ہم کیوں مسلمان ہوئے۔۔ڈاکٹر خالد شیلڈرک (انگلستان)

ڈاکٹر خالد شیلڈرک نے 1903ء میں اس وقت اسلام قبول کیا جب ان کی عمر صرف 17 برس تھی اور وہ مذہب عیسوی کی تبلیغ کی تعلیم و تربیت حاصل کر رہے تھے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان پر عیسائی مصنفین کی خلافِ اسلام کتابوں کی وساطت سے اسلام کی حقانیت واضح ہوئی۔ جب وہ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے تو ان کے والد نے انہیں گھر سے نکال دیا‘ لیکن نوجوان خالد نے راہِ حق میں ہر طرح کی صعوبتوں کا پامردی سے مقابلہ کیا اور تن دہی سے اسلام کی روشنی کو دوسرے ذہنوں میں اتارنے کی مہم شروع کردی۔ چنانچہ ان کے اخلاص‘ طرزِ تبلیغ اور انتھک کوششوں کا نتیجہ تھا کہ انگلستان کے بہت سے ذہین اور معروف لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ایسے خوش نصیب اصحاب میں سے چند نام یہ ہیں۔ ولید بنسوڑ 1904ء، احمد برائوننگ 1905ء، عمر فلائٹ 1906ء، عمر رچرڈسن 1915ء، ایک روسی جرنل بیرن ہوون 1920ء، ایل جے محمد ہل 1920ء، ریورنڈ جے منیارڈ آف نیویارک 1924ء‘ عبداللہ ڈے 1925ء، بلال اینڈریو 1926ء، رائل ائرفورس کے ولیڈ ڈاٹسن 1927ء، ساراواک کی شہزای ہرہائی نس خیرالنساء گلیڈز پالمر 1932، خالد کنراڈ سیملبن 1932ء، انجینئرنگ کالج بنڈونگ جاوا کے پروفیسر کمال شو میکر 1934ء۔
ڈاکٹر خالد زبردست صلاحیتوں کے حامل معروف صحافی بھی تھے۔ اسلامی جرائد میں ان کے بے شمار مقالات شائع ہوئے۔ انہوں نے ’’مینارہ‘‘ کے نام سے خود بھی ایک ماہانہ رسالہ جاری کیا جو ڈاکٹر صاحب موصوف کے مسلسل تبلیغی سفروں اور مالی دشواریوں کی وجہ سے چند سال کے بعد بند ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے مشرقِ بعید‘ ہندوستان اور شرقِ اوسط کے بہت سے سفر کیے اور لندن میں ایک مستقل تبلیغی ادارہ ’’ویسٹرن اسلامک ایسوسی ایشن‘‘ کے نام سے قائم کیا۔ ڈاکٹر شیلڈرک اس کے تاحیات صدر رہے۔ بہت سی نامور مسلم ہستیاں اس کی رکن تھیں۔
ذیل میں ڈاکٹر صاحب کی ایک تقریر کا متن دیا جارہا ہے جس میں انہوں نے اپنے قبولِ اسلام کی وجوہ پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ تقریر انہوں نے قاہرہ میں جمعیت شبان المسلمین کے اجتماع میں کی تھی۔
…٭…
میں اپنے خطبہ کا آغاز کلمہ طیبہ لا الٰہ الاَاللہ محمدالرسول اللہ سے کرنا چاہتا ہوں کہ میرے جذباتِ مسرت کا تقاضا یہی ہے۔ میں نے دینِ اسلام کافی غور و فکر کے بعد قبول کیا ہے اور آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ میں نے اس دین کی تعلیمات پہلے پہل اس کے موافقین کی کتابوں سے نہیں بلکہ اس کے مخالفین کی تصانیف سے حاصل کی ہیں۔
میں برطانوی والدین کے گھر پیدا ہوا جو پروٹسٹنٹ چرچ سے وابستہ تھے۔ میرے والد کی آرزو تھی کہ وہ مجھے اس چرچ کاایک پادری دیکھے‘ اس لیے مجھے دینی کتب کے مطالعہ اور مذہبی موضوعات پر مباحث میں مصروف دکھ کر انہیں بہت مسرت ہوتی۔
یہ بتا دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ انگلستان بظاہر عیسائیت کا پیرو ہے لیکن نوے فیصد انگریز عیسائیت سے ناواقف ہیں اور میں بلند آہنگی کے ساتھ اعلان کرتا ہوں کہ میں خود اپنی زندگی میں ایک دن کے لیے بھی عیسائیت کے عام اصولوں کا قائل نہ ہوسکا۔ آپ جانتے ہیں کہ عیسائیت کی بنیاد اس عقیدہ پر قائم ہے کہ خدا کی ذاتِ واحد تین شخصیتوں کا مجموعہ ہے۔ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے کہ عقل قبول کرنے سے انکار کرتی ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ باپ اور بیٹا ہر زمانے میں ساتھ ساتھ موجود ہوں۔ جس کسی زمانے میں باپ کا وجود فرض کر لیا جائے بیٹے کا وجود بھی اس کے ساتھ لازم ہو۔ یہ ایک ناقابل فہم عقیدہ ہے جسے کوئی عقلِ سلیم کا مالک قبول نہیں کرسکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ عیسائی اس عقیدے کو سمجھے بغیر سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ عیسائی 25 دسمبر کو مسیح علیہ السلام کا یومِ ولادت مناتے ہیں حالانکہ اس خیال کی تائید میں وہ مسیح کی کسی ہم عصر یا کم از کم قریب العصر شخصیت کی سند پیش نہیں کرسکتے۔ دراصل یہ ایک پوپ کی دماغی اختراع ہے‘ جس کی کوئی تاریخی اصلیت نہیں بلکہ اصولِ حساب کی شہادت اس کے برخلاف ہے۔ بات یہ ہے کہ 25 دسمبر قدیم بت پرستوں کا ایک مقدس دن تھا۔ یہ لوگ سورج دیوتا کے پجاری تھے۔ چنانچہ جب ان کا دیوتا سورج جسے یہ صدر وجود اور چشمۂ حیات سمجھتے تھے‘ زمانۂ انقلاب سرمائی کو ختم کر لیتا تھا تو اس سے اگلے دن وہ عید مناتے تھے اور اسے اپنے دیوتا کا یومِ ولادت مانتے تھے۔ اسی عقیدۂ ولادتِ شمس کو عیسائیوں نے عید ولادتِ مسیح میں تبدیل کر دیا اور بت پرستوں کے قدیم دستور کے مطابق 25 دسمبر کویومِ عید قرار دیا ہے۔
اسی طرح بت پرست موسمِ سرما کے خاتمے کے اگلے دن بھی عید مناتے تھے کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ آج ان کے خدا سورج دیوتا نے اس تاریکی پر فتح پائی ہے جو اس کے راستے میں حائل ہوگئی تھی اور اب اس کی طاقت اور روشنی میں اضافہ ہو گیا ہے چنانچہ پرانے بت پرستوں کی پیروی میں جس طرح عیسائیوں نے یومِ ولادتِ مسیح میں تبدیل کرکے اسے عید مانا تھا‘ اسی طرح انہوں نے یومِ اعتدالِ ربیع کو جو دراصل سورج دیوتا کے طاقت پانے کا دن تھا‘ مسیح کے طاقت پانے کا دن قرار دے کر اسے ’’عیدالقیامہ‘‘ (ایسٹر) بنا لیا۔
اسی طرح باپ بیٹے کا مسیحی عقیدہ بھی قطعی پرانے بت پرستوں کے عقائد سے ماخوذ ہے‘ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بدھ مت کے ماننے والے بدھ کے بچپن کے زمانے کی تصویر‘ اس کی ماں (مایا) کے ساتھ جس انداز سے بناتے ہیں ’’بعینہ اسی انداز کی تصویر مسیح کے زمانۂ طفولیت کی‘‘ ان کی ماں مریم کی ساتھ گرجوں میں منقش پاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسیح کی وہ شخصیت جس کے عیسائی دعویدار ہیں‘ کوئی تاریخی حیثیت نہیں رکھتی۔ اگر کوئی ناقد علمی طریقے سے اس موضوع پر بحث کرے تو اسے کلی طور پر مایوس ہونا پڑے گا۔ اس کا اندازہ آپ مسیح کی ان تصویروں سے کر سکتے ہیں جو مختلف ممالک میں مختلف انداز میں ملتی ہیں۔ آسٹریا کے گرجوں میں مسیح کی جو صورت منقش ہے وہ اٹلی کے گرجوں کی تصویروں سے خاصی مختلف ہے ’وعلی ہذالقیاس‘ چنانچہ خاصے غور و فکر کے بعد بھی مسیح کی ان فرضی تصویروں سے ان کی اصل صورت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ چنانچہ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ عیسائیوں کے مختلف طبقوں میں عیسائیت کے اصولوں اور مسیح کی ذات کے متعلق بنیادی اختلافات ہیں اور کوئی بھی غیر جانبدار قاری معمولی مطالعے سے ان کا ادراک کر سکتا ہے۔
یہ تھی وہ بنیادی الجھنیں جنہوں نے مجھے دیگر مذاہب کے مطالعے پر آمادہ کیا۔ چنانچہ مذاہب عالم پر انگلستان کی لائبریریوں میں مجھے جتنی بھی کتابیں ملیں میں نے وہ پڑھ ڈالیں۔ اس مرحلے میں ایک عجیب انکشاف ہوا۔ وہ یہ کہ ان کتابوں میں یہودیت‘ ہندو مت‘ بدھ مت وغیرہ کے بارے میں تو صرف معلومات ہی تھیں مگر اسلام کا جہاں بھی ذکر آتا تھا‘ کوئی بھی مصنف طعن و تشنیع کے بغیر نہیں گزرتا تھا۔ اسلام کے بارے مین ان کتابوں کا ماحصل یہ تھا کہ اسلام بذاتِ خود کوئی مستقل مذہب نہیں ہے بلکہ وہ محض عیسائی لٹریچر سے ماخوذ چند اقوال کا مجموعہ ہے۔
قدرتاً میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر واقعی اسلام ایسا بے حقیقت مذہب ہے جیسا کہ ہمارے مصنفین ظاہر کرتے ہیں تو پھر اس پر اس قدر اعتراض‘ طعن و تشنیع اور شور و واویلا کی اتنی ضرورت کیوں ہے؟ اس کے مقابلہ و مدافعت پر اتنا زور کیوں دیا جاتا ہے؟ اس احساس نے غوروفکر کی راہیں مزید کھول دیں اور یہ بات میرے دل میں بیٹھتی چلی گئی کہ اگر عیسائی مصنفین مذہب اسلام سے خائف نہ ہوتے اور اس کی قوت و حرکت سے مرعوب نہ ہوتے تو اس سے مقابلہ و مجادلہ کی اس قدر فکر نہ کرتے‘ نہ اٹھتے بیٹھتے اس کی توہین و تذلیل کے درپے ہوتے۔چنانچہ اب میں نے طے کر لیا کہ اسلام پر خود مسلمانوں کی کتابیں پڑھوں گا اور اسے اس کے صحیح آئینے میں دیکھنے کی کوشش کروں گا۔
چنانچہ میں نے سارا وقت اسلام کو پڑھنے اور سمجھنے میں لگا دیا اور خدا کا شکر ہے حقیقت تک پہنچنے میں مجھے زیادہ دیر نہ لگی۔ میںنے خود دیکھ لیا کہ اسلام کے خلاف اعتراضات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے وہ قطعی بے بنیاد ہے۔ اسلام ہی دین ِفطرت ہے اور سلامتِ طبع رکھنے والا کوئی فرد بھی اس سے زیادہ عرصے تک دور نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ میں نے باقاعدہ اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ مجھے ایک دوست نے بتایا کہ ترکی کے دارالخلافہ استنبول میں ایک مسجد ایا صوفیہ ہے اور وہ اسلامی تبلیغ کا مرکز ہے۔ میں نے اس مسجد کے پتے پر اپنے حالات استنبول لکھ بھیجے۔ میرا یہ خط سلطان عبدالحمید کی خدمت میں پیش کیا گیا اور سلطان المعظم کے سیکرٹری نے مجھے جواب دیا کہ میں مشہور نو مسلم انگریز شیخ عبداللہ کوکیلم (بیرسٹر) سے ملاقات کروں۔
برادرانِ اسلام! آپ خوب اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایک انگریز مسلمان سے مل کر میرے جذباتِ مسرت کا کیا علم ہوگا۔ میں نے ان سے اپنے دل کا حال بیان کیا اور آزادی کے ساتھ اپنے عقائد اور خیالات کا اظہار کیا۔ شیخ عبداللہ کوئیلم نے مجھے سینے سے لگا لیا اور تھوڑی دیر کے بعد میں اسلامی برادری کا رکن بن چکا تھا۔ شیخ موصوف کی شخصیت اور محنت کے نتیجے میں انگلستان میں پانچ سو سے زائد انگریز مسلمان ہوئے۔
میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے قبولِ اسلام کی اطلاع اپنے والد کو دوں۔ عجیب بات ہے کہ انہیں عیسائیت کو خیرباد کہنے سے تو کوئی رنج نہ ہوا مگر میرے قبولِ اسلام کی خبر سے ان کے دل پر سخت چوٹ لگی اور ان کے ساتھ سارے خاندان نے شدید صدمہ محسوس کیا۔ انہوں نے بہت کوشش کی کہ میں اپنے فیصلے کو واپس لے لوں‘ مگر میں نہایت مسرت کے ساتھ اعلان کرتا ہوں کہ مجھے اسلام کے دامن کو تھامے ہوئے 35 سال گزر گئے ہیں اور اسلام پر میرا یقین بڑھتا ہی چلا گیا ہے۔ آج میں پہلے کے مقابلے میں اسلامی تعلیمات کا زیاد معتقد اور اس کے محاسن و فضائل کا زیادہ معترف ہوں۔ الحمدللہ میں اس کے احکام پر عمل بھی کرتا ہوں۔ میں ولی اللہ ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا مگر یہ ضرور ہے کہ اسلامی فرائض کو ادا کرنے میں حتیٰ الامکان کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔
آخر میں‘ میں اپنے اس یقین کا اظہار کروں گا کہ ان شاء اللہ ایک دن تمام دنیا دینِ اسلام کا پرچم تھام لے گی۔ مگر یہ اس امر پر موقوف ہے کہ اسلام کے نام لیوا اسلام کا عملی نمونہ بنیں اور اصولِ اسلام کو عملی طور پر دنیا کے سامنے پیش کریں۔ مختلف اسلامی ممالک کے سفر کے دوران میں‘ میں نے محسوس کیا ہے کہ مسلم اکثریت کے ملکوں میں ضعفِ ایمان‘ بے عملی‘ پست ہمتی اور افتراق کا غلبہ ہے۔ اقلیت والے ملکوں میں مسلمان دینی تعلیمات کی پیروی اور عمل میں (جو قوت و ترقی کے اسباب ہیں) نسبتاً بڑھے ہوئے ہیں۔ اگر دنیا کے مختلف ملکوں کے مسلمان اپنے دین کی پیروی کریں اور ان کی سیرت پر اسلام کی عظمت کے آثار نمایاں ہوں تو یہ اسلام کی ایک عملی تبلیغ ہوگی جو غیر مسلم اقوام عالم کو اسلام کے اصولوں کا گرویدہ بنا دے گی۔
(’’برہان‘‘ دہلی بحوالہ ’’کشکول‘‘ از مفتی محمد شفیع صاحب)

حصہ