راحت جاں

157

’’بیگم بیگم…!‘‘خورشید صاحب ہاتھ میں اخبار پکڑے آوازیں دیتے لائونج میں داخل ہوئے۔
آمنہ بیگم تخت پر بیٹھی سبزی کاٹ رہی تھیں،گھبرا کر بولیں ’’کیا ہوگیا خورشید صاحب! آج کئی دن کے بعد آپ کی چہکتی آواز سن رہی ہوں۔‘‘
’’ہاں ہاں خیر ہی ہے، بس تم یہ خبر پڑھو۔‘‘خورشید صاحب نے اخبار آمنہ بیگم کے سامنے کیا۔
’’حکومت نے کورونا کے تیزی سے پھیلاؤ کے سبب شادی ہالز اور تقریبات پر پابندی عائد کردی۔‘‘
’’ہوش کے ناخن لیں خورشید صاحب! آپ کورونا کے پھیلاؤ پر خوش ہورہے ہیں!‘‘ آمنہ بیگم نے انھیں سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’بس رہیں نا تم کم عقل کی کم عقل… ارے بیگم! میں کورونا کے پھیلائو پر نہیں، سدرہ کی شادی کے کھانے اور ہال پر جو خرچا ہونے والا تھا اس کی بچت پر خوش ہورہا ہوں۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ آمنہ بیگم نے حیرانی سے پوچھا۔
’’ارے نیک بخت! ہال اور کھانے پر تقریباً تین لاکھ خرچ آرہا تھا، اب اس اعلان کے بعد کم افراد کو بلانے پر خاندان میں کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ بس پچیس افراد ہمارے اور پچیس افراد لڑکے والوں کی طرف سے، کُل پچاس افراد کے کھانے کے انتظام پر پچیس ہزار خرچا آئے گا۔ تم جانتی ہو کہ ذیشان ماسٹرز کے بعد بے روزگار ہے، وہ بہت عرصے سے بزنس کے لیے پیسے مانگ رہا ہے، میں سدرہ کی شادی کے اخراجات کی وجہ سے اُسے یہ پیسے دے نہیں پا رہا تھا، مگر اب یہ مسئلہ حل ہوتا نظر آرہا ہے۔‘‘
خورشید صاحب بہت مطمئن اور خوش نظر آرہے تھے۔ وہ حال ہی میں ریٹائر ہوئے تھے اور جو پیسہ ریٹائرمنٹ پر ملا، اُس سے سر چھپانے کی جگہ خریدی اور باقی سدرہ کی شادی کے لیے بچا رکھے تھے۔
’’بس آمنہ بیگم! آپ آج ہی سدرہ کے سسرال والوں سے بات کریں اور انہیں مہمانوں کی تعداد بتادیں۔ وہ بھلے لوگ ہیں، اعتراض نہیں کریں گے۔‘‘ آمنہ بیگم کو بھی یہ بات مناسب معلوم ہوئی، اور وہ شوہر کی بات سن کر مطمئن ہوگئیں۔
دن تیزی سے پَر لگا کر اُڑے اور وہ دن آگیا جب وہ بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہوگئے۔ مہمانوں کے جانے کے بعد آمنہ بیگم شوہر کے لیے چائے بنا لائیں۔ مسرت و سکون ان دونوں کے چہروں سے جھلک رہا تھا۔
’’الحمدللہ سارے کام خیریت کے ساتھ نمٹ گئے۔ اللہ تعالیٰ آگے بھی میری بچی کے نصیب اچھے کرے۔‘‘ آمنہ بیگم کی آنکھوں میں شکر گزاری کے آ نسو چمکنے لگے۔
’’ہاں بیگم! یہ سب اللہ کی رحمت اور اس کی مدد سے ہی ممکن ہوا، ورنہ ہماری کیا بساط تھی۔ بس ایک احساس بار بار ہوا کہ سادگی میں کتنا سکون ہے۔ اللہ کا حکم بھی یہی ہے کہ فضول خرچی، تصنع، بناوٹ اور دکھاوے سے بچا جائے۔ اللہ تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ اس کا بندہ بے جا مشقت میں نہ پڑے، مگر بندے اللہ کی پکار پر کان نہیں دھرتے۔ کورونا سے جہاں بہت سے لوگ پریشان ہوئے، وہیں بہت سی مثبت چیزیں بھی لوگوں نے اختیار کیں۔ پہلے رات کے دو، تین بجے شادیاں نمٹتی تھیں، اب دیکھو ہم دس بجے ہی فارغ ہوگئے اور بہت سی پریشانیوں اور فضولیات سے بھی بچ گئے۔‘‘
آمنہ بیگم اثبات میں سر ہلانے لگیں۔
’’چلو بیگم اللہ کے حضور شکرانے کے نفل ادا کرلیتے ہیں۔‘‘ چائے کا آخری گھونٹ بھرتے وہ وضو کرنے چل دیے اور آمنہ بیگم نے بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھادیے۔

حصہ