ٹک ٹاک کا جنون

156

آج سوشل میڈیا کا دور ہے، جس میں بہت ساری ایپس کا استعمال کیا جارہا ہے۔ ہم ان کا مثبت استعمال بھی کرسکتے ہیں اور منفی بھی، مگر زیادہ تر لوگ اس پر اپنا وقت ہی برباد کررہے ہیں۔ ایسی کم ہی چیزیں شیئر کرتے ہیں جن سے ہمیں کوئی دینی یا دنیاوی معلومات مل سکیں۔
یوں تو بہت ساری ایپس استعمال کی جارہی ہیں، لیکن انتہائی کم عرصے میں جو ایپ سب سے مقبول ہوئی وہ ’’ٹک ٹاک‘‘ ہے۔ ویسے تو میں ٹک ٹاک کے خلاف نہیں ہوں، مگر جس طرح سے اس کا استعمال کیا جارہا ہے وہ نہایت غلط ہے۔ کچھ لوگ لائیکس اور فالوورز بڑھانے کے چکر میں حد سے گزر جاتے ہیں اور ایسی نازیبا وڈیوز بناتے ہیں جن کو دیکھ کر بحیثیت مسلمان شرم محسوس ہوتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس بیس سیکنڈ کی وڈیو میں کوئی معلوماتی بات ہوتی، مگر اس کے برعکس جھوٹ اور بے حیائی کو ہی فروغ دیا جارہا ہے۔
کچھ لوگ منفرد وڈیوز بنانے کے چکر میں اپنی جان تک گنوا بیٹھتے ہیں۔ ناچ گانا اور بے شرمی کا ایک طوفان ہے جو ہمیں ٹک ٹاک پر نظر آتا ہے۔ لوگ بھی ان بے ہودہ وڈیوز کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اور ان کے فالوورز کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی اچھی پوسٹ کرے تو اس کے لائیکس اور فالوورز گنتی کے ہی ہوتے ہیں۔
ٹک ٹاک پر ہمیں کم ہی کوئی مثبت بات سننے یا دیکھنے کو ملتی ہے، جب کہ بڑی بڑی آنٹیاں بے سروپا باتیں کرتی ضرور نظر آتی ہیں، جن کی باتیں شاید گھر والے بھی سننا پسند نہ کرتے ہوں۔ ہماری خواتین جن کو اسلام نے پردے میں رہنے کا حکم دیا ہے، آج بن سنور کر اور تنگ لباس پہن کر فحاشی اور بے حیائی کا سامان بنی ہوئی ہیں۔ اس ضمن میں ماں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد پر نظر رکھیں کہ وہ کیا کررہی ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے، ورنہ ہماری آنے والی نسلیں اس کو نسل در نسل بھگتیں گی۔

حصہ