نصراللہ خاں کا انٹریو

546

نصراللہ خان حالیہ صحافتی تاریخ میں ابن انشا کے بعد سب سے بڑے فکاہیہ کالم نگار تھے۔ انہوں نے طویل عرصے تک پابندی سے تقریباً روزانہ کالم لکھنے کا ریکارڈقائم کیا۔ یہ امتیاز بھی ان کا ہے کہ ملک کے تین بڑے اخبارات میں ان کے مالکان کے اصرار پر انہوں نے کالم نگاری کی۔ ان میں روزنامہ جنگ کے میر خلیل الرحمن‘ روزنامہ نوائے وقت کے مجید نظامی اور روزنامہ حریت کے فخر ماتری شامل ہیں۔ صحافت کی دنیا میں انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جانے کا سبب یہ بھی تھا کہ آپ نے مولانا ظفر علی خاں کی آنکھیں دیکھی تھیں اور ابتدائی صحافتی تربیت بھی ان ہی سے حاصل کی تھی۔ ان کے کالموں میں ادبی رنگ نمایاں تھا۔ جیسے دل چسپ ان کے کالم ہوا کرتے تھے‘ ان کی گفتگو بھی ویسی ہی پُرلطف اور پُر مزاح ہوتی تھی۔ کالم نگاری کے علاوہ خاکہ نگاری بھی ان کا اختصاص تھا۔ ان کے خاکوں کی کتاب ’’کیا قافلہ جاتا ہے‘‘ میں یادگار خاکے ہیں۔ لیکن دکھ کا پہلو یہ بھی ہے کہ طویل علالت اور پھر انتقال کے بعد زمانے نے انہیں جلد ہی بھلا دیا۔
نصراللہ خان 11 نومبر 1920ء کو ہندوستان کے علاقے مالوے کی چھوٹی سے مسلمان ریاست جاورے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام محمد عمر خان تھا جو مسلم ہائی اسکول امرتسر کے ہیڈ ماسٹر اور ماہر تعلیم تھے۔ نصراللہ خاں نے کم عمری میں قرآن ختم کر لیا۔ اردو اور انگریزی کی تعلیم والد صاحب سے حاصل کی۔ بچپن ہی سے مطالعے کا شوق تھا۔ آٹھ سال کی عمر میں الف لیلیٰ اور دیگر داستانوں کا مطالعہ کر لیا تھا۔ باقاعدہ تعلیم مسلم ہائی اسکول امرتسر سے حاصل کی۔ 1937ء میں میٹرک کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا۔ پھر ایم اے او کالج میں انٹر آرٹس میں داخلہ لیا۔ 1945ء میں اجمیر سے بی اے اور بی ٹی کیا۔ 1947ء میں ناگ پور یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔
نصراللہ خان 1935ء میں جب نویں جماعت کے طالب علم تھے تو پہلا مزاحیہ مضمون آغا خلش کاشمیری کے ادبی ماہنامے ’’آبشار‘‘ میں شائع ہوا۔ اس عرصے میں انہوں نے امرتسر کے روزنامہ ’’مساوات‘‘ اور ’’احسان‘‘ میں بھی اپنے نام سے مراسلے اور مضامین لکھے۔ مولانا ظفر علی خان آپ کو اپنے بیٹے کی طرح عزیز رکھتے تھے‘ دو سال تک ان کی شاگردی میں لکھنا سیکھا۔ 1947ء میں ریڈیو میں ملازم ہوئے اسی دوران شمس زبیری کے رسالے ’’نقش‘‘ میں ’’شوخی ٔ تحریر‘‘ کے عنوان سے مزاحیہ مضامین لکھے۔ 1949ء میں مجید لاہوری کی ادارت میں شائع ہونے والے رسالے ’’نمکدان‘‘ میں ’’پیارے میاں‘‘ کے نام سے مزاحیہ مضامین تحریر کیے۔ اسی سال ماہنامہ ’’ساقی‘‘ میں ’’کلن مر جائے گا‘‘ کے عنوان سے کالم تحریر کیے۔ انہوں نے ریڈیو کے لیے بیس سے زائد ڈرامے‘ بے شمار فیچر اور ’’دیکھتا چلا گیا‘‘ کے عنوان سے بھی کالم لکھے۔ مختلف مغربی ناولوں کا ترجمہ کرکے ان کی ڈرامائی تشکیل بھی کی۔ ان کے مقبول ترین ڈراموں میں ’’لائٹ ہائوس کے محافظ‘‘ ’’نام کا چکر‘‘ ’’سومانت‘‘ اور ’’ایک حقیقت چار فسانے‘‘ شامل ہیں۔ پھر آپ نے ریڈیو سے استعفیٰ دے کر اسکول میں ملازمت اختیار کرلی۔ معروف صحافی واجد شمس الحسن‘ شاعر حبیب جالب‘ صحافی انقلاب ماتری‘ اداکار وحید مراد‘مزاح نگار انور مقصود‘ ہدایت کار پرویز ملک اور موسیقار سہیل رعنا آپ کے شاگرد رہ چکے ہیں۔
نصراللہ خاں نے باقاعدہ کالم نگاری کا آغاز کراچی کے روزنامہ ’’امروز‘‘ سے کیا۔ اس کے بعد روزنامہ ’’حریت‘‘ میں 1962 سے 1990ء تک‘ ہفت روزہ ’’تکبیر‘‘ میں 1984ء سے 1994 تک اور روزنا مہ جنگ میں 1990 سے 1994 تک کالم نگاری کرتے رہے۔ آپ کی دو کتابیں ’’بات سے بات‘‘ (کالموں کا مجموعہ) اور ’’کیا قافلہ جاتا ہے‘‘ (شخصی خاکوں کا مجموعہ) شائع ہو چکی ہیں۔ جب کہ خود نوشت ’’ایک شخص مجھ ہی سا تھا‘‘ ادارہ ’’تکبیر‘‘ کے پاس بہ غرض اشاعت تھا‘ اب لاپتا ہے۔ نصراللہ خاں کا انتقال میری لینڈ امریکا میں طویل علالت کے بعد 22 فروری 2002ء کو ہوا اور وہیں تدفین عمل میں آئی۔ ان کے فن اور شخصیت پر اس خاکسار کی نگرانی میں ڈاکٹر یاسمین سلطانہ کے مقالے پر کراچی نے یونیورسٹی پی ایچ ڈی کی سند دی۔
زیر نظر انٹرویو اپریل 1983 میں اس وقت کیا گیا جب اے پی این ایس نے انہیں سال کے بہترین کالم نگار کا ایوارڈ دیا۔ افسوس کہ کسی حکومت نے انہیں بعدازمرگ کسی تمغے یا ایوارڈ کامستحق نہ سمجھا۔
…٭…
طاہر مسعود: اے پی این ایس کی جانب سے سال کے بہترین کالم نگار کا ایوارد ملنے کی اطلاع آپ تک کس ذریعے سے پہنچی؟ آپ کا پہلا ردعمل کیا تھا؟
نصراللہ خاں: ایک دن دفتر گیا تو حمید ہارون (اے پی این ایس کے سیکرٹری) نے کہا آپ کے لیے خوش خبری ہے۔ میں نے سمجھا کہ شاید ہمارے اخبار کی سرکولیشن بڑھ گئی ہے لیکن انہوں نے اس کے برعکس اطلاع دی‘ کہنے لگے آپ کو بیسٹ اردو کالمسٹ کا ایوارڈ ینے کا فیصلہ ہوا ہے۔ میں نے کہا یہ تو آپ کو مبارک ہو کیوں کہ میں ایوارڈ حاصل کرنی کے لیے نہیں لکھتا۔ میرے لیے تو سب سے بڑی خوشی یہ ہے کہ ایک شخص صبح سویرے مجھے فون کرکے کہتا ہے ’’نصراللہ خاں! آج تمہارا کالم بہت اچھا تھا۔‘‘ یوں بھی اب کوئی خوشی‘ خوشی نہیں رہی‘ عمر کا بڑا حصہ بیت گیا۔ شاید بیس سال پہلے یہ ایوارڈ ملا ہوتا تو خوش ہو لیتا۔ بات یہ ہے کہ خوشی کا ایک زمانہ ہوتا ہے جب خوشیاں اچھی لگتی ہیں اس کے بعد ہر بات عام سی محسوس ہوتی ہے۔ ہاں اس کی مسرت ضرور ہے کہ اے پی این ایس کے سربراہان میرا کالم پڑھتے ہیں۔
طاہر مسعود: ایک اچھے کالم کی کیا پہچان ہے؟ یعنی اس میں کون سی خوبیاں ہونی چاہئیں؟
نصراللہ خاں: کالم کی سب سے بڑی یہ خوبی ہونی چاہیے کہ آپ اس کے ذریعے اپنے ملک و قوم کے مسائل کو حل کرنے میں لوگوں کی اس طرح مدد کریں کہ وہ سوچنے‘ سمجھنے اور کچھ کرنے پر تیار ہو جائیں۔ کالم کا طنز اتنا بھاری نہ ہونا چاہیے کہ پڑھنے والے کا ذہن بھاری ہو جائے بلکہ اسے بڑے سلیقے کے ساتھ پیش کرنا چاہیے۔ اداریے اور کالم میں یہی بنیادی فرق ہے۔ اداریہ ایک سیدھی چال ہے جب کہ کالم میں وہی باتیں ہوتی ہیں لیکن انداز ذرا مختلف ہوتا ہے۔ یہ ایک ہلکی پھلکی مزا دینے والی تحریر ہوتی ہے جس کا انداز یوں ہوتا ہے کہ جیسے آپ کسی کی چٹکیاں لے کر اسے سمجھانے کی کوشش کریں۔ لطیفے اور الفاظ سے کھیلنا‘ کسی کی محرومی کا مذاق اڑانا‘ نہ کالم نویسی کے دائرے میں آتا ہے اور نہ صحافت کے۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ جب میں نے ایک بار شوکت تھانوی صاحب کا کسی معذور شخص کے بارے میں لکھا ہوا یہ خاکہ پڑھا کہ وہ یوں لنگڑا لنگڑا کر چلتے تھے جیسے ٹائپ کر رہے ہیں۔ اس دن سے میں نے شوکت تھانوی کو پڑھنا چھوڑ دیا۔ دوسری بات یہ کہ کالم اپنی ذات کو مار کر لکھنا پڑتا ہے۔ کالم نویس کو بے غرض ہونا چاہیے۔ اسے لازم ہے کہ بڑی سے بڑی طاقت کو خاطر میں نہ لائے اور سچی بات لکھے۔
طاہر مسعود: اپنی ذات کو مار کر لکھنے سے آپ کی کیا مراد ہے؟
نصراللہ خاں: اس کا مطلب ہے کالم نگار اپنا امیج نہ بنائے۔
طاہر مسعود: کیا روزانہ لکھنے کی پابندی کالم نگار کے معیار کو متاثر نہیں کرتی ہے؟
نصراللہ خاں: ہونا تو یہ چاہیے کہ جب کالم نویس کے جی میں آئی تب وہ کالم لکھے لیکن اخبار میں لکھنے کی ضرورت تو ہمیشہ رہتی ہے کہ یہ روز چھپتا ہے۔ دل روز تڑپتا ہے۔ دوسرے کالم نویس سوچتے ہیں جب موضوع ہوگا تب لکھیں گے لیکن میں لکھنے کے سوا کچھ اور نہیں کر سکتا۔ کالم نویسی میرا نشہ ہے۔
طاہر مسعود: بسا اوقات لکھنے پر طبیعت آمادہ نہیں ہوتی‘ ایسا لمحہ آپ پر بھی آتا ہوگا‘ اس وقت آپ کا رویہ کیا ہوتا ہے؟
نصراللہ خاں: بات سے بات نکالنا میری عادت ہوگئی ہے۔ بعض اوقات جب بات نہیں بنتی تو دو‘ تین موضوعات ملا کر لکھتا ہوں۔ میں نےاب تک دس ہزار کالم لکھے ہیں۔ مختلف طبیعتوں کا خیال رکھ کر کالم لکھتا ہوں۔ عورتوں کے لیے‘ عام آدمی کے لیے‘ سیاست سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے‘ بجٹ پر‘ معاشی مسائل پر‘ بین الاقوامی موضوعات پر۔ اس کے لیے مطالعے کی کافی ضرورت ہے۔ اچھی یادداشت بھی ضروری ہے۔ عرصہ دراز تک میرا چار‘چھ گھنٹے تک مطالعہ کرنا معمول تھا۔ میں نے تاریخ‘ فلسفہ اور انگریزی ادب کا بالخصوص مطالعہ کیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ لوگ بغیر پڑھے کس طرح لکھتے ہیں۔ صرف اخبار پڑھ کر تو آدمی جاہل رہ جاتا ہے۔ میں امریکا گیا تو وہاں اخبارات کے دفاتر گیا‘ ایڈیٹروںسے ملاقات کی۔ معروف کالم نگار آرٹ بخوالڈ سے ملاقات نہ ہونے کا افسوس ہے۔ وہ شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ وہاں جا کر میری بصیرت میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔ ہم میں اوران میں بس اتنا فرق ہے کہ ان کے پاس وسائل زیادہ ہیں اور اخبارات ڈھنگ سے شائع ہوتے ہیں۔ ہمارے اخبارات میں ڈگری یافتہ لوگ توبہت ہیں‘ پڑھے لکھے لوگ البتہ کم ہیں۔
طاہر مسعود: کالم نگاری کو ادب کی صنف تسلیم نہیں کیا جاتا‘ ادیب کالم نگاری کو سطحی‘ چلتا ہوا اور صحافتی مشغلہ تصور کرتے ہیں اور یوں اس کی اہمیت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ آپ ادیبوں کے ان خیالات کو کتنی اہمیت دیتے ہیں اور آپ کے پاس اس کے جواب میں کہنے کے لیے کیا ہے؟
نصراللہ خاں: یہ کالم نگار پر منحصر ہے کہ وہ اپنے کالم کو چلتا ہوا کام بنا دے یا ہیرے کی طرح تراش کر رکھ دے۔ ہمارے پاس وقت بہت کم ہوتا ہے اور عجلت میں لکھنا پڑتا ہے‘ لیکن اس کے باوجود کئی چیزیں اسی لکھ دی جاتی ہیں جو ادبی شہ پارے پر بھاری ہوتی ہیں۔ کالم نویسی ادب کا حصہ ہے‘ صحافت کا ہر صفحہ تاریخ ہے۔ آپ معاشرے کے حالات اور زندگی پر لکھتے ہیں۔ اگر موضوع پر آپ کے لکھنے کا طریقہ ادیبانہ ہے تو اسے یقینا ادب سمجھا جائے گا۔ ہر کالم ادب کا حصہ نہیں۔ جیسے ہر غزل ادب کا حصہ نہیں۔ اس کا دارومدار وقت‘ موضوع اور لکھنے والے کی شخصیت پر ہوتا ہے۔ ’’اودھ پنچ‘‘ میں جو کچھ چھپتا تھا‘رتن ناتھ سرشار کا ’’فسانہ آزاد‘‘ جو اخبار میں چھپتا تھا‘ آپ انہیں کیا ادب کا حصہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیں گے؟ اسی طرح میر محفوظ علی اور قاضی عبدالغفار‘ عبدالمجید سالک‘ چراغ حسن حسرت اور ظفر علی خان کی تحریروں کو کیا نام دیں گے… جو بہرحال ادب میں شامل ہیں۔ انگریزی میں ’’اسپیکٹیٹر یا ’’پنج‘‘ (لندن) کے تمام مزاحیہ مضمون نگاروں کی نگارشات کو ادب کا حصہ تصورکیا جاتا ہے۔ لکھنے والا ادیب ہے تو پھرکالم بھی ادب میں شمار ہوگا۔
طاہر مسعود: موجودہ اردو صحافت میں کالم نگاروں کی مختلف اقسام ہیں۔ بعض خالصتاً مزاحیہ کالم لکھتے ہیں۔ بعض کے ہاں طنز کی کاٹ نمایاں ہے۔ بعض سنجیدگی کی طرف مائل ہیں۔ بعض کالم نگار طنز مزاح کی آمیزش سے کالم کا تانا بنا بُنتے ہیں۔ آپ کے خیال میں ایک اخبار جسے لوگ علی الصبح پڑھتے ہیں‘ ان کے لیے کون سا کالم زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے؟
نصراللہ خاں: قاری چاہتا ہے کہ صبح اٹھ کر کالم پڑھ کر لطف اندوز ہو‘ صبح اچھی گزرے‘ طبیعت بھاری نہ ہو‘ کالم پڑھ کر رونا یا ذہن پر وزن ڈالنا نہیں چاہتا۔ ایک اہم بات اور بھی ہے‘ ہم نے کالم کے ذریعے ’’ٹو ایجوکیٹ دی پیوپل‘‘ کا کام چھوڑ رکھا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب سالک اور ظفر علی خاں جیسے لوگوں نے اپنے قارئین کو فکر کی بلند دی۔ پھر ایسے کالم نویس آئے جو پبلک کے پیچھے چلنے لگے۔ انہوں نے دیکھا کہ پبلک ارے تڑے اور ہماڑے پسند کرتی ہے تو کالم بھی ویسا ہی لکھنے لگے۔ (غالباً اشارہ مجید لاہوری کی جانب ہے جنہوں نے عوامی لب و لہجے کو اپنے کالموں میں اپنایا جس کی وجہ سے کراچی کے کوچوان اور پنواڑی بھی ان کے کالموں کو شوق سے پڑھتے تھے۔) انہوں نے سوچا کہ پبلک کی سمجھ میں آسانی سے جو بات آجائے یا جس پر ہنسی آجائے بس وہی لکھنا چاہیے۔ خواہ اس کے لیے کالم نویس کو گدگدی کرنا پڑے۔ اپنا چہرہ ہی کیوں نہ بگاڑنا پڑے۔ وہ ہنسانے کی کوشش میں اپنی فکر اور سوچ سب کچھ قربان کر دیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں شہرت کی ہوس نے پاگل بنا دیا تھا۔ا ن میں سوچ کے کرب کو سہارنے کی ہمت نہ تھی۔ انہوں نے اپنے قارئین کو بھی ویسا ہی بنا دیا۔
طاہر مسعود: ایک زمانہ تھا کہ اردو ادب میں افسانے کی صنف کو بے پناہ عروج حاصل ہوا تھا‘ لیکن گزشتہ دس پندرہ برسوں میں اس صنف پر بری طرح زوال آیا ہے اور اس کی جگہ نثری صنف میں سفر نامے‘ طنزیہ مزاحیہ مضامین اور بالخصوص کالم نویسی کی صنف کو قبول عام کا درجہ حاصل ہوا ہے۔ اس وقت ملک میں کالم نگاروں کی کھیپ کی کھیپ موجود ہے۔ آپ کے خیال میں اس صنف کے آئندہ مزید ترقی کرنے کے کس حد تک امکانات موجود ہیں‘ کہیں دس پندرہ سال بعد اس صنف کا بھی وہی حال تو نہیں ہوگا جو اردو افسانے کا ہوا؟
نصراللہ خاں: کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کالم دبائو پسند نہیں کرتا۔ حالانکہ کہ میں سمجھتا ہوں کہ جتنا جبر مسلط ہوتا ہے طنز و مزاح اتنا زیادہ پنپتا ہے۔ کالم نویسی میں اس وقت تجربے ہو رہے ہیں۔ جو اچھے کالم نویس ہیں وہ رہ جائیں گے‘ باقی ختم ہو جائیں گے۔ ہر دور میں دبائو یا پابندیاں ہوتی ہیں‘ اس میں معاشرہ رنگ بدلتا ہے‘ اس میں طنز و مزاح معاشرے کو سب سے زیادہ آگے بڑھاتے ہیں۔ یہ غم میں مسکراہٹیں بکھیرنے‘ اسے قابل برداشت بنانے کا کام ہے۔ یہ جراحی کا عمل ہے۔ آدمی اپنے آپ کو ہلکا پھلکا کرکے معاشرے کو ہلکا پھلکا کرتا ہے۔ کالم نویس معاشی اور سیاسی دبائو کو ختم کرتا ہے۔ آپ کی یہ بات درست ہے کہ سفر نامے میں افسانے کا رنگ آیا ہے۔ افسانہ کیوں ختم ہوا؟ میری سمجھ میں نہیں آیا‘ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ماحول میں وہ ٹھہرائو نہیں رہا۔ علامتی افسانے اچھے لکھے گئے ہیں۔ لوگوں میں کہنے کی جرأت کم ہو تو علامت ہی باقی رہ جاتی ہے۔
طاہر مسعود: ہمارے ہاں جو لوگ تھوڑا بہت اچھے لکھنے لگتے ہیں اس کے بعد وہ اپنی شخصیت کو سماجی سطح پر مضبوط بنانے کے لیے غیر ادبی راستے اختیار کرتے ہیں۔ اپنے اعزاز میں تقریبات منعقد کرنے اور شامیں منانے کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔ میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ نے اس طریقہ کار کو اپنانے سے کیوں گریز کیا؟ بقیہ صفحہ 10پر
نصراللہ خاں: مستی‘ قلندری اور درویشی میں جو مزا ہے وہ کسی چیز میں نہیں ہے جب آپ روشنی میں آجاتے ہیں تو کہنے والے باتیں بھی نہیں کہہ پاتے۔ ملنے ملانے سے حجاب پیدا ہو جاتا ہے۔ کالم نویس کو پبلک ریلشنگ اور تعلقات بڑھانے سے ہمیشہ گریز کرنا چاہیے۔ میں وزرا‘ صنعت کاروں اور وفاقی یا صوبائی سیکرٹریوں سے کبھی نہیں ملتا۔اسی طرح تقریبات اور جلسوں سے بھی پرہیز کرتا ہوں لیکن دوست اسباب تقریبیں منعقد کرتے ہیںتو کبھی کبھی زبردستی پکڑ کر لے جاتے ہیں۔
طاہر مسعود: کیا آپ لکھنے والوں کے پی آر کے رویے کو بلاجواز سمجھتے ہیں؟
نصراللہ خاں: میں اس رویے کو کبھی بھی درست نہیں سمجھتا۔ خدا جانے لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ بعض لوگ اپنی پبلسٹی کو ضروری تصور کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جو کچھ انہوں نے لکھا ہے‘ پبلسٹی سے اس میں زور پیدا ہو جائے گا۔ میرا خیال اس کے برعکس ہے۔ (ہنس کر) آدمی اپنے ساتھ شامیں منانا چاہے تو شامِ غریباں منائے۔
طاہر مسعود: آپ کے کالموںکا مجموعہ ’’بات سے بات‘‘ منظر عام پر آیا اور اس کے باوجود کہ یہ بہت اچھا مجموعہ تھا‘نہایت خاموشی سے گزر گیا اور اس کا وہ شہرہ نہ ہو سکا جس کا یہ مستحق تھا۔ آپ کے خیال میں اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
نصراللہ خاں: میرے کالموں کے مجموعے ’’بات سے بات‘‘ کی ایک ہزار کاپی چھپی تھی۔ اس میں بیس سال کے کالموں کاانتخاب کیا گیا تھا‘ لیکن میں اس کے انتخاب سے مطمئن نہیں ہوں۔ پھر یہ کہ مجھے کوئی پبلشر بھی نہیں ملا‘ حالانکہ میں تو اس پر بھی تیار تھا کہ پبلشر مجھے ایک پیسا نہ دے لیکن کتاب ڈھنگ سے چھاپ کر عام آدمی تک پہنچا دے لیکن یہ سب نہ ہوسکا۔ کتاب عجلت میں چھپی اورناتجربہ کاری کے سبب اسٹالوں اور لائبریریوں تک نہ پہنچ سکی جیسا کہ اسے پہنچانا چاہیے تھا۔ میں نے کالموں کے علاوہ معروف شخصیات پر خاکے بھی لکھے ہیں۔ میں نے پہلا خاکہ شاہد احمد دہلوی مرحوم پر ان کی فرمائش پر لکھا تھا جسے حسن عسکری صاحب نے بے حد پسند کیا تھا اور مجھے خاکے لکھتے رہنے کے لیے کہا تھا۔ بعد میں‘ میں نے مزید خاکے لکھے۔ ان خاکوں کا مجموعہ چھاپنے کے لیے مشفق خواجہ صاحب کو دیا ہوا ہے۔
طاہر مسعود: موجودہ سیاسی ماحول اور صحافتی پس منظر میں ایک کالم نگار کو لکھنے کی کس حد تک آزدی حاصل ہے؟ کیا آپ اس آزادی کو اپنے لیے کافی تصور کرتے ہیں یا مزید آزادی کے خواہاں ہیں؟
نصراللہ خاں: موجودہ سیاسی اور صحافتی ماحول گھٹن کا شکار ہے۔ ایوب خان سے لے کر ضیا الحق تک کے مارشل لا میں لوگوں کو لکھنے کی اس طرح تربیت ہوگئی ہے کہ لکھنے والا اصل بات کو چھپا کر لکھتا ہے اور لوگ سمجھ لیتے ہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ اگر آپ کو لکھنا آتا ہے تو آپ پابندیوں کی موجودگی میں لکھ سکتے ہیں۔ ذاتی طور پر میں مکمل آزادی چاہتا ہوں۔ مقابل میں خواہ بڑی سے بڑی شخصیت ہی کیوں نہ ہو‘ اس کی غلط کاریوں پر کھل کر لکھا جانا چاہیے۔ کوئی ایک شخص اس ملک کا مالک نہیں ہے۔ عوام اس ملک کے مالک ہیں لیکن آزادی کے ساتھ کالم نویسوں کو بھی اپنے فرائض کو محسوس کرنا چاہیے کہ وہ کسی کی کردار کشی نہ کریں۔
طاہر مسعود: کبھی آپ کا کالم دفتری یا سرکاری سطح پر سنسر ہوا؟ آپ نے اس پر کیا ردعمل ظاہر کیا؟
نصراللہ خاں: بہت سے کالم سنسر ہوئے لیکن میں نے سنسر سے بچنے کی یہ ترکیب نکالی کہ سنسر کرنے والوں کے معیایر سے بلند ہو کر لکھنا شروع کردیا۔ ان بے چاروں کی سمجھ میں نہ آسکا اور یوں میرے کالم سنسر کی زد میں ہوتے ہوئے بھی اس سے آزاد ہو گئے۔
طاہر مسعود: کبھی کوئی کالم لکھنے یا چھپ جانے کے بعد پچھتاوے کا احساس ہوا؟
نصراللہ خاں: اکثر ہوا جب کوئی ایسی بات جو میرے معیار کے مطابق نہ تھی اور میں نے اسے جلدی میں لکھ دیا تو لوگوں نے احساس دلایا اور مجھے سخت شرمندگی ہوئی۔ یوں بھی ہوا کہ نیک نیتی سے لکھے ہوئے کالم کا لوگوں نے غلط مفہوم اخذ کیا۔
طاہر مسعود: بہ حیثیت کالم نگار آپ کو سب سے زیادہ شکوہ کس سے ہے؟ قارئین سے‘ ایڈیٹر سے‘ اخبار کی تعداد اشاعت سے یا خود اپنے سے؟
نصراللہ خاں: اپنے آپ سے شکوہ ہے‘ ویسے مجھے شکوہ کرنے کی عادت نہیں ہے۔ اس کام کے لیے علامہ اقبال ہی کافی تھے۔
طاہر مسعود: وہ لمحہ جب آپ کالم نویسی سے بیزار ہو گئے ہوں؟
نصراللہ خاں: وہ لمحہ کبھی نہیں آیا‘ میں نے شہرت اور پیسے کے لیے کبھی کالم نہیں لکھا۔ کالم نویسی میرا شوق ہے‘ میری زندگی ہے۔
طاہر مسعود: وہ لمحہ جب آپ کو اپنے کسی معاصر کالم نویس پر رشک آیا ہو؟
نصراللہ خاں: مجید لاہو ری‘ ابن انشا‘ طفیل احمد جمالی اور ابراہیم جلیس وغیرہ کی تحریروں پر کبھی کبھی رشک آیا۔ بعض اوقات وہ اچھا لکھتے تھے اور اس روزمیرا کالم اتنا اچھا نہیں ہوتا تو مجھے تکلیف ہوتی تھی۔

حصہ