بچو ں  کے خلاف جنسی جرائم اسبا ب اور سدباب

529

ہمارے اور آپ کے بچےسوشل میڈیااورموبائل کے دور میں بڑےخطرے میں گھرے ہوئے ہیں.بے راہ روی نے مغربی معاشرے کو بے شمار خباثتیں تحفے میں دی ہیں اور اس بے لگام جنسی آزادی کے نتائج اُن کے سامنے ہیں۔اب ہمارے یہاں بھی وہ چیزیں ہورہی ہیں جن کا معاشرتی بگاڑ کی راہیں ہموار کرنے میں کلیدی کردار ہے۔ پاکستانی معاشرے میں جہاں سیاسی اور معاشی مسائل موجود ہیں، وہیں بڑھتا ہوا اخلاقی انحطاط ہمارے لیے بڑا چیلنج بنتا جارہا ہے۔ جنسی اخلاقی جرائم مغربی دنیا کے لیے تو زیادہ تعجب کا باعث نہ تھے، مگر ہمارے معاشرے میں ان مکروہ افعال کی وجہ سے معاشرتی تنزلی عیاں ہوتی جارہی ہے۔ عام آدمی تو کجا، مذہبی ذہن رکھنے والا بھی محفوظ نہیں۔ یہ مغربی تہذیب اور جدیدیت کے اثرات کا شاخسانہ ہے معروف صوفی، ادیب اور فلسفہ جدید پر گہری نظر رکھنے والے دانشور احمد جاوید نے اس حوالے سے کہا تھا کہ ’’جدیدیت ہمارے مذہبی حلیے کو برقرار رکھتے ہوئے ہمیں اندر سے ماڈرنائز کرچکی ہے‘‘۔ احساسِ زیاں کا بھی شعور ختم ہوتا جارہا ہے۔ جدیدیت کی مصنوعی دنیا میں بے لگام ٹیلی ویژن اور اس کے بعد اب آزاد اور کسی اخلاقی ضابطے کی پابندی کے بغیر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا وہ تباہی مچارہے ہیں جس کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر یہی صورت حال رہی تو پاکستان کا مستقبل خطرے میں ہے۔ہرروز ٹی اسکرین پرجنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں جبکہ ان واقعات کی بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو رپورٹ نہیں کی جاتی ہے۔17جون ،2021کی خبر کے مطابق بنو میں دو افراد نے بچے کو ذیادتی کا نشانہ بنایا اور اس کے بعد اس کے والد سے 70ہزار روپئے مانگے اور نہ دینے پر ویڈیو وائرل کرنے کی دھمکی دی یہ صرف ایک واقعہ ہے .اس سے قبل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بچوں کو نازیبا ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کر کے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے ایک گروہ کا انکشاف ہوا تھا جس کا سرغنہ مبینہ طور پرایک پولیس اہلکار نکلا تھا جس میں ملزم پہلے چپس اور کولڈ ڈرنک پلا کر دوستی کرتا تھا۔
غیر سرکاری تنظیم ساحل کی جانب سے ’کروئیل نمبرز 2020‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی تحقیق میں پاکستان کے چاروں صوبوں میں بچوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2020 کے 12 ماہ میں ملک میں بچوں کے خلاف ہونے والے مخلتف نوعیت کے جرائم کی رپورٹ شدہ تعداد 2960 تھی جو کہ 2019 کے اعداد و شمار کے مقابلے میں چار فیصد زیادہ ہے۔
رواں سال ہی ضلع گجرات کی رہائشی ذہنی معذور لڑکی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ، پولیس نے لڑکی کے اہلخانہ کی درخواست پر مقدمہ درج کرکے ملزم کو گرفتار بھی کیا اسی طرح کراچی میں لڑکیوں سے جنسی زیادتی کے 6ملزمان پکڑے گئے لیکن ہوتا یہ ہے کہ یہ لوگ اتنے طاقت ور نیٹ ورک سے منسلک ہوتے ہیں کسی نہ کسی طرح کچھ عرصے بعد رہا ہوجاتے ہیں ۔
معاصر انگریزی اخبار ڈان کی اردو ویب سائٹ نےماضِی میں ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی جس کے مطابق بچوں سے زیادتی کو دنیا بھر میں اہم مسئلہ مانا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت سمیت ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ خطوں میں بھی بچے مکمل طور پر محفوظ نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ایک کروڑ 50 لاکھ 15سے 19 برس کی لڑکیوں کو ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایشیا میں 10 لاکھ سے زیادہ بچوں کو جنسی طور پر ہراساں یا زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جسم فروشی ایک ایسا ناسور ہے جو غربت کے شکار علاقوں میں بچوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ بچوں کا بہت بڑی تعداد میں لاوارث ہونا ہے جنہیں ’’اسٹریٹ چائلڈ ‘‘ کہتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ملکوں کے بچے بھی اس ناسور کا شکار ہیں۔ دنیا بھر میں سالانہ ایک لاکھ 70 ہزار بچے سیکس ٹریڈ میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ بچے لاوارث (اسٹریٹ چائلڈ) ہوتے ہیں۔ بنگلہ دیش اور بھارت میں بھی سیکس ٹریڈ میں ملوث بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ بہت سے بچے دوسرے بچوں کے لیے عصمت فروشی کی ترغیب کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ یہ گھناونا کام صرف انفرادی بگاڑ اور ہوس کے نتیجے میں نہیں ہورہے بلکہ معاملہ اس سے بہت آگے بڑھ گیا ہے اور اب یہ کام پیسے کمانے کے لیے ہورہا ہے ،پوری دنیا میں ایک انڈسٹری بن گئی ہے ۔
پاکستان میں بھی اس وقت جسم فروشی کا منظم کاروبار ہورہا ہے یہاں تک کے اس کاروبار میں بچوں کو بھی استعمال کیا جارہا ہے۔لاکھوں بگاڑ فحاشی پھیلانے والی ویب سائیٹس اب بھی موجود ہیں جب کہ کئی لاکھ ماضی میں بند بھی کی گئی ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ ان واقعات میں تیزی سے اضافے کا سبب کیا ہے ؟اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ چائلڈ پورنو گرافی کی صنعت ہر روز ترقی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ اربوں ڈالر کی پورنو گرافی کی صنعت میں چائلڈ پورنوگرافی کا حصہ 100 ارب ڈالر سالانہ (100 کھرب روپے سے زائد) سے زیادہ لگایا جاتا ہے۔ فحش فلمیں بنانا (پورنوگرافی) امریکاسمیت کئی ممالک میں قانونی ہے، لیکن چائلڈ پورنو گرافی کی کسی بھی ملک میں اجازت نہیں، اس کے خلاف بھرپور اقدامات بھی بعض اوقات نظر آتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بدقسمتی سے چائلڈ پورنو گرافی دنیا بھر میں فروغ پا رہی ہے۔کئی ممالک میں انٹرنیٹ پر بچوں کے ساتھ ہر طرح کی زیادتی کا مواد آزادانہ طور پر موجود ہے، ان میں تمام خطوں کے ممالک شامل ہیں۔ ہمارے پڑوسی ہندوستان میںمیں تو کورونا لاک ڈائون کے دوران چائلڈ پورنوگرافک میٹریل کی ڈیمانڈ میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہےانڈین چائلڈ پروٹیکشن فنڈ (ICPF) کے مطابق پورن حب جیسی سائٹس پر بھارتی صارفین کی ٹریفک میں 95 فیصد اضافے ہوا ، جن کا محور چائلڈ پونوگرافی تھی ۔آئی سی پی ایف کے مطابق گھروں تک محدود انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بچوں کے لیے ایسے منفی رجحانات رکھنے والے افراد کی موجودگی بڑا خطرہ ہے، لاکھوں پیڈو فیلز کی آن لائن موجودگی کی وجہ سے انٹرنیٹ بچوں کے لئے انتہائی غیر محفوظ ہوگیا ہے۔
پورنوگرافی کا زیادہ تر مواد مشرقی یورپ میں فلمایا جاتا ہے اور برطانیہ میں ویب پر ڈالا جاتا ہے، جبکہ ویب سائٹس روس کی ہوتی ہیں اور اس کا ہوسٹ آسٹریا، امریکا یا روس کا کوئی سرور ہوتا ہے۔ تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ ڈائون لوڈ کی کم سے کم قیمت 89 ڈالر ہوتی ہے، 24 گھنٹے کے اندر 8000 سے زیادہ کلک وصول کرنے والی ویڈیوز کو ویب سائٹس 48 گھنٹے کے اندر بند کردیتی ہیں۔ تفتیش کاروں نے اپنی تحقیق میں مزید انکشاف کیا کہ پورنو گرافی کے مواد کا 51 فیصد حصہ امریکا، جب کہ 20 فیصد روس سے حاصل کیا جاتا ہے۔
ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق چائلڈ پورنوگرافی کے لیے تیسری دنیا کے ممالک کو ترجیح دی جانے لگی ہے۔ ان میں نیپال، بنگلہ دیش، بھارت، افغانستان اور پاکستان سمیت کئی ممالک شامل ہیں۔ چائلڈ پورنوگرافی کے نیٹ ورک مبینہ طور پر پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ سرگودھا میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے کارروائی کرتے ہوئے ایک شخص کو گرفتار کیا تھا، جو چند بچوں کو ناروے لے کر جا رہا تھا۔ یہ شخص چائلڈ پورنو گرافی میں ملوث تھا۔ ڈان اخبار کے مطابق اس شخص کے قبضے سے 65000 وڈیو کلپس اور تصاویر برآمد ہوئی تھیں۔اسی طرح فروری کے مہینے میں ایکسپریس نیوزکے مطابق ایف آئی اے سائبرکرائم سرکل نے چائلڈ پورن گرافی کے کاروبار سے منسلک ملزم کومتاثرہ بچے کی نشان دہی پرایک اہم ہاؤسنگ سوسائٹی سے چھاپہ مارکر گرفتارکیا اورملزم کے قبضے سے سینکڑوں کی تعداد میں بچوں کی نازیبا تصاویراورویڈیوزکلپ برآمد کیے تھے۔
کسی بھی قسم کی جنسی زیادتی کے حوالے سے بچے مجرموں کا ایک آسان شکار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال بچوں کے ریپ، اور ریپ کے بعد قتل کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ پاکستان میںزیادتی کا شکار ہونے والے زیادہ تر بچوں کی عمر اوسطاً 5 سے 11 سال ہوتی ہے۔اس گندے کھیل سے وابستہ لوگ بچوں کو بہلا پھسلا کر نہ صرف چائلڈ پورنوگرافی اور غلط تصاویر لیتے ہیں، بچوں سے معلوم کرتے ہیں کہ اں کی رہائش کہاں ہے ،والدین گھر میں موجود ہیں یا نہیں اور اس سے متعلق کئِ قسم کی معلومات معصوم بچوں سے حاصل کرلیتے ہیں۔
بچوں سے زیادتی کرنے والوں کی نفسیات کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ امریکا کی دی نیویارک سوسائٹی فارچائلڈ ابیوز کی ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر ہیلتھ اینڈ مینٹل ہائی جین ڈاکٹر میری ایل کہتی ہیں کہ بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والوں کی نفسیات کو حتمی طور پر بیان کرنا مشکل ہے، ایک جنسی حملہ آور کسی بھی وجہ سے متحرک ہوسکتا ہے، اس کی بایولوجیکل وجوہات بھی ہوتی ہے، حملہ آور کی نفسیات منتشر ہوتی ہے، اسے بچوں کے چہرے متوجہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر میری ایل مزید بتاتی ہیں کہ جنسی حملے کا شکار بھی کسی دوسرے بچے کو شکار بنا سکتا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پورن ویڈیوز دیکھنا بھی اس جانب متوجہ کرسکتا ہے۔ وہ دیگر وجوہات بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ نشے کا شکار افراد، معاشرے کے دھتکارے ہوئے لوگ انتقاماً اس چیز میں ملوث ہوسکتے ہیں، لیکن ان سب چیزوں کے باوجود آپ کسی ایک بھی وجہ کو اہم یا بنیادی وجہ نہیں کہہ سکتے۔ چائلڈ پورنو گرافی میں ملوث افراد بھی بچوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں، عمومی طور پر یہ لوگ مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور بچے کے کسی واقف کار کو اُکسا کر اس کام پر لگا دیتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ مغرب کے اس تحفے سے بچنے کا علاج کیا ہے؟ جنسی تعلیم کو اس مسئلے کا حل قرار دیا جارہا ہے۔ یہ علاج ہے یا جرائم کے اصل سبب سے فرار کا راستہ؟کیونکہ امریکا سمیت مغرب میں جہاں جنسی تعلیم دی جاتی ہے، وہاں بھی بہت خوفناک صورت حال ۔ جہاں یہ تعلیم ہے، وہاں بچوںکا زیادہ استحصال ہے۔وزیراعظم عمران خان ٹیلی فون کے ذریعے عوام کے سوالات کے جوابات دیتے ہیں اندرون سندھ سے ایک شہری نے وزیراعظم سے سوال کیا کہ آئے روز بچوں اور بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہورہے ہیں، آپ کی حکومت نے کونسا قانون بنایا اور ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں لیکن آج تک کسی کو سرعام پھانسی ملتی نہیں دیکھی۔ اس پر وزیراعظم نے بتایاکہ زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے لئے سخت آرڈننس لائے ہیں لیکن صرف آرڈننس اکیلا کافی نہیں ، معاشرے کو بھی ذمہ داری نبھانی چاہیے ، فیملی سسٹم کو بچانے کے لئے دین نے ہمیں پردے کا درس دیا، اسلام کے پردے کے نظریے کے پیچھے فیملی سسٹم بچانا اور خواتین کو تحفظ فراہم کرنا ہے، جب آپ معاشرے میں فحاشی پھیلائیں گے تو جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوگا، یورپ میں اب فیملی سسٹم تباہ ہوچکا ہے، ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے میں نے صدرایردوان سے بات کی اور ترک ڈرامے کو یہاں لایا””۔وزیر اعظم کی بات سو فِصد درست ہے آرڈننس اور زینب الرٹ مسئلے کا حل نہیں ہے.لیکن یہ بات اس سے زیادہ درست ہے کہ اس سلسلے میںایک عام اآدمی کو اپنا کردار ادا کرنا ہے وہیں سب سے بڑی ذمہ داری ریاست کی بنتی ہے۔ ریاست کی ناک کے نیچے گھنائونے جرائم ہورہے ہیں، بین الاقوامی جرائم پیشہ افراد پاکستان میں کھل کھیل رہے ہیں، ہمارے بچے اُن کے نشانے پر ہیں،فحش لٹریچر کی بھر مار کی بھرمار ہے ،فحش فلموں پر مشتمل سی ڈیز سرعام بکتی ہیں،: انٹرنیٹ پر بھی فحش مواد بکثرت آج بھی موجود ہے ،اوران کی روک تھام کے لیے مجرموں پر ہاتھ ڈالنا اور انہیں سزا دلوانا ضروری ہے،پھراس کے ساتھ  وہیں بے لگام میڈیا پر ہاتھ ڈالنا اور فحش جنسی مواد کی روک تھام کرنا بھی ریاست کی ذمہ داریہے۔دوسری طرف والدین کی بھی زمہ داری ہے کے اپنے بچوں کے قریب رہیں ان کے دوست بنیں، ماں ،باپ اور اولاد کے درمیان دوری ہوتی ہے تو جرائم پیشہ ان کے قریب ہوتے ہیں۔لہذا یہ بات طے ہے کہ معاشرے میں اخلاقی بگاڑ اور جنسی جرائم کو ختم کرنے کے لیے ریاست اور سماج دونوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

حصہ