مرہم

213

پُر پیچ کہساری راستوں سے گزرتی ہوئی گاڑی وادیِ سوات کی طرف رواں دواں تھی۔ ہم میدانی علاقوں کے لوگ کہساری جادو کے اسیر تو ہوتے ہیں مگر ان راستوں کے عادی نہیں ہوتے۔ میں عموماً ایسے راستوں پر آنکھیں موند کر سیٹ کی پشت سے سر ٹکا کر ذہن کو آزاد پنچھی کی طرح چھوڑ دیتا ہوں۔
گاڑی کا اے سی بند کرواکر اور پورے شیشے کھول کر میں صبح کی ہوا کو اپنے اندر اتارتے ہوئے لطف محسوس کررہا تھا۔ پہاڑوں کے درمیان ہوا کی رفتار کچھ محدود سی لگتی ہے، کچھ گاڑی کی رفتار بھی تیز نہ تھی کہ ہوا کی تیزی محسوس کرواتی۔
پر یہ کہساری پُروا تھی، تازہ مہک کے ساتھ اپنا سحر طاری کررہی تھی۔ سوچ کا پنچھی اپنے پسندیدہ مستقر پر جا ٹھیرا۔
یونی ورسٹی کا ابتدائی سال… کچھ ہی مہینے توگزرے تھے کہ ہم لڑکوں کا گروپ سوات کی سیر کو آیا تھا۔ یہ میرا پہلا پہاڑی سفر تھا۔ موج، مستی، بات بات پر قہقہے۔ ہمارے مزاج کو بھانپتے ہوئے ڈرائیور گل شیر نے عالمگیر کے گیت لگا دیے اور ہم سب اپنی اپنی لَے وآہنگ کے ساتھ گیت کو سنگت دے رہے تھے۔ اس دوران شجاع نے ایک دوبار ٹوکا بھی کہ ’’یار یہ گانے بند کردو، کیا خبر یہ ہمارا آخری سفر ہی ہو۔‘‘
’’اوہ یارا! تُو بخشا ہوا ہے، اپنی نیکیاں نہیں دیکھتا…! سفرکی دعا پڑھی تھی نا، تو اب فکر نشتا۔‘‘
’’ہاں ناشتے کی فکر کرلو۔ ڈریور صیب! یہاں اسپیشل چھولے بٹورے کہاں ملیں گے؟‘‘ ماجد نے لہجہ بگڑی اردو میں گل شیر کو بات سمجھانی چاہی۔
’’صاحب آپ لوگ یہاں ناشتے میں کچھ اسپیشل لینا چاہتے ہیں تو تندوری پراٹھے اور مٹن کڑھائی لیجیے۔‘‘ کہساری باسی نے شستہ اور صاف اردو میں ہماری رہنمائی کی۔
’’نہیں بھئی، صبح صبح اتنا بھاری ناشتہ مناسب نہیں۔‘‘ سبطین نے گھبرا کر کہا۔
’’سر! یہاں آپ کو بریڈ بھی ملے گی۔‘‘ شیر علی نے فوراً متبادل پیش کیا۔
’’گل شیر! آپ لوگ بہت مہمان نواز ہو، یعنی کہ گانا اور کھانا سب میں ہماری پسند کا خیال رکھا جا رہا ہے، بہت خوب۔‘‘ سبطین نے خوش ہوکر کہا۔
’’بالکل جناب! آپ جب ہمارے پاس آتے ہو، خوش ہوتے ہو تو ہمیں اچھا لگتا ہے۔‘‘ گل شیر کی شفقت ومحبت اس کی آنکھوں اور لہجے سے ٹپک رہی تھی۔
’’ہاں شاید اسی لیے اپنے گھروں سے اتنی دور آکر ایک اجنبی ماحول کو اپنانے میں ہمیں دیر نہیں لگ رہی۔‘‘ میں نے بھی مسکراہٹ کا جواب مسکراہٹ سے دیتے ہوئے کہا۔
’’آئندہ بھی آپ کا دل ہمارے پاس آنے کا کرے گا صاحب جی۔‘‘ اس بار گل شیر نے خالصتاً کاروباری گُر شرارتی مسکراہٹ میں سمو کر ہمیں دیا، اور ہم سب نے ایک بلند قہقہے کی صورت میں اس کی تائید کی۔
گل شیر نے کچھ غلط بھی نہیں کہا تھا، آج کتنے برسوں بعد میرے قدم پھر اسی کوچہ نوردی کو بے چین تھے۔ ماہ و سال نے کتنا کچھ بدل دیا میں یہ سوچنا ہی نہیں چاہتا تھا، میں تو بس یہ جانتا تھا کہ بھاگتی دوڑتی زندگی کو یہاں سکون مل جائے گا۔ ہوا میں اب تپش محسوس ہورہی تھی، چنانچہ شیشے بند کرکے اے سی کی مدد لی گئی۔ اپنی سوچوں سے باہر آتے ہوئے میں نے گاڑی میں چھائی گمبھیر خاموشی کو شدت سے محسوس کیا۔ ’’بھائی تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ میں نے ڈرائیور سے باتیں کرنے کا ارادہ کیا۔
’’گل بخت‘‘۔ ڈرائیور نے اتنی آہستگی سے جواب دیا گویا وہ اس خاموشی میں اپنی آواز سے مخل ہونا نہ چاہتا ہو۔ میں یہ سوچ کر دھیرے سے مسکرادیا۔
’’اچھا ایسا کرو عالمگیر کا کوئی گیت لگادو۔ ہوگا نا تمہارے پاس؟‘‘ میں نے نئی امید سے اس عجیب سی خاموشی کو توڑنا چاہا۔ اِس بار گل بخت نے کوئی جواب نہ دیا۔ سکوت ہنوز طاری تھا، وہ سامنے راستے پر نظر جمائے گاڑی یکساں رفتار سے چلا رہا تھا۔ اُس کے رویّے میں کچھ سردمہری سی لگی۔ مجھے مزید کچھ کہنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ یکایک گاڑی میں ایک پہاڑی لوک گیت دھیمے سُروں کے ساتھ بج اٹھا۔ اجنبی سے لفظ، مگر دل کو چھونے والا غم زدہ آشنا لہجہ۔ گیت کا اثر ماحول و دل کو مزید افسردہ کرگیا۔ اب مجھے اندازہ ہورہا تھا کہ گل بخت بھی اسی اداس کیفیت میں جکڑا ہوا ہے۔ میں اسے گیت بدلنے کو نہ کہہ سکا۔
’’سر آپ کراچی سے ہو؟‘‘ گل بخت نے بے تاثر سے لہجے میں پوچھا۔
’’ہاں‘‘۔ میں بے ساختہ ہنس دیا کہ ’’ہم کرانچوی اپنی پہچان آپ ہیں۔‘‘
’’گل بخت! آپ آئے ہو کبھی کراچی؟‘‘ ماحول کو اپنے رنگ میں کرنے کے لیے میں ڈرائیور سے پوچھ بیٹھا۔
گل بخت نے میرا سوال اَن سنی کیا اور خاموش رہا۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اُس کے چہرے کو دیکھا، مگر وہاں پہاڑوں جیسا پراسرار سکوت طاری تھا۔
’’آپ کے شہر میں دل کیوں نہیں؟‘‘
’’مطلب؟‘‘غیر متوقع سوال تھا۔
یہ شہر رشتے کیوں چھین لیتا ہے؟‘‘کہسار کی خاموشی کو ان الفاظ نے لاوے کی مانند توڑدیا۔
’’میرا بھائی مجھ سے لے لیا۔‘‘ایک لاوے نے جیسے بھنور سا بنالیا۔
’’اب سب ٹھیک ہوگیا ہے گل بخت۔‘‘ نہ جانے میں کیا سمجھانا چاہ رہا تھا۔
’’وہ بیس سال کا تھا، ماں کے علاج کے لیے لیا گیا قرض اتارنے میں اپنا حصہ ادا کرنا چاہتا تھا۔ ہمارے قریبی علاقوں کے حالات خراب ہوئے تو یہاں بھی روزگار کم ہوگئے ۔ ایسے میں وہ کچھ دوستوں کے ساتھ آپ کے شہر چلا گیا، مگر آپ کیسے لوگ ہو، اسے ماردیا!‘‘ یک لخت گہری خاموشی چھا گئی۔
’’ایک شام مزدوری سے واپسی پر اسے گولی کا نشانہ بنادیا گیا…تم کو پتا ہے وہ اکیلا نہیں مرا۔‘‘ زوردارجھٹکے نے لمحہ بھر کو توقف دیا۔
’’اس کے ساتھ اس کی ماں، نو عمر بیوی، معصوم بچہ بھی جیتے جی مرگئے۔ ’’آپ مجھے میرے بھائی کا قصور بتاؤ۔‘‘
’’ہم سب بھول گئے، بھولنا چاہیے۔‘‘ میں کھوکھلے لہجے میں معلوم نہیں کیا کہنا چاہتا تھا۔ میں گل بخت کے ساتھ دکھ کی وادی میں جا اترا۔
’’میرے بھائی! تمہارے ساتھ ہم بھی اس کی لپیٹ میں تھے۔‘‘
میں یہ سب گل بخت سے نہ کہہ سکا۔ شاید میرے اندر اعترافِ ندامت کی ہمت نہ تھی۔ خاموشی نے اب میرے اندر ڈیرے ڈال لیے تھے اور پھر وہ سکوت… لمحے بیتے- اسی خاموشی میں کہیں سے بازگشت در آئی:
ہم کہ ٹھہرے اجنبی کتنی مدارتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
’’اب مداراتوں کا فرض مجھے ادا کرنا ہوگا، محبت کا مرہم اپنے بھائی کے زخموں پہ رکھنا ہوگا۔‘‘ اسی ارادے کے ساتھ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ دن سفر میں نہ جانے کب ڈھل گیا تھا، شام کی پُرسکون ساعتوں میں حسین سوات کے بلند پہاڑ اپنے بازو وا کیے اپنی وادی میں مجھے خوش آمدید کہہ رہے تھے۔‘‘

حصہ