ایک استاد کا والدین کے نام پیغام

530

استاد بننے کے لیے آپ کے اندر صبر ہونا ضروری ہے، اور اگر آپ بچوں کے استاد ہیں تو صبر کا پہاڑ آپ کے اندر ہونا چاہیے۔ جی ہاں بچوں کو پڑھانا اتنا ہی مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ اس کے علاوہ جذباتی اور ذہنی لحاظ سے بھی آپ کا ذہین ہونا نہایت ضروری ہے، کیوں کہ آپ کو نہ صرف ناسمجھ اور جذباتی بچوں کو اس بات پر رضامند کرنا ہوتا ہے کہ وہ آپ کا کہا مانیں، بلکہ ان کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھیلنے اور پڑھنے کا سلیقہ بھی سکھانا ہوتا ہے۔ ان کو نئی نئی چیزیں سکھانا، دنیا کے بارے میں بتانا، سبق پڑھانا ایک الگ مرحلہ ہے۔ اس کے لیے آپ کے اندر اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کی خصوصیت ہونی چاہیے، جس کے ذریعے آپ بچوں کو کنٹرول میں رکھیں گے۔ اور بہت اچھا اندازِ بیاں، شیریں زباں ہونا بھی ضروری ہے، اور ظاہر ہے یہ سب ایک ساتھ کرنا دل گردے والوں کا کام ہے۔
اس کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ ایک استاد کی معاشرے میں وہ عزت نہیں ہوتی جو ہونی چاہیے، اور اس کا معاوضہ بھی کم ہوتا ہے۔ جو بھی اس پیشے یعنی استاد کے درجے پر زیادہ عرصے تک فائز رہے اس کو جذباتی سہارے کی ضرورت لازمی محسوس ہوتی ہے، اسی لیے اسلام نے استاد کو والدین کا درجہ عطا کیا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک ٹیچر نے جوکہ پری نرسری کے بچوںکو پڑھاتی تھیں، والدین کے نام پیغام بھیجا اور اپنا ٹیچنگ سے رشتہ توڑنے کی اصل وجوہات بتائیں جو کہ آج کل کے معاشرے میں ہر استاد کا مسئلہ ہے۔
ان استانی نے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں نے کم پیسے ملنے کی وجہ سے ٹیچنگ کو خیرباد کہا۔ لوگوں کے لیے یہ سمجھ لینا زیادہ آسان تھا کہ میں نے پیسوں کی وجہ سے پڑھانا چھوڑا، یا پھر مجھے کوئی اور مزید اچھی جاب مل گئی بہ نسبت اس کے کہ وہ اصل وجہ جانیں۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ اگر کوئی ایسا سوچتا ہے اور ایسا سوچنے سے اسے سکون مل رہا ہے تو اچھی بات ہے۔ مگر میں اُن لوگوں میں سے نہیں ہوں۔ میں لوگوں کو سمجھانا چاہتی ہوں کہ میری استانی جیسا مقدس پیشہ چھوڑنے کی اصل وجوہات کیا تھیں۔
آج کل کے زمانے میں بہت سے والدین کہتے ہیں کہ بچے سمجھ دار ہوگئے ہیں، تیز ہوگئے ہیں۔ مگر اصل میں ایسا نہیں ہے۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں، وہ معصوم اور پھول جیسے ہوتے ہیں۔ دراصل والدین بچوں کی تربیت اس طرح نہیں کرپاتے جس طرح کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ معاشرہ بھی تبدیل ہوگیا ہے۔ معاشرے کے منفی اثرات کا سب سے زیادہ اثر بچوں پر پڑتا ہے۔
ان کے مطابق آج کل کے والدین نوکری کرتے ہیں جس میں گھنٹوں ان کا پتا نہیں ہوتا۔ اور جب گھر پر موجود ہوتے ہیں تو اپنے ڈیوائس فونز، ٹی وی، موبائل پر لگے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے بچوں کی تربیت صحیح طور پر نہیں ہوپاتی۔ بچوں پر میڈیا کا اثر بہت زیادہ آجاتا ہے اور اس کے بعد بچے جب بدتمیز ہوجاتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ آج کے بچے تو بہت ہی تیز ہیں۔ ہم ان سے کیا توقع کریںگے جب ان کو سیکھنے کا صحیح ماحول ہی میسر نہ ہو! بچے اُس جگہ پر سب سے زیادہ شرارتیں کرتے ہیں جہاں وہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ وہ ماحول کو پرکھنے کا ہنر رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ کہاں ان کو شرارت پر محبت اور نرم دلی سے سمجھایا جائے گا، کہاں ان کو دل سے آداب سکھائے جائیں گے۔ اس لیے زیادہ تر بچے گھروں میں شرارت کرتے ہیں، غصہ کرتے ہیں، ضدی ہو جاتے ہیں۔ مگر ایسے بچے جو یہ سب اسکول میں کریں، غصے سے لڑ پڑیں، میزیں الٹ دیں، ان کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ یہی کہ ان کو گھر میں محفوظ ماحول نہیں مل رہا ہے، ان کو والدین سے وہ توجہ نہیں مل رہی جس کے وہ حق دار ہیں۔ دوسری طرف آج کل کے اسکول بھی اس بات پر زیادہ توجہ نہیں دیتے کہ بچے کو تمیز، طریقہ، معاشرے میں رہنے کے ادب آداب سکھائیں، اس کے بجائے وہ ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر چلانا سکھاتے ہیں۔ اس کا اسکول والوں کے پاس یہ جواب ہوتا ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں رہتے ہیں، بچوں کو ٹیکنالوجی میں ایک سے بڑھ کر ایک ہونا چاہیے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے رشتے سمجھنا بھول جاتے ہیں۔ وہ ادب آداب، محفل میں بات چیت کرنے کے طریقے، اٹھنا بیٹھنا کچھ نہیں سیکھ پاتے۔ ان کے اوپر ٹیکنالوجی کا بھوت لاد دیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ اسکول کی پروفائل کے لیے اچھا ہے۔
ان استانی کا کہنا ہے کہ ان سے ایک انٹرویو کے دوران پوچھا گیا کہ آپ ٹیکنالوجی استعمال کرلیتی ہیں؟ کیوں کہ یہ ہمارے لیے اہم ہے۔ یعنی ان کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ میں بچوں کے ساتھ کیسی ہوں، کیا میں بچوں کو سنبھال لیتی ہوں، کیا میں بچوں پر توجہ دے پائوں گی؟ بس ان کو ٹیکنالوجی سے دل چسپی ہے۔
استانی نے آگے بڑھتے ہوئے کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ بچوں کو ٹیکنالوجی بھی سکھانا اہم ہے، لیکن اس چکر میں دوسرے اہم مضامین کو یکسر نظرانداز کردیا جاتا ہے، اور زیادہ تر بچوںکا جب اچھا رزلٹ نہیں آپاتا تو اس کا ذمے دار بھی ٹیچر کو ٹھیرایا جاتا ہے، پھر ڈیمانڈ کی جاتی ہے کہ ٹیچرز کی ٹریننگ کی جائے۔ اس سال پری نرسری بچوں کے لیے حساب کا ایک ٹیسٹ رکھا گیا جس کے لیے ٹیچرز کی تین دفعہ کلاسیں لی گئیں۔ پھر وہی سبق بچوں کو سکھانے میں ٹیچرز کو تین ہفتے لگ گئے جو کہ یقینا ایک مشکل کام تھا اور معصوم بچوں پر بھی بوجھ تھا۔
انہوں نے ایک اور مسئلے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ آج کل کے والدین استاد کو پڑھانے والا نہیں سمجھتے، بلکہ اپنے آپ کو ایک گاہک کی طرح سمجھتے ہیں کہ وہ پیسے دے کر بچوں کے لیے تعلیم خرید رہے ہیں، اور اسی لیے وہ سمجھتے ہیں کہ استاد اُن کا ہر کہنا مانے گا بجائے اس کہ وہ شکر گزار ہوں کہ ان کے بچوں کو تعلیم جیسی نعمت عطا کررہے ہیں، اور ایک استاد کو پارٹنر والا درجہ دیں کہ وہ ان کے بچوں کی تربیت میں ان کا اتنا ہی ہاتھ بٹا رہا ہے جتنا وہ خود، یا پھر اس سے بھی کہیں زیادہ۔ مگر والدین استاد کو عزت نہیں دے پاتے۔
اب استانی کا کہنا تھا: اس دو طرفہ دبائو کی وجہ سے ان کی ذہنی اور جسمانی صحت متاثر ہورہی تھی، وہ جانتی تھیں کہ بچوں کو توجہ چاہیے جو کہ ان کو مل نہیں پا رہی، اور جب اپنی پریشانی کا اظہار اسکول کی انتظامیہ سے کرو تو جواب ملتا کہ بچوں کے لیے اپنا سکون برباد نہ کریں۔ جب آپ بچوں سے محبت رکھتے ہیں، ان کو پڑھانا لکھانا ایک جذبے کے تحت کرتے ہیں تو یہ باتیں برداشت نہیں ہو پاتیں۔ دیکھا نہیں جاتا کہ بچے گندے، میلے کپڑوں میں اسکول آرہے ہیں، کیوں کہ ان کے گھر کا ماحول ٹھیک نہیں ہے، اور آپ جانتے ہیں کہ آپ ان بچوں کو وہ توجہ نہیں دے پائیں گے جو والدین کی طرف سے ملتی ہے۔ کم توجہ، پڑھائی کا دبائو بچوں کی شخصیت پر اثرانداز ہوتا ہے، اور اس کے ساتھ ہماری جیسی ٹیچرز کو بھی ڈسٹرب کردیتا ہے، ہم اتنے پریشان ہوجاتے ہیں کہ ہمارا ذہن کام میں نہیں لگ پاتا، ہم غصہ کرنے لگتے ہیں، برداشت کم ہوجاتی ہے، جس کا اثر ہماری فیملی پر بھی پڑتا ہے۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ پڑھانا چھوڑ دوں، کیوں اس سے میری ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے۔ اور اپنے گھر میں اپنے بچوں کی اچھی ماں بنوں، اچھی استانی بنوں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب آپ خود ذہنی طور پر پریشان ہوں تو کسی کی مدد نہیں کرسکتے۔ اگر آپ کا ذہن ایک نقطے پر مرکوز نہیں ہوپاتا تو آپ بچوں کی پوری کلاس پر کیسے توجہ دے پائیں گے! اس وجہ سے انہوں نے اپنا ریٹائرمنٹ فنڈ چھوڑا، اپنی پیڈ چھٹیاں چھوڑیں، اور فیصلہ کیا کہ وہ ایک بچے سے شروع کریں گی وہ بچہ جو اُن کے گھر پر ہے، اور دوسری خواتین کو بھی سمجھائیں گی کہ وہ گھر پر اپنے بچوں پر توجہ دیں، کیوں کہ ان کا ماننا ہے کہ اگر گھر پُرسکون ہو تو سب اچھا ہوتا ہے۔

حصہ