ہومیو پیتھک ادویات جسم میں قوت مدافعت کو بڑھاتی ہیں

1844

زندگی خوب صورت ہے اورتن درستی انمول عطیہ خداوندی۔ صحت ایک ایسی نعمت ہے جو زندگی کا حسن بڑھاتی اور جینے کا لطف دوبالا کرتی ہے۔ اس کے برعکس بیماری یا کمزور جسمانی و ذہنی حالت انسان سے زندگی کی امنگ اور جینے کی ترنگ ہی نہیں خوشیاں بھی چھین لیتی ہے۔ زندگی کا حسن ماند پڑ جاتا اور جینا دشوار لگتا ہے۔ اسی لیے تو کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ:
قدر قیمت مریض سے پوچھو
تندرستی ہزار نعمت ہے
آج ہمارا موضوع ہومیو پیتھک طریقۂ علاج ہے جسے دنیا کے بیشتر ممالک میں (بشمول بھارت) نہایت مؤثر و کامیاب ذریعہ علاج کے طور پر جانا اور مانا جاتا ہے۔ ہومیو پیتھک کیا ہے؟ اس طریقۂ علاج کی انفرادیت کیاہے؟ کیا ہومیو پیتھک ادویات کے کوئی ضمنی اثرات (Side Effects) ہوتے ہیں یا نہیں؟ پاکستان میں ہومیو پیتھی کو خاطرخواہ پذیرائی نہ ملنے کے اسباب و وجوہات کیاہیں؟ وغیرہ جیسے بے شمار دیگر سوالات/مفروضوں کا جواب جاننے کے لیے ہم نے رابطہ کیا ہومیو معالج ڈاکٹر محمد عثمان علی صاحب سے تاکہ وہ ہومیو پیتھک طریقہ علاج سے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں موجود تحفظات‘ خدشات‘ مفروضات کے جواب دے کر عوام الناس کے لیے علاج کی ایک بڑی سہولت کی جانب درست رہنمائی کریں۔
جسارت میگزین: ہومیو پیتھک طریقۂ علاج کا مختصر تعارف بیان کرتے ہوئے بتائیں کہ ہومیو پیتھک کیا ہے اور یہ ایلو پیتھک سے کیوں اور کیسے مختلف ہے؟
ڈاکٹر محمد عثمان علی: ہومیو پیتھی ایک مخصوص طریقۂ علاج‘ ایک سسٹم آف میڈیسن ہے۔ حال ہی میں WHO کی فہرست میں ہومیو پیتھی‘ ایلو پیتھک کے بعد دوسرے نمبر پر دنیا بھر میں مؤثر طریقہ علاج ہے۔
ہومیو پیتھک دراصل ایک علاج بالمثل ہے یعنی جیسی علامات کسی بیماری کی وجہ سے انسان میں پیدا ہوتی ہیں بالکل ایسی ہی علامات دوا کے ذریعے جسم میں پیدا کرکے ان کو رفع کیا جاتا ہے۔ ہومیو پیتھک اور ایلوپیتھک میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ہومیوپیتھی جسم میں قوتِ مدافعت کو بڑھاتی ہے یہ اس کا بنیادی پہلو ہے کہ ہومیو ادویات امیون سسٹم کو طاقتور بنا کر اس کے ذریعے شفا کے عمل کو مکمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جب کہ ایلوپیتھک میں فزیکل پیتھالوجی‘ بیماری اور اس کے نام کو فوکس کیا جاتا ہے۔ مریض اور اس کے محسوسات ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اور ہومیو پیتھی میں فرد/مریض کی انفرادیت کو خصوصی توجہ اور اہمیت دی جاتی ہے مثلاً ایک ہی جیسے درد کے مختلف مریضوں کی ذہنی و جسمانی حالت و کیفیت‘ محسوسات اور تکلیف کی شدت و نوعیت مختلف ہوتی ہے جسے مدنظر رکھ دوا کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
جسارت میگزین: عام تاثر یا خیال ہے کہ ایلو پیتھی کے برعکس ہومیو پیتھی سست طریقہ علاج ہے۔ اس میں ایمرجنسی کیسز کو ٹریٹ نہیں کیا جاسکتا؟ نزلے‘ بخار کی حد تک تو ٹھیک ہے پیچیدہ اور پرانے امراض کے علاج میں ناکام ہے؟
ڈاکٹر محمد عثمان علی: جی یہ محض ایک خیال اور تاثر ہی ہے‘ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ لوگوں میں اس تاثر کی دو بڑی وجوہات ہیں نمبر1 ہومیو پیتھک اور ہومیو پیتھی طریقہ علاج کی ہمارے ہاں اس طرح تشہیر نہیں ہوئی جیسی کہ ایلو پیتھک کی ہوتی ہے۔ دوسرا یہ کہ ہومیو پیتھی معالج کی اپنی ٹریننگ کی کچھ بنیادی کمزوریاں اور خامیاں بھی ہیں ہمارے شعبے میں مثلاً اگر معالج کیس کو اچھی طرح سمجھے گا نہیں تو اس کے باعث علاج میں کچھ تاخیر واقع ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد تیسرا اہم پہلو جو ہم نے دیکھا اس معاملے میں لوگوں کا اپنا کردار ہے۔ مگر یہ کردار اس پہلے والے تاثر کے زیر اثر ہوتا ہے کہ لوگ کسی ایمرجنسی کی صورت میں یا ابتدائی طور پر ایلو پیتھی کو اختیار کرتے ہیں اور خدانخواستہ جب وہاں سے علاج نہ ہو سکے تو مایوسی ہوتی ہے تو پھر ہومیو معالج سے رجوع کرتے ہیں اورعلاج شروع ہونے کے بعد انہیں ایک تجسس ہوتا ہے‘ جلدی ہوتی ہے کہ بس فوراً ہی ٹھیک ہو جائیں۔
لوگوں کے اس خیال/تاثر کے برعکس ہومیو پیتھک اتنا تیز اور پُراثر طریقۂ علاج ہے کہ متعدد مرتبہ ہم نے یہ دیکھا کہ دوا کا ایک قطرہ مریض کی زبان پر ٹپکانے کے بعد ایک منٹ کے اندر اندر اس کی کیفیت میں نمایاں تبدیلی رونما ہونا شروع ہو جاتی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہومیو پیتھک ہرگز سست طریقہ علاج نہیں ہے۔ ہومیو پیتھی میں ایمرجنسی کیسز کو بھی بالکل ٹریٹ کیا جاسکتا ہے مگرمسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں بنیادی انفراسٹرکچر کی کمی/کمزوری کے باعث پورے ملک میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر اسپتالوں میں الگ سے ہومیو پیتھی شعبہ اور ہومیو پیتھی ڈاکٹرز کے نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو یہ سہولت میسر ہی نہیں ہو پاتی کہ وہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں ہومیو پیتھک طریقۂ علاج اختیار کریں۔ اس میں ہومیو پیتھک کا کوئی قصور نہیں ہے۔ البتہ ایمرجنسی میں بھی ان کیسز کو ٹریٹ کیا جائے گا جن میں سرجری کی ضرورت نہ ہو کیوں کہ سرجری ایک بالکل الگ شعبہ ہے۔ ایلو پیتھی میں بھی سرجری الگ ہے مگر اسے ایلو پیتھی میں کامیابی سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہومیو پیتھی میں بھی سرجری کو اسی انداز میں اختیار کیا جاسکتا ہے اور ہومیو پیتھی ادویات سرجری سے پہلے‘ سرجری کے دوران اور سرجری کے بعد کامیابی سے استعمال کی جاسکتی ہیں مگر جیسا کہ میںنے ذکر کیا کہ مختلف وجوہات کی بنا پر آج تک ہمارے ہاں یہ ممکن نہیں ہو سکا۔
آپ کے سوال کا تیسرا حصہ بھی محض تاثر پر مبنی ہے کیوں کہ جو لوگ ہومیو طریقۂ علاج پر یقین رکھتے ہیں اور برسوں سے اس سے وابستہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ نزلے‘ زکام‘ کھانسی‘ بخار وغیرہ کو تو ہومیو پیتھک بہت جلد اور اچھے طریقیے سے ٹھیک کرتی ہی ہے پرانے‘ پیچیدہ امراض میں بھی جو ایلو پیتھی میں بعض اوقات لاعلاج قرار پاتے ہیں‘ مؤثر ہے۔ البتہ اس میں مرض کی شدت و نوعیت کے حساب سے کچھ زیادہ وقت درکار ہوتا ہے کیوں کہ اس سے پہلے مریض کا بہت سا وقت ضائع ہو چکا ہوتا ہے۔
جسارت میگزین: ایلو پیتھی کے برعکس ہومیو معالجین عموماً ٹیسٹ کروانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے‘ یہ بتایئے بغیر ٹیسٹ کروائے مرض کی درست تشخیص یا اس کی نوعیت کیسے پتا چل سکتی ہے؟
ڈاکٹر محمد عثمان علی: ایلوپیتھی طریقۂ علاج کی بنیاد چونکہ فزیکل پیتھالوجی ہے اس لیے وہ اس کو فوکس کرتا‘ اہمیت دیتا ہے اور پیتھالوجی کو چیک کرنے کے لیے جو سسٹم طریقہ کا رائج ہے وہ مختلف قسم کے ٹیسٹ ہیں جن کی مدد سے جسم کے کسی حصے/عضو میں مرض کی شدت و نوعیت کا پتا لگایا جاتاہے اس کے برعکس ہومیو پیتھی میں تشخص کا جو اس سے بہتر اور درست طریقہ موجود ہے وہ Symptomology یعنی علامات کے ذریعے تشخیص کرنا ہے‘ جب کوئی مریض کلینک میں آخر اپنی تکلیف کی علامات بتاتا ہے جس طرح سے اظہار کرتا ہے اور اس کی گفتگو سے معالج جو نتیجہ اخذ کرتا ہے ان دونوں کے ملاپ سے کیس کو سمجھ کر معالج درست دوا دینے میں کامیاب ہوتا ہے اور اس دوا سے مریض کی صحت بحال ہوتی ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہومیو پیتھی میں ٹیسٹ کروانے کو غلط سمجھا جاتا ہے یا ٹیسٹ کروانے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی یا مریض کی فزیکل پیتھالوجی کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جائے گی ایسا بالکل نہیں ہے بعض اوقات مرض کی شدت و نوعیت اور ضرورت یعنی مرض سے کسی عضو کوکس حد تک نقصان پہنچ چکا ہے اس کا پتا چلانے کے لیے ہومیو معالج بھی ٹیسٹ کرواتے ہیں۔
جسارت میگزین: عام لوگوں ہی میں نہیں ہومیو معالجین کی اکثریت میں بھی یہ خیال/تاثر پایا جاتا ہے کہ ہومیو ادویات کے کوئی ضمنی اثرات (Side Effects) نہیں ہوتے لہٰذا غلط دوا کے استعمال یا Over dose ہو جانے کی صورت میں کسی قسم کا نقصان نہیں ہوتا؟
ڈاکٹر محمد عثمان علی: نہیں جی یہ بالکل غلط تاثر ہے کیوں کہ ہومیو پیتھی ادویات بھی دوا ہیں اور ہر دوا اپنے کچھ اثرات رکھتی ہے یہ ضرور ہے کہ ہومیو پیتھی ادویات کی شدت مالیکیولر لیول پر بہت معتدل ہوتی ہے لہٰذا چند خوارک تک توجسم کا مدافعتی نظام اس کو برداشت کر لیتا ہے اور ابتدا میں (دوا کا درست انتخاب نہ ہونے کے باوجود) جسم/صحت کو زیادہ نقصان نہیں پہنچتا لیکن بار بار‘ مسلسل تکرار سے جسم ہی کو نہیں صحت اور زندگی کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے‘ جو ابتدا میں تو شاید محسوس نہ ہو مگر اس کے دوررس نتائج ہوت ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ہومیو ادویات کو بھی دوا سمجھ کر ہی لیا جائے بلاوجہ/بلا ضرورت یہ سوچ کر نہ لے لی جائے کہ اس کے کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہیں۔
جسارت میگزین: ماحول‘ رویے‘ غذائیں اور طرزِ زندگی کس حد تک علاج پر اثر انداز ہوتے یا ہوسکتے ہیں؟
ڈاکٹر محمد عثمان علی: ماحول‘ رویے‘ غذائیں اور طرزِ زندگی یہ چاروں چیزیں علاج میں تو معاون ہوتی ہی ہیں مگر کسی بھی بیماری کے پیدا ہونے کے باعث ذیادہ ہوتی ہیں کیوں کہ انسان جس ماحول میں رہتا ہے جو اس کے رویے ہوتے ہیں جو کھانے پینے کے طور طریقے ہوتے ہیں اعتدال میں یا بے اعتدالی کے ساتھ اور جو اس کا طرزِ زندگی ہے اگر یہ سب قدرت کے بنائے گئے نظام اور نیچر کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا مثلاً دن جاگتے اور کام کرنے کے لیے رات آرام کے لیے بنائی گئی ہے تو اگر انسان کے معمولات قدرت کے برعکس ہوں گے تو ان سے بے اعتدالیوں کے باعث پیدا ہونے والی بیماری سے انسان شفا تو پا لیتا ہے لیکن اگر اس مخصوص ماحول‘ انہی مخصوص رویوں کا سامنا دوبارہ کرے گا یا اسی ماحول اور طرزِ زندگی کو اختیار رکھے گا تو پھر صحت یاب ہونے کے بعد دوبارہ سے اس کے اندر وہی چیزیں پید اہو سکتی ہیں اور اسے علاج کے لیے دوبارہ یا بار بار جانا پڑ سکتا ہے۔
جسارت میگزین: آپ کیا سمجھتے ہیں لوگوں کی سوچ بدلنے کے لیے ہومیو معالجین کو پہلے خود میں اور طریقے میں کیسی تبدیلیاں اور اقدامات کی ضرورت ہے؟
ڈاکٹر محمد عثمان علی: لوگوں کی سوچ تو ہمیشہ نتائج کی مرہون منت ہوتی ہے جب کسی شخص کو ہومیو پیتھی علاج سے شفا ملے گی تو وہ اپنے گھر والوں‘ عزیز رشتے داروں کے لیے ہومیو پیتھی علاج کو ترجیح دے گا۔ دوسرا سوچ بدلنے کے لیے ہومیو معالجین کو اپنے علم میں اضافہ کرنا ہوگا‘ جدید ہومیو پیتھی ریسرچ جو اس شعبے میں روٹین لیول پر‘ ورلڈ لیول پر ہوتی رہتی ہیں اس سے آگاہ ہونے‘ اپنی معلومات کو بڑھانے‘ نئی ادویات‘ نئی بیماریوں سے متعلق اپنی معلومات کو بڑھانے اور اس ساری معلومات کو اَپ ڈیٹ کرکے لوگوں کو بہتر‘ جلد اور دیرپا علاج فراہم کرکے ان کی سوچ بدلنے میں اہم کردار ادا کیا جاسکتا ہے۔
اس کی علاوہ وقت پر ہومیو یتھک ادویات کی مناسب تشہیر بھی ضروری ہے۔ آئے دن ایلوپیتھک ان کی کمپنیز کی طرف سے الیکٹرانک‘ پرنٹ اور سوشل میڈیا پر سیمینارز بحث مباحث وغیرہ کے اہتمام سے لوگوں کی سوچ کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اگر یہی چیز ہومیو پیتھی آرگنائزیشنز ملکی سطح پر بھی گلوبل سطح پر بھی کریں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ ایک دوسرے سے تعاون کریں اور اس سلسلسے کو آگے بڑھائیں تو لوگوں کی سوچ کو بہتر طور پر تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے اور انہیں بہتر علاج بھی مہیا کیا جاسکتا ہے۔

حصہ