اردو کے نامور شاعر۔۔جاذب قریشی کا بھی سفر زندگی تمام ہوا

346

جاذب قریشی ہماری روایت کا بڑا اور اہم نام ہے۔ ان کا اہم حوالہ حسن عسکری کے قبیل سے ہونے کا ہے۔ وہ جدید غزل کے اہم لوگوں میں سے ایک تھے۔ تنقید کے دائرے میں بھی ان کا کام بہت وسیع ہے۔ انہیں آخری مرتبہ کئی سال پہلے سلیم احمد کی شخصیت پر آرٹس کونسل میں مضمون پڑھتے سنا تھا۔ کہتے: ’’سلیم احمد تہذیبی روایت کے تسلسل کا نام ہے۔‘‘
ممتاز شاعر اور نقاد پروفیسر سحر انصاری جاذب قریشی کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے نئی نسل کو شعر و ادب کی جانب راغب کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
جاذب قریشی اگست 1940 میں کلکتہ میں پیدا ہوئے۔ خاندان کا تعلق لکھنؤ سے تھا۔ اصل نام محمد صابر تھا۔ ان کی پوری زندگی مسلسل محنت، جستجو اور جدوجہد سے عبارت ہے، لیکن ان کے ابتدائی ایام مشکل اور کٹھن رہے۔ اپ جب صرف پانچ سال کے تھے تو والد کا انتقال ہوگیا، ابتدا ہی سے مفلسی نے گھیرے رکھا، شدید مالی مشکلات کی وجہ سے ہی تعلیم کا سلسلہ بھی ٹوٹ گیا۔ کچھ بڑے ہوئے تو ایک کارخانے میں ڈھلائی کا کام بھی کیا۔ کیوں کہ تعلیم و تعلم سے تعلق جڑا رکھنا چاہتے تھے اور شوق اور لگن بھی تھی، تو جب حالات میں کچھ بہتری آئی تو الہٰ آباد چلے گئے۔ لیکن پھر بعد میں والدہ انہیں واپس لکھنؤ لے آئیں، اور وہ پھر کسی مجبوری کی وجہ سے ڈھلائی کے کام سے وابستہ ہوگئے۔ مختصر یہ کہ حصولِ تعلیم کا مرحلہ ہو یا معاشی ضرورت اور زندگی گزارنے کے لیے وسائل کا مرحلہ… انہوں نے انتہائی تکلیف دہ اور محنت طلب کام کیے، اور اس سے کبھی ہچکچائے بھی نہیں۔ زندگی میں نشیب و فراز رہے اور مستقل رہے، لیکن وہ مستقل مزاجی کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے رہے۔ 1950 میں آپ اپنی فیملی کے ساتھ لاہور آئے، جہاں ایک چھاپہ خانے میں بھی کام کیا۔ اس دوران آپ کا معمول یہ تھا کہ رات کو غزلیں اور افسانے لکھتے تھے۔ اپ اسی دور میں تنقیدی نشستوں میں بھی شریک ہوتے جہاں منٹو، اے حمید، مختار صدیقی اور عبادت بریلوی وغیرہ اپنی تحریریں تنقید کے لیے پیش کرتے تھے۔ جاذب قریشی لاہور میں کچھ عرصہ اورینٹل کالج میں بھی رہے جہاں حبیب جالب ان کے ہم جماعت تھے۔ لاہور میں فروغ لکھنوی کے قائم کردہ ’’مخلصینِ ادب‘‘ نامی ایک ادبی ادارے کے سیکرٹری بھی رہے۔ جاذب قریشی کراچی 1962ء میں آئے۔ مختلف رسائل نقش، نگارش، سات رنگ اور مجید لاہوری کے نمک دان میں بھی کام کیا۔ جامعہ کراچی سے ایم اے کیا، 1964 میں تدریس سے وابستہ ہوئے اور جناح کالج میں لیکچرر ہوئے۔ اس کے علاوہ اردو رسالہ ’’کائنات‘‘ میں بطور مدیر کام کیا، ہفت روزہ ’’نصرت‘‘ کے لیے کالم نگاری کی، اور روزنامہ جنگ کے میگزین سیکشن میں بھی کام کیا۔ آپ نے پاکستانی فلم ’’پتھر کے صنم‘‘ بھی بنائی۔ جاذب کے اشعار دیکھیے کہ وہ کیا کیا کہہ گئے اور بتا گئے۔ جاذب قریشی نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ غزلیں، نظمیں، نعتیں، نغمے، گیت اور ترانے لکھے اور بہت لکھے۔ پھر شاعری کے علاوہ تنقید نگاری میں بھی بہت کام کیا اور خوب نام کمایا۔ خصوصاً نعتیہ تنقید کے حوالے سے آپ منفرد مقام رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر شہزاد احمد اپنی معروف کتاب ’’ایک سو ایک پاکستانی نعت گو شعرا‘‘ میں ’’جاذب قریشی جدید لب و لہجے کی نعتیہ شاعری‘‘ کے عنوان سے تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جاذب قریشی کی حمد ہو یا نعت، مناقب ہوں یا سلام… سب میں تازہ کاری اور جدید تر لہجے کی نمائندگی موجود ہے۔ کتاب کی ابتدا میں ان کے تین کلام شامل ہیں۔ ’’سائبان‘‘ کے عنوان سے دعا کے انداز کو اپنایا۔ نعت کو ’’لوحِ جاں‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ ’’روشنی کا دریا‘‘ امام عالی مقام کے حضور نذرانہ سلام ہے۔ جب کہ آخری حصے میں ان کی ایک حمد، نو نعتیں، دو نعتیہ نظمیں، خلفائے راشدین کے حضور چار مناقب، دو سلام اور ایک دعا مناجات کی صورت میں شامل ہے۔ ان کی خوب صورت، تازہ اور توانا لہجے کی نعتیں دیکھیے، ان میں احتیاط کے بھی سب رنگ جھلکتے ہوئے ملیں گے۔‘‘
جمیل الدین عالی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ جاذب صاحب مدتوں سے اردو دنیائے ادب کے شعری اور نثری شعبوں میں اچھی طرح متعارف تھے۔ ان کی کئی کتابیں چھپ چکی ہیں۔ جمیل الدین عالی مزید لکھتے ہیں کہ ’’جاذب کے بارے میں کئی بڑے اور بہت سے شاعر خاصی مدّاحانہ تنقید لکھ چکے ہیں (جو آج ہمارے درمیان نہیں) پروفیسر مجنوں گورکھ پوری، ڈاکٹر احسن فاروقی، پروفیسر کرار حسین، پروفیسر منظور حسین شور، عزیزحامد مدنی، سلیم احمد، قمر جمیل، پروفیسر انجم اعظمی، محشر بدایونی، رئیس امروہوی، شاعر لکنھوی، الیاس عشقی، افسر ماہ پوری، ڈاکٹر فہیم اعظمی، پروفیسر باقی صدیقی، مشفق خواجہ، شبنم رومانی، پروفیسر اظہر قادری، اختر حامد خان، یونس اثر، انور عنایت اللہ، ساقی حسن عابدی، ایوب زیدی، ڈاکٹر مشرف احمد، ایس ایچ ہاشمی، برق زیدی، اقبال مہدی، زاہدہ حنا اور دوسرے۔ میں نے اتنے پچھلے اور تازہ اہلِ نظر کی یہ خاصی تفصیلی فہرست یوں مہیا کردی کہ یہ واضح ہوجائے کہ جاذب قریشی کا یہ تعارف و تعریف صرف میری پسند کے عکاس نہیں بلکہ پاکستان کے تقریباً تمام معروف نقاد اور لکھنے والے اہلِ نظر انہیں بہت دن سے خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں۔ اپنے حق سے کم شہرت کی وجہ جاذب صاحب کی بے نیازی اور صرف فن سے شوق و محبت کے سوا کچھ نہیں، لیکن وہ پاک وہند کے تمام ادبی حلقوں میں ہمیشہ سے خاصے معروف ضرور رہے ہیں۔‘‘
جاذب قریشی کئی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں تخلیق کی آواز، پہچان عکس شکستہ، نیند کا ریشم، اجلی آوازیں، مجموعوں کا مجموعہ میری شاعری میری مصوری، آنکھ اور چراغ، دوسرے کنارے تک، میری تحریریں، میں نے یہ جانا، شاعری اور تہذیب، جاذب کی نظمیں، جاذب کی غزلیں، نعت کے جدید رنگ، عقیدتیں، شناسائی، جھرنے، مجھے یاد ہے (سوانح عمری) وغیرہ شامل ہیں۔ جاذب کی شاعری کو دیکھتے ہیں تو اس میں مختلف اور منفرد رنگ نظر آتے ہیں جو ان کی شاعری کا حسن ہے:
کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں
تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو
٭
تیری یادوں کی چمکتی ہوئی مشعل کے سوا
میری آنکھوں میں کوئی اور اجالا ہی نہیں
٭
دفتر کی تھکن اوڑھ کے تم جس سے ملے ہو
اس شخص کے تازہ لب و رخسار تو دیکھو
٭
مری شاعری میں چھپ کر کوئی اور بولتا ہے
سرِ آئینہ جو دیکھوں تو وہ شخص دوسرا ہے
٭
دیکھ لے ذرا آ کر آنسوؤں کے آئینے
میں سجا کے پلکوں پر تیرا پیار لایا ہوں
٭
تیری خوشبو پیار کے لہجے میں بولے تو سہی
دل کی ہر دھڑکن کو اک چہرہ نیا مل جائے
جاذب قریشی کی رحلت اردو شاعری اور ادب کا بڑا نقصان ہے اور شاید یہ خلا کبھی پْر نہ ہوسکے۔اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔

حصہ