جاذب قریشی قادر الکلام شاعر تھے،سعید الظفر صدیقی

349

پروفیسر جاذب قریشی اردو زبان و ادب کے صاحبِ اسلوب شاعر‘ نقاد‘ محقق‘ صحافی اور ماہر تعلیم تھے۔ وہ 3 اگست 1940ء کو بھارت کے شہر کلکتہ میں پیدا ہوئے اور 22 جون 2021ء کو کراچی میں انتقال کیا۔ ان کی نماز جنازہ عائشہ مسجد‘ کنیز فاطمہ سوسائٹی کراچی میں ادا کی گئی جس میں رفیع الدین راز‘ رونق حیات‘ اکرم کنجاہی‘ مظہر ہانی‘ سلمان صدیقی‘ راشد نور‘ قادر بخش سومرو‘ سخاوت علی نادر‘ احمد سعید خان‘ پروفیسر سعید قادری‘ جاوید صبا‘ راقم الحروف نثار احمد‘ اویس ادیب انصافی‘ فہیم برنی‘ رانا خالد محمود‘ یاسر سعید صدیقی‘ احمد سعید خان‘ محمد علی اشرف‘ الطاف احمد‘ علی کوثر‘ تنویر سخن‘ رفیق مغل‘ فاروق عرشی اور ڈاکٹر احسان کے علاوہ دیگر لوگوں نے شرکت کی۔
یارانِ سخن کراچی نے جاذب قریشی کے لیے آن لائن تعزیتی اجلاس کا اہتمام کیا جس میں سعیدالظفر صدیقی نے کہا کہ جاذب قریشی گزشتہ ایک سال سے بے حد بیمار تھے‘ ان کے کئی آپریشن ہوئے جن سے ان کی صحت خطرناک حد تک گر گئی اس دوران ان کی دوسری اہلیہ کا بھی انتقال ہو گیا اس صدمے نے بھی ان کی کمر توڑ دی۔
جاذب قریشی ہمہ جہت شخصیت تھے‘ ان کا بنیادی حوالہ شاعری ہے لیکن وہ ایک معتبر نقاد اور ماہر تعلیم بھی تھے۔ رفیع الدین راز نے کہا کہ جاذب قریشی جیسا بڑا انسان صدیوں میں پیدا ہوتا ہے انہوں نے کئی شعبوں میں نام کمایا‘ وہ 8 مئی 1950 کو بھارت سے ہجرت کرکے لاہور آئے‘ 1953ء سے انہوں نے شاعری شروع کی وہ شاکر دہلوی کے شاگرد تھے۔ 1954 سے 1957 تک انہوں نے افسانے بھی لکھے۔ ان کا انتقال ایک عظیم سانحہ ہے۔
رونق حیات نے کہا کہ جاذب قریشی نے زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کیا انہوںنے 1964ء میں دہلی مرکنٹائل پرائمری اسکول میں 135 روپے کی ملازمت کی اور وہ جناح کالج میں لیکچرر بھی رہے۔جاذب قریشی لاہور سے کراچی آئے اور روزنامہ جنگ کراچی کی ادبی صفحہ کے انچارج رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ اکرم کنجاہی نے کہا کہ جاذب قریشی جب بیمار تھے تو وہ ان سے ملاقات کے لیے گئے تھے اور ان کی خواہش کے احترام میں کے ایم سی سی اسپورٹس کلب میں ایک مشاعرہ رکھا تھا لیکن وہ اپنی بیماری کے سبب وہاں نہ آسکے۔ ان کے بیٹے جنید نے جاذب قریشی کی بہت خدمت کی۔ پاکستان میں جن لوگوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے اپنی شناخت بنائی ان میں جاذب قریشی کا نام بہت اہم ہے۔ انہوں نے تنقیدی مضامین بھی لکھے جو اردو ادب کا سرمایہ ہے۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ جاذب قریشی جدید حسیت اورعلامتی اسلوب کے شاعر تھے انہوں نے نظمِ معریٰ‘ آزاد نظم‘ نثری نظم‘ تجرباتی نظم‘ ہائیکو‘ ثلاثی اور دیگر اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی لیکن وہ غزل میں کمال کے اشعار کہتے تھے۔
اخترسعیدی نے کہا کہ 25 دسمبر 1964ء کو جاذب قریشی نے پہلی شادی لیکن جلد ہی ان کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا۔ اس سانحے نے جاذب قریشی پر گہرے غم اور دکھ کے اثرات مرتب کیے تاہم وہ جواں مردی سے آگے بڑھتے رہے۔ شاعری میں انہوں نے نئے استعارے ایجاد کیے۔ موجودہ دور میں ہر شعر کو منفرد لہجے کا شاعر کہنا اب عام سی بات ہوگئی ہے بلاسبہ شاعر کا اپنا لہجہ اور انداز ہوتا ہے اور وہ اپنی ذات کی حد تک انفرادیت بھی رکھتا ہے لیکن اگر لہجے سے ہٹ کر کہا جائے کہ شاعرِ موصوف کے ہاں عصری میلانات کا عکس اور نیا آہنگ موجود ہو تو بات مکمل ہوتی ہے جاذب قریشی بلاشبہ صاحب اسلوب شاعر تھے۔ جاذب قریشی نے ادبی حوالے سے گراں قدر خدمات انجام دیں وہ اپنی ذات میں ایک ادارہ اور صفات میں ایک انجمن تھے۔
رانا خالد محمود نے کہا کہ شناسائی‘ نیند کا ریشم‘ شیشے کا درخت‘ عکسِ شکستہ‘ آشوبِ جاں‘ عقیدتیں‘ جھرنے‘ اجلی آوازیں‘ لہو کی پوشاک جاذب قریشی کی شاعری مجموعے ہیں۔ انہوں نے تواتر کے ساتھ اپنے عہد کے بڑے اور زندہ تخلیق کاروں کے علاوہ نئی نسل کے قلم کاروں پر جتنے زبردست تنقیدی اور تجرباتی مضمون لکھے ہیں وہ کسی اور نے آج تک نہیں لکھے۔ ان کی نثری کتابوں میں‘ میں نے یہ جانا‘ آنکھ اور چراغ‘ شاعری اور تہذیب‘ میری تحریریں‘ دوسرے کنارے تک‘ نثری اسالیب‘ امکان سے آگے اور تخلیقی آواز شامل ہیں۔ انہوں نے زندگی بھر شعر و سخن کی آبیاری کی۔ شاعر علی شاعر نے کہا کہ پروفیسر جاذب قریشی کا نام ان شعرا میں سرفہرست ہے جنہوں نے عہد حاضر میں جدید غزل کو جدید تر بنایا ہے‘ ان کی شاعری کی تشبیہات و استعارات کا جدید انداز قارئین شعر و سخن کو نئے مانی و مفاہم کی وادیوں کی سیر کراتا ہے۔ وہ غیرجانب دار نقاد کی حیثیت سے اپنی پہچان رکھتے ہیں ۔

حصہ