دینی تعلیمات راہ ہدایت

195

آج جس طرف نظر دوڑائیں ،تو ہر ایک دنیاوی علوم کے حصول کے لیے سرگرداں و پریشان نظر آتا ہے۔ بے شک دنیاوی علوم بندے کی دنیا سنوارنے کا سامان ہے اور زندگی کی خوشیاں سمیٹنے اور معاشی طور پر مستحکم ہونے کا بھی ذریعہ ہے جس کی افادیت سے انکار نہیں، لیکن دینی علوم کا حصول انتہائی لازمی ہے کیوں کہ دینی علوم کا حاصل کرنا اس سے آگہی حاصل کرنا اور عمل پیرا ہونا بندے کی دنیاوی زندگی کے ساتھ ساتھ آخرت کو سنوارنے کا موجب بھی ہے۔ دین اسلام جو مکمل ضابطہ حیات ہے اس کی تعلیمات سے آگہی اور پھر اسے اپنی زندگی میں شامل کرنا یا اس کے مطابق اپنی ذات کو ڈھال لینا دنیا کے ساتھ آخرت کی کامیابی ہے لیکن بدقسمتی سے آج عوام الناس کی ایک بڑی تعداد اس سے غافل ہے جس محنت سے دنیاوی علم کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اس کا ایک حصہ بھی اگر اسلامی تعلیمات کو حاصل کرنے اور عمل کرنے میں صرف کریں تو دنیاوی مشکلات و پریشانیوں سے بھی محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ بار بار آپؐ نے دین کے علم کے حصول پر زور دیا ہے۔ حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا ’’طلب علم (دین کا) ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘ (ابن ماجہ)۔
یہاں آپؐ نے عورت و مرد دونوں کے لیے علم حاصل کرنا فرض بتایا ہے۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ علم کے معنی ’جاننے‘‘ کے ہیں، لہٰذا دین اسلام کی تعلیمات کو جاننا ہر مسلمان پر فرض ہے اس حدیث مبارکہ سے علم حاصل کرنے کی اہمیت واضح ہے، دین کا علم سیکھنا اور سکھانا فضیلت کا موجب ہے اور ثواب حاصل کرنے کا موجب بھی ہے۔ حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں کہ مجھے میرے نبیؐ نے فرمایا اگر تم کہیں جا کر قرآن کی ایک آیت سیکھ لو تو یہ تمہارے لیے سو رکعت (نفل) پڑھنے سے بہتر ہے اور اگر تم کہیں جا کر علم (دین) کا ایک مضمون سیکھ لو خواہ اس پر عمل ہو یا نہ ہو تو یہ تمہارے لیے ہزار رکعت (نفل) پڑھنے سے بہتر ہے (ترغیب) ایک روایت میری نظروں کے سامنے آئی کہ آپؐ ایک مرتبہ مسجد میں داخل ہوئے تو کچھ لوگ نفل نماز ادا کررہے تھے کچھ آپس میں باتیں کررہے تھے ایک جگہ چند افراد دین کا علم سیکھ رہے تھے۔ آپؐ نے دین کا علم سیکھنے والوں کے ساتھ بیٹھنا پسند فرمایا (مفہوم روایت) بے شک علم سیکھنے اور ایسی محفلوں میں بیٹھنے والوں کو کہیں نہ کہیں آگے چل کر ضرور عمل کرنے کی توفیق بھی حاصل ہوجاتی ہے، اسی لیے اس کے سیکھنے پر بھی نوافل کی ادائیگی جیسا ثواب فرمایا گیا ہے اور یہ حقیقت ہے علم سیکھنا اور پھر اس پر عمل کرنا اس علم کو پھر دوسروں تک پہنچانے کی بڑی فضیلت اور اہمیت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ میرے نبیؐ نے فرمایا ہے (حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں) کہ سب سے افضل صدقہ یہ ہے کہ کوئی مسلمان آدمی علم دین کی بات سیکھے پھر اپنے مسلمان بھائی کو سکھائے (ابن ماجہ) سبحان اللہ۔اس روایت سے سیکھنے اور سکھانے دونوں کی اہمیت واضح ہے۔ اسی لیے اسے افضل صدقہ سےکہاگیا ہے۔ نہ صرف اپنی اولاد اور اہل خانہ کو دین کا علم پہنچانا ضروری ہے بلکہ آس پاس، اہل محلہ، عزیز واقارب تک دین کا علم پہنچانا بے حد ضروری ہے یہ ایسی نیکی ہے جو انسان کے مرنے کے بعد اس کے لیے صدقہ جاریہ ہوگی، ثواب حاصل کرنے کا ذریعہ بنے گی۔ خصوصاً والدین کے لیے ایسی اولاد جسے والدین دینی تعلیم سے آشنا کرائیں اور وہ اولاد ان تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اپنی زندگی گزارے تو اس کا اجر و ثواب اس کے والدین کو بھی پہنچے گا اسی لیے آج کے اس فتنہ انگیز دور میں جب کہ چاروں طرف شیطانی و طاغوتی قوتیں سرگرم عمل ہیں، دینی تعلیم کے حصول کا خاص اہتمام کرنا بے حد لازمی ہے۔ اس سے غفلت برتنا اپنی اور آنے والی نسلوں کی بربادی کے مترادف ہے۔ دین کے علم اور قرآن سے ناآشنائی کی مثال ایسی ہے جیسے کورا کاغذ ہو۔ مجھے یہاں اپنے استاد محترم کا واقعہ یاد آرہا ہے جو انہوں ںے ہم سے شیئر کیا تھا کہ نوجوانی میں جب میں دین کے علم سے نابلد تھا میری زندگی سمجھو کہ آوارگی کی تھی بغیر مقصد اِدھر سے اُدھر گھومنا پھرنا پھر اللہ ربّ العزت نے مجھ پر خاص کرم کیا اور میں نے اسلامی تعلیمات حاصل کیں۔ اللہ نے مجھ پر خاص کرم کیا اور میری زندگی پلٹ گئی مجھے زندگی کا اصل مقصد حاصل ہوگیا۔ یہی بات میں نے مولانا طارق جمیل صاحب کے بارے میں بھی پڑھی کہ کس طرح رب العالمین نے ان کی زندگی کو اصل رُخ کی طرف پلٹا جو رجوع الٰہی کا باعث بنا۔
بے شک دین کا علم اور قرآنی تعلیمات بندے کی دنیا و آخرت کو سنوار دیتے ہیں۔ بے شک ابتداء میں ایک دم فردمیں تبدیلی نہ آئے لیکن آہستہ آہستہ وہ اپنے آپ کو ان علوم کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔ اسی لیے آپؐ نے بار بار قرآن پاک اور اس کی تعلیمات کو سیکھنے پر زور دیا ہے۔ ہماری زندگی کا مقصد اپنے رب کی بندگی ہے، اس بندگی کی معراج پر پہنچنے کے لیے قرآن اور تعلیمات اسلامی تک بندے کا پہنچنا لازمی ہے، بہترین بندہ وہ ہے جو اپنے رب کی طرف رجوع کرے، اپنے تمام معاملات میں اس کے احکامات کی پیروی کرے، اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے، اس کے رسولؐ کی سنت کو اپنائے۔ یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے جب بندہ اس در پر پہنچے اور اس دروازے کو کھولے جہاں سے اسے آگہی حاصل ہو۔ ایسی آگہی جس کی وجہ سے اس کی دنیا بھی سنور جائے۔ بے شک انسان کا دنیاوی علوم سے بھی سرفراز ہونا ضروری ہے۔ لیکن دینی علوم و قرآن پاک کی تعلیم سے اپنے آپ کو محروم رکھنا اپنے آپ سے بڑی دشمنی کے مترادف ہے۔
بخاری شریف کی حدیث مبارکہ ہے کہ ’’تم میں اچھا وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے‘‘۔ سبحان اللہ
اسی طرح آپؐ نے قرآن کو سیکھنے اور پڑھنے کی فضیلت کو اس طرح واضح فرمایا ہے۔ کہ آپؐ نے فرمایا جس کا قرآن (پڑھنے میں) صاف ہو وہ (بززخ میں) فرشتوں کے ساتھ ہوگا جو (فرشتے) بندوں کے اعمال لکھے، عزت والے، پانی والے ہیں اور جو شخص قرآن پڑھنے میں اٹکتا ہے اور وہ مشکل لگتا ہے اس کو دو ثواب ملیں گے (بخاری مسلم)
سبحان اللہ میرا رب بندے کی کوشش کو بھی پسند فرماتا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی فرماتا ہے کہ وہ کوشش تو کررہا ہے، گرچہ تکلیف کے ساتھ ہورہی ہے اور اجر بھی دُگنا (سبحان اللہ) صرف اس لیے کہ بندہ اپنے رب کی بندگی کے لیے کوشاں ہے۔ پھر پڑھنے، سیکھنے اور اس پر عمل کرنا اس کے اجر و ثواب کی تو انتہا ہے نہ صرف اس بندے کے لیے بلکہ اس کے والدین کے لیے بھی ماشاء اللہ۔
حضرت معاذؓ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا ’’جس نے قرآن پڑھا اور اس کے احکام پر عمل کیا اس کے والدین کو قیامت کے دن ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی آفتاب کی روشنی سے بھی زیادہ حسین ہوگی جو دنیا کے گھروں میں اس حالت میں ہو کہ آفتاب تمہارے پاس آجائے پھر اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جس نے خود یہ کام کیا ہو‘‘ (ابودائود) سبحان اللہ میں مضمون کے سلسلے میں جب ان احادیث کا مطالعہ کر رہی تھی تو مجھے بڑا رشک آرہا تھا۔ ان لوگوں پر جو قرآن پاک اور اس کی تعلیمات حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں لہٰذا میں تمام پڑھنے والوں سے کہوں گی کہ کسی عمر میں کہیں بھی کوئی ایسا موقع ملے کہ علوم دین حاصل کرنے کا راستہ نظر آئے تو پیچھے نہ ہٹیں۔ اس قطار میں اپنے آپ کو بھی شامل کرلیں کچھ نہ کچھ ہی سہی حاصل کرلیں چند آیات ہی یاد کرلیں جس سے اپنے دل کے ویران گھر کو آباد کرسکیں۔
جیسا کہ اللہ کے نبیؐ نے فرمایا کہ ’’جس کے سینے میں قرآن سے کچھ بھی نہ ہو وہ اجاڑ گھر کی مانند ہے (ترمذی شریف)
اللہ رب العزت ہم سب کو اسلامی تعلیمات و قرآن کو سیکھنے اور سکھانے کی توفیق عطا فرمائے اور خصوصاً اپنی اولاد کو دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم کی طرف راغب کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہماری اور آنے والی نسلوں کی دنیا و آخرت سنور سکے۔ (آمین ثم آمین یا رب العالمین)
بے شک دین اسلام ایک نور ہے اور اس کے علم کی روشنی میں انسان اللہ کی طرف رجوع کرنے کے راستے پالیتا ہے۔ یہ علم کی روشنی بندے کی رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ دنیاوی آسودگی اور آخرت کی آسودگی اس نور یعنی دین کے علم میں پوشیدہ ہے۔ لہٰذا اسکول سے یونیورسٹی تک میں دینی علوم کو لازمی شامل کیا جائے، چاہے طالب علم کسی بھی شعبہ تعلیم سے منسلک ہو اسے دینی علوم تک رسائی دینا اسلامی حکومت کا فرض بھی ہے جس سے کوتاہی برتنا سخت نقصان دہ ہے۔
اللہ رب العزت ہم سب کو علم کے حصول اور اس کےفروغ دینے والوں میں شامل فرمائے تا کہ ہم اپنے دنیاوی معاملات کو اچھے طریقے سےانجام دیں اور آخرت کے عذاب سے بھی اپنے آپ کو بچاسکیں۔

حصہ