کے دماغ میں ایسے خیالات پرورش پاسکتے ہیں تو ممکن ہے کہ کچھ دن میں اور بھی کئی لوگ ہمارے متعلق اسی طرح سوچنے لگیں۔ یثرب کے یہودیوں کی نجات اِسی میں ہے کہ ادس و خزرج ایک دوسرے سے ٹکرا کر فنا ہوجائیں۔ عربوں میں صلح کی نوبت اُس وقت آتی ہے جب ایک شکست خوردہ فریق ہر طرف سے مایوس ہو کر اپنے نقصانات کے متعلق سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ گزشتہ لڑائیوں میں ادس کی حالت کمزور ہوچکی ہے اور خزرج کی اکثریت بھی لڑائی جاری رکھنا نہیں چاہتی۔ اب ہمارا کام یہ ہونا چاہیے کہ بنوادس کے حوصلے قائم رکھیں اور درپردہ اُن کی اتنی مدد ضرور کرتے رہیں کہ وہ اپنی رگوں سے خون کا آخری قطرہ بہہ جانے تک لڑتے رہیں۔ ہمیں خزرج کو بھی یہی احساس دلانا چاہیے کہ ہم اُن کے دوست ہیں۔ ادس اور خزرج کی صلاح یا اتحاد ہمارے لیے بہت خطرناک ہوگا کیوں کہ اس صورت میں اُن کی توجہ ہماری طرف مبذول ہوجائے گی۔ اگر ہم خود لڑنے کے بجائے صرف پیسہ دے کر ادس کے ہاتھوں خزرج اور خزرج کے ہاتھوں ادس کے آدمیوں کو قتل کراسکتے ہیں تو ہمیں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے۔ پھر ہمارا پیسہ بھی رائیگاں نہیں جائے گا۔ اگر ہم انہیں چند سال ایک دوسرے سے لڑاتے رہیں تو ان کے باغات اور مال مویشی ہمارے قبضے میں آجائیں گے۔ شمعون! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی قوم کے مفاد کے لیے تم ذرا حوصلے سے کام لینے کی کوشش کرو‘‘۔
شمعون نے جواب دیا ’’جناب! آپ کا مشورہ ہمارے لیے حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ اگر آپ فرمائیں تو میں اُسے مزید قرض دینے کو بھی تیار ہوں۔ لیکن آپ کو اس بات پر پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ ادس اور خزرج کے درمیان صلح ہوسکتی ہے۔ جب تک اُن کی صفوں میں ہبیرہ جیسے لوگ موجود ہیں وہ ایک دوسرے کا گلا کاٹتے رہیں گے۔ اہل عرب جس مٹی پر ایک مرتبہ خون گراتے ہیں اُس کی پیاس برسوں نہیں بجھتی۔ آپ بسوس اور فجار کی لڑائیوں کے حالات جانتے ہیں اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ ان لڑائیوں میں حصہ لینے والے قبائل یہودیوں کے اثر و رسوخ سے بہت دور تھے‘‘۔
کعب نے اُٹھتے ہوئے کہا ’’یہ صحیح ہے کہ اُن قبائل کو ایک دوسرے کے خلاف اکسانے میں یہودیوں کا کوئی ہاتھ نہ تھا لیکن اگر اُن کے درمیان یہودی موجود ہوتے تو ان جنگوں کی شدت اور طوالت میں مزید اضافہ کیا جاسکتا تھا۔ میں تمہیں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ ادس اور خزرج کی لڑائیوں سے براہ راست ہمیں فائدہ پہنچتا ہے اس لیے ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کوئی ایسی صورت پیدا نہ ہو جس سے وہ اپنی تلواریں نیام میں کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ ہمارا کام ہبیرہ جیسے تند مزاج لوگوں کو مایوس کرنا نہیں بلکہ ان کی پیٹھ ٹھونکنا اور اُن کے حوصلے قائم رکھنا ہے‘‘۔
ایک یہودی نے کہا ’’جناب! آپ مطمئن رہیں ہم ادس اور خزرج میں سے کسی کا جوش ٹھنڈا نہیں ہونے دیں گے۔ یہ درست ہے کہ اُن کے بیشتر خاندان لڑائی سے تنگ آچکے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ عاصم کے واپس آنے پر جو تلواریں اُس کے رشتہ داروں میں تقسیم ہوں گی وہ زیادہ عرصہ نیام میں نہیں رہ سکیں گی‘‘۔
کعب نے کہا ’’شمعون! تم ایک ہوشیار تاجر ہو لیکن تمہیں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ تمہارا مستقبل یثرب کے باقی یہودیوں سے جدا نہیں ہوسکتا۔ اور یہودیوں کو مستقبل کے خطرات سے بچانے کی واحد صورت یہی ہے کہ ادس اور خزرج کے درمیان مصالحت کے امکانات پیدا نہ ہونے پائیں۔ اگر ہبیرہ جیسے لوگ بجھتی ہوئی آگ کے لیے نیا ایندھن مہیا کرسکتے ہیں تو ہمیں دل شکنی کے بجائے اُن کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اس مقصد کے لیے اگر ہمیں انہیں مفت بھی تلواریں دینی پڑیں تو یہ سودا مہنگا نہیں ہوگا؟‘‘
شمعون نے جواب دیا ’’جناب! آپ اطمینان رکھیے! میں اس بات کا ذمہ لیتا ہوں کہ ادس اور خزرج زیادہ عرصہ امن سے نہیں رہ سکیں گے‘‘۔
باب ۴
یروشلم سے آگے، بنو کلب اور بنو غطفان کے تاجروں کے ہمراہ ایک طویل سفر کے بعد عاصم کا راستہ جدا ہوگیا اور پھر ایک روز غروب آفتاب کے وقت وہ سنگلاخ چٹانوں اور ریت کے ٹیلوں کے درمیان ایک تنگ وادی سے گزر رہا تھا۔ صحرا کی ہوا بتدریج خنک ہورہی تھی۔
عاصم نے اچانک اپنا گھوڑا روکا اور مڑ کر عباد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’اب ہم آگے نہیں جاسکتے، میرا گھوڑا بہت تھک گیا ہے۔ ہمارے لیے راستے سے ہٹ کر اس وادی کے دوسری طرف قیام کرنا بہتر ہوگا۔ تم یہیں ٹھہرو، میں کوئی موزوں جگہ دیکھ کر ابھی آتا ہوں‘‘۔
عباد نے کہا ’’میں خود آپ سے یہی کہنے والا تھا کہ ہمیں ٹھہرنا چاہیے۔ آج سے کوئی بیس سال پہلے جب میں پہلی مرتبہ آپ کے والد کے ساتھ شام کے سفر پر گیا تھا تو واپسی پر ایک رات یہیں قیام کیا تھا۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ اُس وقت بھی ہم شام میں گھوڑے بیچ کر آئے تھے۔ لیکن اُس وقت ہم تنہا نہ تھے، ہمارے ساتھ یمن کے تاجروں کا ایک قافلہ تھا۔ وہ دن بہت اچھے تھے۔ ہمارے ساتھ قبیلے خزرج کے چند آدمی بھی سفر کررہے تھے اور ہمیں ایک دوسرے سے کوئی خطرہ نہ تھا۔ جب ہم دمشق سے واپس روانہ ہوئے تھے تو…‘‘
عباد کے ذہن میں ایک پوری داستان کا مواد آچکا تھا۔ لیکن عاصم نے اچانک باگ موڑ کر گھوڑے کو ایڑ لگا دی اور آن کی آن میں، بائیں ہاتھ، ریت کے ایک ٹیلے پر جا پہنچا۔ وہاں سے دوسری طرف ایک اور تنگ وادی کا جائزہ لینے کے بعد اُس نے ہاتھ اونچا کرکے اپنے ساتھی کو اشارہ کیا اور وہ اُس طرف چل پڑا۔ عاصم گھوڑے سے کود پڑا اور اس کی باگ پکڑ کر ٹیلے سے نیچے اترنے لگا۔ نشیب میں ایک جگہ ببول کی چند جھاڑیاں تھیں۔ عاصم نے ان کے قریب پہنچ کر گھوڑے کا ساز اتارا اور اس کے گلے کا رسّا کھول کر ایک جھاڑی سے باندھ دیا۔ خرجی سے کچھ جونکال کر چمڑے کے توبڑے میں ڈالے اور انہیں چھا گل کے پانی سے تر کرنے کے بعد توبڑے کو ایک طرف رکھ دیا۔ گھوڑے نے توبڑا دیکھتے ہی ہنہنانا اور اچھلنا شروع کردیا۔ عاصم نے آگے بڑھ کر گھوڑے کو تھپکیاں دیتے ہوئے کہا ’’دوست مجھے معلوم ہے تم بہت بھوکے ہو لیکن ابھی تھوڑی دیر انتظار کرو‘‘ پھر وہ جھاڑیوں کی طرف بڑھا اور ان کی سوکھی ٹہنیاں توڑ کر ایک جگہ جمع کرنے لگا۔ اتنی دیر میں عباد بھی پہنچ گیا اور اُس نے اپنے اونٹ کو بٹھا کر اُترتے ہوئے کہا ’’میرے خیال میں یہاں سردی اتنی نہیں ہوگی کہ ہمیں رات کے وقت آگ جلانے کی ضرورت پیش آئے‘‘۔ عاصم نے جواب دیا ’’خیال تو میرا بھی یہی ہے تاہم احتیاطاً یہ ایندھن جمع کرلیا ہے۔ اگر سردی زیادہ ہوگئی تو آگ جلالیں گے۔ تم پانی کا مشکیزہ اور کھانے کا سامان اتار لو اور اونٹوں کو ان جھاڑیوں سے باندھ دو۔ باقی سامان اتارنے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں پچھلے پہر یہاں سے روانہ ہوجانا چاہیے۔ میں چاہتا ہوں کہ چاند ہم گھر پہنچ کر دیکھیں۔ مشکیزے میں پانی کافی ہے تم کچھ گھوڑے کو پلادو۔ میں نے توبڑے میں جو بھودیے ہیں‘‘۔
تھوڑی دیر بعد رات ہوچکی تھی۔ اونٹ ببول کی ٹہنیاں نوچ رہے تھے اور گھوڑا تو بڑے میں منہ ڈالے، جو چبا رہا تھا۔ عاصم نے عباد کے ساتھ بیٹھ کر پنیر سے جَو کی روٹی کے چند نوالے کھائے اس کے بعد پانی پیا اور ٹھنڈی ریت پر ٹانگیں پھیلاتے ہوئے کہنے لگے ’’ہمیں آگ کی ضرورت نہیں۔ تم اطمینان سے سو جائو میں آدھی رات تک پہرا دوں گا‘‘۔
عباد کی آنکھیں پہلے ہی نیند سے بوجھل تھیں وہ فوراً لیٹے ہوئے بولا ’’دیکھیے، جب آپ کو نیند آنے لگے تو مجھے ضرور جگادیں۔ رات کے وقت ہم میں سے ایک کو پہرا ضرور دینا چاہیے‘‘۔
’’تم میری فکر نہ کرو، میں نے کل رات خاصا سولیا تھا۔ اب اگر مجھ پر نیند کا غلبہ ہوا تو بھی اُٹھ کر ٹہلنا شروع کردوں گا۔
تھوڑی دیر بعد عباد خراٹے لے رہا تھا اور عاصم چت لیٹا ستاروں کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے خیالات مختلف سمتوں میں پرواز کررہے تھے۔ کبھی وہ شام کے شہروں کی پُررونق گلیوں اور بازاروں کا طواف کررہا تھا اور کبھی یثرب کے نخلستانوں کی سیر کررہا تھا۔ وہ تقریباً چار مہینے کے طویل سفر کے بعد اپنے گھر جارہا تھا اور راستے کی تمام دشواریوں کے باوجود اُس کا یہ سفر اس کی توقع سے زیادہ کامیاب رہا تھا۔

امن کے دنوں میں، عرب کی حدود کے اندر، عاصم اپنے آپ کو نسبتاً محفوظ سمجھتا تھا۔ تاہم قافلے سے جدا ہونے کے بعد اُس نے احتیاطاً راستے کی صرف ان بستیوں سے گزرنا مناسب سمجھا جن میں رہنے والے قبائل اہل یثرب سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے۔ اسے اس بات کا شدید احساس تھا کہ اس کا بخیر و عافیت گھر پہنچنا، اس کے خاندان کی عزت کا مسئلہ ہے۔
اور اب وہ کسی ناخوش گوار حادثے سے دوچار ہوئے بغیر اپنی منزل مقصود کے قریب پہنچ چکا تھا۔ جب وہ سوچتا کہ میں صرف کپڑا فروخت کرکے اپنے چچا کا تمام قرضہ چکا سکوں گا، اور دمشق کی خوبصورت تلواریں دکھا کر قبیلہ ادس کے ہر نوجوان سے داد و تحسین حاصل کرسکوں گا تو اُس کے دل میں خوشی کی ایک لہر دوڑ جاتی لیکن جب اُسے اپنے گھر کا خیال آتا تو وہاں کے مناظر اس دشت کی تنہائی سے زیادہ وحشت ناک محسوس ہوتے۔ اُس کی ماں اسے بچپن ہی میں داغِ مفارقت دے گئی تھی۔ اس کے دو بھائی جن کی شجاعت و جواں مردی پر سارے قبیلے کو فخر تھا وہ لڑائی میں کام آچکے تھے، اس کا باپ اپنے کسی عزیز کی ایک مدت تیمارداری کرنے کے بعد گھر واپس آرہا تھا کہ کسی نے بے خبری کی حالت میں پیچھے سے حملہ کرکے اسے قتل کردیا۔ اب عاصم کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ اپنے عزیزوں کے خون کا انتقام لینا تھا۔ اس کے بھائیوں، اس کے باپ اور اس کے ابن عم کی روحین پیاسی تھیں اور یہ پیاس صرف بنو خزرج کے خون سے بجھائی جاسکتی تھی۔ ہبیرہ اُس کا چچا اپنے دائیں ہاتھ سے محروم ہونے کے باعث تلوار اٹھانے کے قابل نہ تھا۔ ہبیرہ کے چھوٹے بیٹے سالم کی عمر ابھی چودہ سال سے بھی کم تھی اور اس کی بہن سعاد اس سے کوئی دو سال چھوٹی تھی۔ ان حالات میں اپنے گھرانے کے زندہ افراد کے حوصلے قائم رکھنے اور مرنے والوں کی روحوں کو آسودہ کرنے کی ساری ذمہ داری عاصم پر عائد ہوتی تھی۔

حصہ