چراغ

198

گلناز کے والدین وفات پا چکے تھے، وہ اپنے بھائی مسرور صدیقی اور بھابھی کے ساتھ رہائش پذیر تھی۔ گھر کے کام کاج کے بعد کتابوں کی ہمراہی میں دن گزار رہی تھی۔ چھوٹے بھتیجے اور دونوں بھتیجیوں میں گویا گلناز کی جان تھی۔ اس کے علاوہ وہ اپنے اسکول کی بہترین ٹیچر مانی جاتی تھی۔ کچھ دنوں بعد اس کی شادی ہوگئی۔
وقت پَر لگاکر اُڑ رہا تھا۔ گلناز خود تین بچوں کی ماں بن گئی تھی۔ وقت بڑی چالیں چلتا ہے، اس کی قسمت نے پلٹا کھایا اور گلناز شوہر کی وفات کے بعد ایک بار پھر اکیلے ہی اپنی ذمہ داریوں سے نبرد آزما تھی، مگر گلناز کے بیٹے اور دونوں بیٹیوں میں اس کی بہترین تربیت کے اوصاف نمایاں تھے۔ مسرور بھائی اور بھابھی اس کے ہر کڑے وقت میں ساتھ ساتھ رہے۔
’’امی، امی…! ماموں کے ہاں مہندی میں جانے سے آپ نے انکار کیوں کردیا؟‘‘ چھوٹی بیٹی سوہا گلناز سے سوال کررہی تھی۔
’’سب کیا کہیں گے، آپ ایک ہی تو پھوپھی ہیں، ماموں اور ممانی نے ہمیشہ ہم لوگوں کا خیال رکھا، اور اب جب کہ کورونا کی وجہ سے زیادہ بڑی تقریب نہیں کررہے ہیں تو آپ نے شرکت سے معذرت کرلی، میں تو ضرور جائوں گی۔‘‘ سوہا نے ضد کرتے ہوئے کہا۔
’’نہیں میری پیاری بیٹی!‘‘ گلناز نے اسے پیار سے اپنے پاس بٹھاتے ہوتے سمجھایا ’’آپ کو علم نہیں یہ مایوں، مہندی سب ہمارے مذہب میں ممنوع ہیں،یہ ہندوانہ رسمیں ہیں۔‘‘
’’تو کیا ہوا؟‘‘ سوہا نے تنک کر جواب دیا۔ ’’خاندان کی سب لڑکیاں اور لڑکے اتنی تیاریاں کررہے ہیں، آپ نے نہ تو ہم دونوں کے کپڑے بنوائے اور نہ ہی کسی دن ڈھولکی میں جانے دیا، امی پلیز چلیں نا۔‘‘
’’کیا مسئلہ ہے سوہا؟ بے کار کی ضد نہ کرو، امی ٹھیک کہہ رہی ہیں‘‘۔ بڑی بہن سویرا نے سوہا کو سمجھایا۔
امی بولیں: ’’دیکھو بیٹا! تم کو اتنا تو علم ہے کہ ہر کام اللہ کی رضا کے لیے کرتے ہیں، اور مہندی جیسی تقریب جس میں ناچ گانا اور نہ جانے کیا کیا خرافات ہوں گی، اس محفل میں اگر ہم نے شرکت کی تو اللہ کے ہاں ہمارا نام بھی ان فضول کام کرنے والوں میں شامل ہوجائے گا، تمہاری ساری کزنز لڑکوں کے ساتھ ڈانس کریں گی اور کیمرہ و مووی والے نہ جانے کس کس زاویے سے تصاویر لیں گے، میں تم دونوں کو ہرگز اُس محفل کا حصہ نہیں بننے دوں گی۔ اللہ تعالیٰ خود پردے میں ہے اور اس نے اپنی بندیوں کو پردے میں رہنے کا حکم دیا ہے۔ سورہ نور، سورہ نساء اور سورہ احزاب میں عورتوں کے لیے خصوصی احکامات ہیں۔‘‘
سویرا بولی: ’’جی امی! عورت تو ویسے بھی چراغِ خانہ ہے، اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرتی ہے۔ وہ شمع محفل نہیں کہ بن سنور کر نامحرموں کے ساتھ سب کا دل بہلائے۔‘‘
اب سوہا کی سمجھ میں آگیا تھا کہ ہر انسان برائی میں کشش محسوس کرتا ہے اور انسان ہونے کے ناتے کسی نہ کسی غلطی کا مرتکب ہوسکتا ہے۔ اسے کتاب میں پڑھی ہوئی بہترین تحریر یاد آگئی کہ ’’عورت صنفِ نازک ہے اور فطری طور پر اللہ نے عورت کو شرم و حیا کا زیور عطا فرمایا ہے۔‘‘
سوہا نے امی اور سویرا سے معذرت کی۔ اب اسے نماز پڑھ کر اللہ کا شکر ادا کرنا تھا جس نے اسے راہِ ہدایت دکھائی۔ ورنہ شیطان نے گمراہ کرنے کی ٹھان لی تھی۔ اس کے علاوہ سوہا اپنی ماںاور پیاری بہن کی بھی دل سے شکر گزار تھی جنہوں نے اسے اچھی باتیں بتائیں۔ یہ سوہا کے لیے آزمائش کا وقت بھی تھا، اور آزمائش پر ہی بندے کو تولا جاتا ہے۔ جو آزمائش پر پورا اترتے ہیں اُن کے لیے رب کے ہاں بڑے رتبے ہیں۔

حصہ