قیصر و کسریٰ

1297

’’میں تمہاری کھال اُتار دوں گا‘‘۔ شامی نے یہ کہہ کر اُس کے منہ پر تھپڑ رسید کیا اور وہ بھی اپنے ساتھی کی طرح کرسی سے گرپڑا۔ ؟؟؟ دونوں بھاگ کر چند قدم کے فاصلے پر جا کھڑے ہوئے اور شامی نے نشے کی حالت میں فحش گالیاں بکنا شروع کردیں۔
’’یہ کون ہے؟‘‘ عاصم نے دبی زبان میں فرمس سے سوال کیا۔
’’یہ ایک شامی قبیلے کا رئیس ہے، یہ میری بدقسمتی تھی کہ میں نے اسے اپنی سرائے میں ٹھہرالیا ہے۔ یہ صبح سے شراب کی دو صراحیاں خالی کرچکا ہے اور وہ مسافر جو سائبان سے دور بیٹھے ہیں کئی بار اس کی گالیاں سن چکے ہیں۔ اگر یہ پڑوس کے ایک خونخوار قبیلے کا رئیس نہ ہوتا تو یہ مسافر ان کی بوٹیاں نوچ ڈالتے۔ میں نے اپنا ایک آدمی یروشلم بھیج دیا ہے وہاں ایک رومی افسر میرا دوست ہے، اگر اُس نے کسی سپاہی کو روانہ کردیا تو اس کا سارا نشہ ہرن ہوجائے گا‘‘۔
شامی رئیس نے گرے ہوئے یہودی کو چند لاتیں رسید کرنے کے بعد واپس آکر خالی صراحی اُٹھائی، اُسے پیالے میں الٹ کر دیکھا اور پھر فرمس کی طرف متوجہ ہو کر چلایا ’’کیا دیکھ رہے ہو یہ صراحی خالی ہوچکی ہے‘‘۔
فرمس نے سہمی ہوئی آواز میں کہا ’’جناب آپ بہت پی چکے ہیں‘‘۔
شامی نے گرج کر کہا ’’کیا بکتے ہو؟‘‘
’’جناب میں… میں نے یہ کہا ہے کہ شراب ختم ہوچکی ہے‘‘۔
’’تم جھوٹ بولتے ہو۔ میں تمہاری سرائے اور تمہارے گھر کی تلاشی لینا چاہتا ہوں‘‘۔ شامی برآمدے کی طرف بڑھا فرمس کے چار نوکروں نے بھاگ کر اُس کا راستہ روکنے کی کوشش کی، لیکن اُس نے اچانک تلوار نکال لی اور وہ بدحواس ہو کر ایک طرف ہٹ گئے۔
فرمس نے قدرے جرأت سے کام لیتے ہوئے آگے بڑھ کر کہا ’’دیکھیے جناب آپ بہت زیادتی کررہے ہیں۔
شامی نے اچانک اپنی تلوار سیدھی کرلی اور فرمس سراسیمگی کی حالت میں اُلٹے پائوں پیچھے ہٹتا ہوا برآمدے کے ستون سے جا لگا۔ شامی جس کی تلوار کی نوک اُس کے سینے پر تھی، قہقہے لگارہا تھا۔ فرمس کے نوکر بے بسی کی حالت میں چیخیں مار رہے تھے۔ شامی اور اس کا حبشی غلام جو تلوار نکال کر اپنے آقا کی مدد کے لیے پہنچ چکا تھا، انہیں ڈرا دھمکا کر چند قدم دور رکھنے کی کشش کررہے تھے۔
فرمس چلایا ’’خدا کے لیے مجھ پر رحیم کیجیے۔ میں ایک غریب الوطن مصری ہوں۔ میں نے آپ کے ساتھ کوئی گستاخی نہیں کی۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ زیادہ نشے کی حالت میں آپ کے لیے سفر کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ لیکن اگر آپ حکم دیتے ہیں تو میں شراب کا پورا مٹکا پیش کرنے کو تیار ہوں‘‘۔
شامی نے تلوار کی نوک اُس کی گردن پر رکھتے ہوئے کہا ’’ذلیل آدمی اپنی زبان بند کرو ورنہ…‘‘ فرمس شامی کے الفاظ سے زیادہ اپنی شاہرگ پر اُس کی تلوار کا دبائو محسوس کرکے خاموش ہوگیا، اب شامی کبھی اپنا ہاتھ پیچھے کرلیتا، اور کبھی اپنی تلوار کی نوک اُس کے پیٹ، سینے، گردن یا چہرے کے قریب لے جاتا۔ تماشائی جو پہلے یہ سمجھ رہے تھے کہ فرمس کا آخری وقت آچکا ہے، اب یہ محسوس کررہے تھے کہ یہ مہیب صورت انسان صرف اپنی زندہ دلی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ اچانک برآمدے سے ایک نو عمر لڑکی نمودار ہوئی اور اُس نے چیخیں مارتے ہوئے آگے بڑھ کر شامی کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی لیکن اس دیوقامت آدمی نے اپنا ہاتھ جھٹک دیا اور وہ ایک طرف گرپڑی۔
فرمس چلایا ’’انطونیہ! انطونیہ! خدا کے لیے یہاں سے بھاگ جائو‘‘۔
لڑکی نے جلدی سے اُٹھنے کی کوشش کی، لیکن شامی نے اچانک بائیں ہاتھ سے اُس کے بال پکڑ لیے، ایک عورت جو صورت سے اس لڑکی کی ماں معلوم ہوتی تھی چیخیں مارتی آگے بڑھی اور آس پاس جمع ہونے والے لوگوں کو مدد کے لیے پکارنے لگی۔ شامی دوبارہ اپنی تلوار فرمس کی گردن پر رکھتے ہوئے چلایا۔ ’’اگر اس عورت نے اپنی زبان بند نہ کی تو میں تمہاری گردن اُڑا دوں گا‘‘۔
عورت خاموش ہوگئی۔ اچانک عاصم جس کے لیے یہ کھیل ناقابل برداشت ہوچکا تھا، تلوار سونت کر شامی کے قریب پہنچا اوربولا میں نے آج تک اتنا بزدل آدمی نہیں دیکھا‘‘۔
شامی نے مڑ کر عاصم کی طرف دیکھا اور کہا ’’اگر یہ بزدل نہ ہوتا تو میں پہلے ہی وار میں اس کی گردن اُڑا دیتا‘‘۔
عاصم نے کہا ’’بزدل یہ نہیں، تم ہو‘‘۔
شامی کو اپنے کالوں پر اعتبار نہ تھا۔ اُس نے کہا ’’تم مجھے بزدل کہہ رہے ہو؟ یہ جانتے ہو میں کون ہوں؟‘‘
’’ہاں میں تمہیں جانتا ہوں تم ایک وحشی ہو، جسے ایک نہتے مرد اور ایک بے بس لڑکی پر ہاتھ اُٹھاتے شرم نہیں آتی‘‘۔
شامی نے غضب ناک ہو کر لڑکی کو ایک طرف دھکیل دیا اور پے در پے عاصم پر کئی وار کیے۔ عاصم اُس کے وار تلوار پر روکتا ہوا چند قدم پیچھے ہٹا۔ لیکن جب اُس نے جوابی حملہ کیا تو شامی کا جوش و خروش پریشانی اور اضطراب میں تبدیل ہونے لگا۔ تماشائی جو کچھ دیر پہلے دم بخود کھڑے تھے اب تحسین کے نعرے لگا رہے تھے۔ شامی کے غلام نے اپنے آقا کو پیچھے ہٹتا دیکھ کر عقب سے عاصم پر وار کرنے کی کوشش کی لیکن عباد نے بھاگ کر اُس کی گردن پر مُکا مارا اور وہ زمین پر گرپڑا، عباد نے اس کے ہاتھ سے تلوار چھین لی اور ایک پائوں اُس کی گردن پر رکھتے ہوئے کہا ’’تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ تم اطمینان سے یہاں لیٹے رہو‘‘۔
تھوڑی دیر بعد جب شامی ایک تھکے ہوئے گھوڑے کی طرح ہانپ رہا تھا، چھ سوار سرپٹ گھوڑے دوڑاتے سرائے میں داخل ہوئے اور کسی توقف کے بغیر گھوڑوں سے گود پڑے۔ فرمس بھاگ کر آگے بڑھا اور اُس نے ایک بارعب آدمی سے جو رومی فوج کا بڑا عہدہ دار معلوم ہوتا تھا مخاطب ہو کر کہا ’’آپ ذرا دیر سے تشریف لائے ہیں۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ سے پہلے میری حفاظت کے لیے یہاں ایک فرشتہ پہنچ جائے گا ورنہ میں آپ کو تکلیف نہ دیتا۔ اگر یہ شریف عرب یہاں نہ پہنچتا تو اس وقت آپ یہاں میری لاش دیکھتے‘‘۔
رومی افسر جس کی نگاہیں صحن میں داخل ہوتے ہی عاصم اور اُس کے حریف پر مرکوز ہوچکی تھیں، کوئی جواب دیے بغیر آگے بڑھا لیکن لڑائی کا رنگ دیکھ کر اُس نے فوری مداخلت کی ضرورت محسوس نہ کی اور اُس کے ہاتھ کا اشارہ پا کر اُس کے ساتھی بھی تماشائیوں کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔
عاصم نے پے در پے حملوں کے بعد شامی کو ہر طرف سے دھکیل کر اُس ستون سے لگادیا جہاں کچھ دیر پہلے فرمس انتہائی بے بسی اور مایوسی کی حالت میں کسی معجزے کا انتظار کررہا تھا۔ عاصم نے اُس کے جسم کے بجائے صرف اُس کے لباس کو اپنا ہدف بنانے پر اکتفا کیا تھا۔ چنانچہ شامی کی بیش قیمت قبا کئی جگہ سے پھٹ ہوچکی تھی، تھکاوٹ اور شراب کے نشے سے چور ہونے کے باعث ہرآن اُس کی ہمت جواب دے رہی تھی۔
عاصم نے اپنی تلوار کی نوک سے اُس کا عمامہ ایک طرف پھینکتے ہوئے کہا ’’شراب کا نشہ گیدڑوں کو شیر نہیں بناسکتا۔ اگر تم چاہو تو تلوار پھینک کر اپنی جان بچا سکتے ہو‘‘۔
عاصم کے یہ الفاظ اُس کے حریف کے لیے ایک تازیانہ ثابت ہوئے اور وہ اپنی رہی سہی قوت بروئے کار لاتے ہوئے ایک زخمی درندے کی طرح اُس پر ٹوٹ پڑا، لیکن یہ ایک اندھے جوش کا آخری مظاہرہ تھا۔ عاصم کو چند قدم پیچھے ہٹانے کے بعد شامی کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور وہ چند ثانیے ہوا میں اندھا دُھند تلوار گھمانے کے بعد اوندھے منہ گر پڑا۔
رومی افسر جلدی سے آگے بڑھا اور اُس نے عاصم کا بازو پکڑ کر اُسے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا ’’نوجوان! تم نے ایک شریف آدمی کی مدد کی ہے اور میں تمہارا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مجھے صرف اس بات کا افسوس ہے کہ میں ذرا دیر سے پہنچا اور یہ پورا تماشا نہیں دیکھ سکا۔ تم نے ایک مست ہاتھی کو پچھاڑا ہے‘‘۔
عاصم کو قدرے پریشان دیکھ کر فرمس نے رومی افسر کی ترجمانی کردی اور اُس نے سریانی میں جواب دیا ’’یہ صرف شراب سے مدہوش تھا اور اسے پچھاڑ کر مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی‘‘۔
فرمس نے کہا ’’تم اسے نہیں جانتے، لیکن میں اس کے متعلق سب کچھ سُن چکا ہوں۔ تیغ زنی میں اس علاقے کے تمام قبائل اس کا لوہا مانتے ہیں‘‘۔
عاصم نے جواب دیا ’’تو پھر مجھے اس بات کا افسوس ہونا چاہیے کہ آج یہ ہوش میں نہیں تھا‘‘۔
رومی افسر نے سریانی زبان میں کہا ’’تم بہادر بھی ہو اور شریف بھی، اگر پسند کرو تو ہماری فوج میں تمہیں عزت کی جگہ مل سکتی ہے‘‘۔
’’شکریہ لیکن میں اپنے گھر جارہا ہوں اور وہاں میری زیادہ ضرورت ہے‘‘۔
’’تمہارا گھر کہاں ہے؟‘‘
’’میں عرب سے آیا ہوں اور میرا گھر یثرب میں ہے‘‘۔
رومی نے کہا ’’میرا نام پطیوس ہے۔ اگر تم یروشلم سے گزرتے ہوئے میرے پاس قیام کرو تو مجھے خوشی ہوگی‘‘۔
’’شکریہ لیکن میں وہاں نہیں ٹھہر سکوں گا۔ میں بلاتاخیر اپنے گھر پہنچنا چاہتا ہوں‘‘۔
رومی نے کہا ’’فرمس میرا دوست ہے اور تم نے اس کی جان بچائی ہے۔ اب مجھے یہ پوچھنا ہے کہ میں تمہاری کیا خدمت کرسکتا ہوں؟‘‘
قبرص کے دو مسافروں میں سے ایک نے رومی افسر سے مخاطب ہو کر کہا ’’جناب اس نے ہم سب کی جان بچائی ہے ہم قبرص سے آئے ہیں اور یہ بات ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ رومی حکومت نے اس قسم کے وحشی انسانوں کو اتنی آزادی دے رکھی ہے۔ ہمیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ایک درندہ اپنے پنجرے سے باہر نکل آیا ہے‘‘۔
ایک یہودی نے فریاد کی ’’جناب اس وحشی نے ایک معصوم لڑکی پر ہاتھ اٹھاتے ہوئے بھی شرم محسوس نہیں کی۔ مجھے ڈر تھا کہ یہ شراب کے نشے میں ہم سب کو قتل کر ڈالے گا‘‘۔
تمام مسافر باری باری شامی کے خلاف اپنے غم اور غصے کا اظہار کررہے تھے۔ لیکن عباد جس نے شامی کے گرتے ہی اُس کی تلوار چھین لی تھی اب لوگوں کو رومی افسر کی طرف متوجہ دیکھ کر تلوار کی نیام اور خنجر پر قبضہ کرچکا تھا۔ حبشی غلام خوفزدہ ہونے کے باوجود زیادہ دیر اپنے آقا کی بے بسی کا تماشا نہ دیکھ سکا اور جب عباد نے شامی کی قبا کے اندر ہاتھ ڈال کر سکوں سے بھری ہوئی تھیلی بھی نکال لی تو اُس نے آگے بڑھ کر اُس کا ہاتھ پکڑ لیا لیکن عباد ایک ہی جھٹکے میں اپنا ہاتھ چھڑا کر اُٹھا اور حبشی کو دھکا دے کر چند قدم پیچھے ہٹا دیا۔ اس کے بعد حبشی کو آگے بڑھنے کی ہمت نہ ہوئی، تاہم اُس نے شور مچا کر حاضرین کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔
’’یہ کون ہے؟‘‘ رومی افسر نے برہم ہو کر پوچھا۔
فرمس نے جواب دیا ’’جناب یہ اس وحشی کا غلام ہے‘‘۔
حبشی نے عباد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رومی افسر سے فریاد کی ’’جناب اس نے میرے آقا کی تلوار اور خنجر چھین لیے ہیں۔ اس نےمیرے آقا کی تھیلی بھی نکال لی ہے اور میری تلوار بھی چھین لی ہے۔ جناب میرے آقا ہوش میں آتے ہی میری کھال اُدھیڑ دیں گے۔ اُن کی تلوار بہت قیمتی ہے جناب!‘‘
رومی نے جواب دیا ’’تمہارے آقا کو یروشلم کے قید خانے میں ہوش آئے گا اور ہم اسے رہا کرنے سے پہلے اس کا اطمینان کرلیں گے کہ تم اُس کے عتاب سے محفوظ ہو۔ اب اگر اس کو گھوڑا یہاں موجود ہے تو اسے اُس پر لاد دو اور ہمارے ساتھ چلو‘‘۔
حبشی خاموش ہوگیا، لیکن جب عباد تلوار اُٹھا کر نیام میں کرنے لگا تو وہ دوبارہ چلا اُٹھا ’’جناب میرے آقا ہوش میں آتے ہی اپنی تلوار کے متعلق پوچھیں گے۔ یہ بہت قیمتی ہے اور اس نے میری تلوار بھی کہیں چھپادی ہے۔ اس نے میرے آقا کا خنجر اور تھیلی بھی کہیں غائب کردی ہے‘‘۔قیصر و کسریٰ
رومی نے آگے بڑھ کر عباد ے ہاتھ سے تلوار لے لی، اُسے نیام سے نکال کر عباد سے پوچھا ’’تم کون ہو؟‘‘
عباد کی بجائے عاصم نے جواب دیا ’’جناب یہ میرا غلام ہے۔ اور ہمارے ملک میں غلام اپنے آقا کے مغلوب کردہ دشمن کی تلوار پر قبضہ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں لیکن یہ شامی چونکہ آپ کی رعیت ہے، اس لیے اس کے سامان کے متعلق آپ بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں‘‘۔
رومی نے مسکرا کر عاصم کی طرف دیکھا اور تلوار نیام میں کرکے عباد کو واپس دیتے ہوئے کہا ’’یہ تلوار بہت خوبصورت ہے لیکن میں ایک بہادر آدمی کو اُس کی فتح کے انعام سے محروم نہیں کرسکتا‘‘۔
عاصم نے عباد سے کہا ’’عباد ہمیں صرف تلواروں کی ضرورت تھی۔ تھیلی واپس کردو‘‘۔
عباد کو تذبذب دیکھ کر فرمس نے فوری مداخلت کی ضرورت محسوس کی اور رومی افسر سے مخاطب ہو کر کہا ’’جناب میرے اصطبل میں ان کے دو خوبصورت گھوڑے بھی بندھے ہوئے ہیں، ان کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟‘‘
رومی نے مسکرا کر جواب دیا ’’گھوڑوں کا مالک بے ہوش ہے اور رومی حکومت ان کی حفاظت کا ذمہ نہیں لے سکتی مجھے صرف اس بات کا افسوس ہے کہ میری آمد سے قبل اس وحشی کو قتل کیوں نہیں کردیا گیا تھا۔ لیکن آپ مطمئن رہیں آئندہ یہ اِس سرائے کا رُخ نہیں کرے گا‘‘۔
شامی کے غلام نے کہا ’’جناب آپ نے یہ حکم دیا تھا کہ میں اپنے آقا کو گھوڑے پر لاد کر آپ کے ساتھ چلوں‘‘۔
رومی نے جواب دیا ’’تمہارے آقا کے سر پر ٹھنڈا پانی ڈالنے کی ضرورت ہے، جب اسے ہوش آجائے گا تو اس کے لیے یروشلم کے قید خانے تک چلنا مشکل نہیں ہوگا‘‘۔
ایک یہودی چلایا ’’جناب وہ ابھی سے ہوش میں آرہا ہے‘‘۔
تماشائیوں کی نگاہیں اچانک شامی پر مرکوز ہوگئیں، اس نے کروٹ بدلی پھر اُٹھا اور اپنا سر دونوں ہاتھوں میں دبا کر بیٹھ گیا۔ فرمس کا ایک نوکر پانی کا مٹکا اٹھا لایا اور اُس کے سر پر انڈیل دیا۔ شامی نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ اب فرمس کے دوسرے نوکر بھی باری باری پانی کے مٹکے لا کر اُس کے سر پر انڈیل رہے تھے اور تماشائی قہقہقے لگارہے تھے۔
فرمس نے رومی افسر سے کہا ’’جناب آپ تشریف رکھیے میں آپ کے لیے اپنی بہترین شراب منگواتا ہوں‘‘
رومی افسر ایک میز کے قریب بیٹھ گیا۔
فرمس نے عاصم کی طرف متوجہ ہو کر کہا ’’آپ بھی تشریف رکھیے! میں آپ کے لیے کھانا بھجواتا ہوں‘‘۔
عاصم نے رومی کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا ’’میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ یہ دو تلواریں میرے لیے بہت بڑا انعام ہیں‘‘
’’لیکن میں نے دوسری تلوار نہیں دیکھی‘‘۔
’’وہ میرے غلام نے کہیں چھپادی ہے‘‘۔
’’میں نے ایک عرب کو پہلی بار لڑتے دیکھا ہے۔ تمہاری فوج یقینا بہت اچھی ہوگی‘‘۔
’’جناب عرب میں فوج نہیں ہوتی‘‘۔
’’عرب میں فوج نہیں ہوتی تو وہاں حکومت کیسے چلتی ہے؟‘‘
’’وہاں حکومت بھی نہیں ہوتی‘‘۔
’’وہاں فوج بھی نہیں ہوتی۔ حکومت بھی نہیں ہوتی، پھر سلطنت کا کاروبار کیسے چلتا ہے؟‘‘
’’جناب عرب کسی سلطنت کا نام نہیں‘‘۔
’’تمہارا مطلب یہ ہے کہ تمہارا کوئی بادشاہ نہیں ہوتا‘‘۔
’’نہیں‘‘۔
رومی نے سراپا حیرت بن کر سوال کیا ’’تو پھر وہاں کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’وہاں صرف قبائل یا خاندان ہیں‘‘۔
’’سلطنت، حکومت اور فوج کے بغیر قبائل یا خاندان کس طرح زندہ رہ سکتے ہیں۔ میرا مطلب ہے کہ اُن کے درمیان امن کیسے قائم رہ سکتا ہے؟‘‘
’’جناب امن کا لفظ ہمارے کانوں کے لیے اجنبی ہے۔ قدرت نے ہمیں صرف مرنے اور مارنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ عرب سے باہر میں نے ایک سلطنت کو دوسری سلطنت سے لڑتے دیکھا ہے لیکن وہاں صرف قبیلوں کے درمیان جنگیں ہوتی ہیں۔ عجم کے بادشاہوں کی جنگیں ایک کی فتح اور دوسرے کی شکست کے بعد ختم ہوسکتی ہیں لیکن ہماری جنگیں کبھی ختم نہیں ہوتیں‘‘۔
’’قبیلوں کی جنگ تو صرف ایک مضبوط حکومت ہی ختم کرسکتی ہے‘‘۔
’’لیکن ہم کسی ایسی حکومت کا تصور نہیں کرسکتے جو ہمیں لوٹ مار اور قتل و غارت کی آزادی سے محروم کردے‘‘۔
’’لیکن تم مجھے ایک قاتل یا لٹیرے نظر نہیں آتے‘‘۔
عاصم نے جواب دیا ’’اگر میرے خاندان کے کسی آدمی کا قاتل یہاں ہوتا تو آپ کو میری صورت بہت مختلف نظر آتی‘‘۔
ایک عمر رسیدہ یہودی جھجکتا ہوا آگے بڑھا اور اُس نے ادب سے سلام کرنے کے بعد سوال کیا ’’جناب محاذِ جناز سے کوئی تازہ خبر آئی ہے؟‘‘
پطیوس نے قہر آلود نگاہوں سے یہودی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’تم کیسی خبر سننا چاہتے ہو؟‘‘
یہودی نے بدحواس ہو کر جواب دیا ’’جناب ہم صرف آپ کی فتح کی خوش خبری سننا چاہتے ہیں۔ اور ہمیں یقین ہے کہ آرمینیا کی سرزمین ایرانی افواج کا قبرستان ثابت ہوگی‘‘۔
پطیوس نے کہا ’’میں تمہارا شکر گزار ہوں لیکن محاذِ جنگ کی تازہ ترین خبر یہ ہے کہ ایرانی لشکر جس علاقے میں داخل ہوتا ہے، وہاں کے یہودی اُس کے ساتھ ہوجاتے ہیں۔ ہمیں اپنے مستقبل کے لیے کوئی پریشانی نہیں، ہمیں اپنی طاقت پر بھروسا ہے لیکن تم لوگوں کو روم اور ایران کی جنگ سے دلچسپی لینے کی بجائے یہ سوچنا چاہیے کہ بیرونی حملہ آوروں سے نبٹنے کے بعد جب ہم اپنے داخلی دشمنوں کی طرف توجہ کریں گے تو تمہارا انجام کیا ہوگا‘‘۔
’’جناب اگر آرمینیاک کے یہودی گمراہ ہوچکے ہیں تو وہ اپنے کیے کی سزا بھگتیں گے لیکن آپ جیسے نیک دل حاکم کو ہماری وفاداری پر شبہ نہیں کرنا چاہیے۔ شام کے تمام یہودیوں کی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں‘‘۔
یہودی دوبارہ ادب سے سلام کرنے کے بعد اُلٹے پائوں پیچھے ہٹ گیا۔
O
تھوڑی دیر بعد عاصم کھانا کھانے اور رومی افسر پطیوس شراب پینے میں مشغول تھا اور فرمس ان کے قریب بیٹھا تھا۔
پطیوس نے شراب کا ایک جام پینے کے بعد میز سے صراحی اُٹھائی اور دوسرا جام بھرتے ہوئے عاصم سے مخاطب ہوا ’’یہ شراب بہت اچھی ہے۔ اگر تم چند گھونٹ پی لیتے تو تمہاری تھکاوٹ دور ہوجاتی‘‘۔
عاصم نے جواب دیا ’’گھر سے نکلتے وقت میں نے اپنے والد اور بھائیوں کی قبروں پر کھڑے ہو کر یہ قسم کھائی تھی کہ میں اُن کے قاتلوں سے انتقام لیے بغیر شراب کو ہاتھ نہیں لگائوں گا اور میں اپنے عہد پر قائم رہنا چاہتا ہوں۔ اپنا فرض ادا کرنے کے بعد میں اچھی اور بُری شراب میں تمیز نہیں کروں گا‘‘۔
عاصم اور فرمس سے کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد پطیوس نے اُن سے اجازت لی اور گھوڑے پر سوار ہوگیا، تین سپاہی جنہیں اُس نے شامی رئیس کو یروشلم پہنچانے کا حکم دیا تھا، سرائے میں رُک گئے اور باقی دو اُس کے ساتھ چل دیے۔ یہ تین سپاہی پطیوس کے باہر نکلتے ہی شراب پر ٹوٹ پڑے اور انہوں نے دیکھتے دیکھتے صراحی خالی کردی۔ فرمس نے ایک اور صراحی منگوا کر اُن کے سامنے رکھتے ہوئے کہا ’’یہ اپنے ساتھ لے جائو۔ تمہارے ساتھیوں کا حصہ بھی اس میں شامل ہے‘‘۔
تھوڑی دیر کے بعد سپاہی اپنے قیدی کو لے کر چل دیے۔ لیکن عاصم کو گھوڑے کی نعل بندی کے انتظار میں رکنا پڑا۔ پھر جب اُس نے فرمس سے رخصت چاہی تو اُس نے کہا ’’دیکھیے اتنی جلدی نہ کیجیے۔ اب شام ہونے والی ہے۔ آپ رات یہیں قیام کریں، میں علی الصباح آپ کو روانہ کردوں گا۔ اگر آپ میری خاطر یہاں نہیں ٹھہر سکتے تو کم از کم میری بیوی اور بچی کو تو شکریہ ادا کرنا کا موقع دیں‘‘۔ عاصم فرمس کی مخلصانہ دعوت رد نہ کرسکا۔
غروب آفتاب کے وقت یروشلم سے غزہ کی طرف جانے والے مسافروں کا ایک قافلہ آپہنچا اور فرمس عاصم کو سرائے کی بالائی منزل کے ایک کمرے میں ٹھہرا کر اُن کی دیکھ بھال میں مصروف ہوگیا۔ یہ کشادہ کمرہ جو صرف حکام اور رئوسا کے لیے مخصوص تھا عجم کے اُن تکلفات سے آراستہ تھا جن سے ایک عرب کی نگاہیں ناآشنا تھیں۔ عاصم کچھ دیر خوبصورت قالین پر ٹہلنے کے بعد ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد عباد ہانپتا ہوا کمرے میں داخل ہوا اور بولا ’’اگر آپ اجازت دیں تو وہ دو گھوڑے ابھی فروخت ہوسکتے ہیں۔ ایک تاجر اُن کے بدلے دو تلواریں اور ریشم کی چند چادریں دینے کو تیار ہے۔ میں ان گھوڑوں کو ساتھ لے جانا خطرناک سمجھتا ہوں، اگر یروشلم میں اُس شامی کے قبیلے کے کسی آدمی نے اُنہیں پہچان لیا تو ہم مشکل میں پھنس جائیں گے۔ سرائے کے مالک کا بھی یہی خیال ہے کہ اگر یہ گھوڑے یہیں بک جائیں تو بہتر ہوگا‘‘۔
عاصم نے کہا ’’آج قدرت ہمارے حال پر بہت مہربان ہے۔ میں ابھی ان گھوڑوں کے متعلق سوچ رہا تھا۔ تم جائو اور انہیں بلا توقف فروخت کردو، لیکن میں تمہاری ایک بات سے بہت خفا ہوں۔ تمہیں معلوم ہے کہ اگر وہ رومی افسر، سرائے کے مالک کا دوست نہ ہوتا تو آج تم چوری کے جرم میں پکڑے جاتے۔ ایک خطرناک آدمی کی تلوار چھین لینے کو تو شاید رومی بھی اتنا برا نہ سمجھتے لیکن تمہیں اس کی جیب خالی کرتے ہوئے بھی کوئی شرم محسوس نہیں ہوئی‘‘۔
عباد نے جواب دیا ’’جناب میں بیوقوف نہیں ہوں، میں نے یہ دیکھ لیا تھا کہ رومی افسر کو اس احمق سے ذرّہ بھر ہمدردی نہیں۔ جب آپ اس کی قیمتی قبا پر تلوار کی مشق کررہے تھے تو وہ قہقہے لگا رہا تھا۔ پھر میں یہ بھی جانتا تھا کہ سرائے کے اندر جتنے آدمی جمع ہیں وہ سب ہمارے طرفدار ہیں۔ اور اگر رومی افسر میری حرکت پر بگڑ بھی گیا تو زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ مجھے مالِ غنیمت واپس کرنا پڑے گا۔ لیکن میرے سارے اندازے درست ثابت ہوئے اور مجھے افسوس ہے کہ آپ نے مجھے شاباش نہیں دی۔ آپ نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ اس تھیلی کے اندر کیا ہے؟‘‘
’’اچھا اب بتادو‘‘
’’جناب تھیلی سے تیس سونے کے اور باون چاندی کے سکے برآمد ہوئے ہیں اور میرے ہاتھ ایک اور چیز بھی آگئی تھی جس کا اب تک کسی کو علم نہیں‘‘۔
’’وہ کیا ہے؟‘‘
’’وہ ایک انگوٹھی ہے جسے اتارنے میں، میں نے اس قدر ہوشیاری سے کام لیا تھا کہ اس کے غلام کو بھی پتا نہیں چلا‘‘۔
عاصم نے کہا ’’اچھا اب تم جائو اور فوراً گھوڑے فروخت کردو‘‘۔
’’آپ نہیں آئیں گے؟‘‘
’’نہیں مجھے یہ اطمینان ہے کہ اس کام میں تم مجھ سے زیادہ ہوشیار ہو۔ اور سنو! تھیلی اور انگوٹھی تمہاری ہے میرا اس میں کوئی حصہ نہیں۔ اب جائو!‘‘
عباد مسکراتا ہوا وہاں سے چل دیا لیکن دروازے کے قریب پہنچ کر اچانک رُک گیا اور مڑ کر بولا‘‘۔ یہ کمرہ تو اس سرائے کی بجائے کسی محل کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ دیکھیے ایسا قالین تو‘‘۔
عاصم نے غضب ناک ہو کر اس کی طرف دیکھا اور کہا ’’عباد اگر تم نے اس کمرے کی کسی چیز کو ہاتھ لگایا تو میں تمہاری آنکھیں نکال لوں گا… یہاں سے بھاگ جائو!‘‘
عباد کمرے سے باہر نکل گیا اور عاصم سے اٹھ کر بستر پر لیٹ گیا۔ ایک ساعت بعد فرمس کمرے میں داخل ہوا تو عاصم گہری نیند سو رہا تھا۔ فرمس نے اُس کا بازو ہلا کر جگایا اور وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
فرمس نے کہا ’’مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو جلدی کھانا نہیں کھلا سکا۔ بات دراصل یہ تھی کہ آپ کا کھانا تیار کرنے میں دیر لگ گئی۔ میری بیوی اور بیٹی کو اس کا ملال تھا کہ آپ علی الصباح جارہے ہیں، اس لیے وہ آپ کو اپنی پسند کے تمام کھانے کھلانا چاہتی تھیں۔ چلیے وہ گھر میں آپ کا انتظار کررہی ہیں‘‘۔
عاصم نے پوچھا ’’وہ گھوڑے فروخت ہوگئے ہیں؟‘‘۔
’’ہاں ان کا معاوضہ تو بہت کم ملا ہے لیکن آپ کی ایک الجھن دور ہوگئی ہے۔ آپ کا غلام بہت ہوشیار ہے۔ وہ بہت تھکا ہوا تھا اس لیے میں نے اسے کھانا کھلادیا ہے‘‘۔

عاصم اپنے میزبان کے ساتھ سرائے کے گرد نصف چکر لگانے کے بعد پچھلی طرف ایک چھوٹے سے سکونتی مکان میں داخل ہوا، بلند دیواروں سے گھرے ہوئے ایک تنگ صحن میں فرمس کی بیوی اور بیٹی کھڑی تھیں اور سامنے ایک کمرے کے کھلے دروازے سے روشنی آرہی تھی۔
انطونیہ نے اپنے باپ کے ہاتھ سے مشعل لے کر دیوار کے سہارے کھڑی کردی اور وہ کمرے میں داخل ہو کر دستر خوان پر بیٹھ گئے۔
انطونیہ اور اس کی ماں نے اپنے مہمان کی تواضع کے لیے شام، فلسطین، مصر اور روم کے تمام تکلفات صرف کردیے تھے اور عاصم جسے اپنی زندگی میں پہلی بار ایسے مہذب انسانوں کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا تھا، اپنی کم مائگی کے احساس سے پسا جارہا تھا۔ انطونیہ جسے اس نے پہلی بار انتہائی بے بسی کی حالت میں دیکھا تھا۔ اب اپنے قیمتی لباس میں ایک شہزادی معلوم ہوتی تھی۔ کھانے کے دوران میں روم اور ایران کی جنگ ان کی گفتگو کا موضوع تھی۔ فرمس نے آرمینیا میں ایرانیوں کے مظالم کی داستانیں بیان کرنے اور اس کے بعد انطالیہ کی تباہی کا حال سنانے کے بعد کہا ’’اب نہ معلوم یہ طوفان کہاں جا کر رُکے گا۔ ہم لوگ صدیوں سے مشرق اور مغرب کے ہولناک طوفانوں کا سامنا کررہے ہیں۔ مصر اور شام میں ایک ظالم کے پرچم سرنگوں ہوتے ہیں تو دوسرا جابر اپنے جھنڈے گاڑ دیتا ہے۔ آج ہم رومیوں کے غلام ہیں اور کل شاید ہمیں ایرانیوں کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالنا پڑے۔نوجوان تم خوش نصیب ہو۔ تم ایک ایسے صحرا میں رہتے ہو جس میں ایرانیوں یا رومیوں کے لیے کوئی کشش نہیں، تمہاری تقدیر تمہارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ عرب میں زرخیز وادیاں اور پُررونق شہر نہ سہی لیکن تمہیں یہ خطرہ تو نہیں کہ مشرق یا مغرب سے کوئی عفریت اُٹھے گا اور تمہاری بستیوں اور شہروں کو ہڑپ کرجائے گا‘‘۔
عاصم نے جواب دیا’’ہمیں تباہ کرنے کے لیے کسی بیرونی عفریت کی ضرورت نہیں ہماری بستیاں جلانے کے لیے ہمارے اپنے گھروں کی آگ کافی ہے۔ آپ کو شاید معلوم نہیں جب عرب کے قبائل کا خون گرم ہوتا ہے تو وہ ایک دوسرے کے لیے بھیڑیوں سے زیادہ خونخوار بن جاتے ہیں‘‘۔
فرمس نے کہا ’’مجھے تمہاری خانہ جنگیوں کا حال معلوم ہے۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ تم ہماری طرح بے بس اور مجبور نہیں ہو۔ تمہیں اس بات کا اختیار ہے کہ جب چاہو اپنی تلواریں نیام میں کرلو اور جب چاہو ایک دوسرے کو گلے لگالو۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ہماری طرح تمہارے وطن کو بیرونی اژدھے اپنی قوت آزمائی کا اکھاڑا نہیں بناتے اور تمہیں یہ خطرہ نہیں کہ وہ تم کو پیس کر رکھ دیں گے‘‘۔
’’نہیں‘‘ عاصم نے جواب دیا ’’ہم آپ سے زیادہ بے بس اور مجبور ہیں۔ ایک عرب اپنی نیام سے تلوار نکال سکتا ہے لیکن اُسے دوبارہ نیام میں کرنا اُس کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ جس زمین پر ہمارا خون گرتا ہے وہ ہمیشہ پیاسی رہتی ہے اور اس کی پیاس بجھانے کے لیے مزید خون گرانا ہماری زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔ ہماری سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کا انتقام لے سکیں اور ہماری آئندہ نسلوں کی خواہش یہ ہوگی کہ وہ ہمارے قاتلوں سے بدلہ لے سکیں۔ اگر رُوم اور ایران کے سپاہی اپنے شہنشاہوں کی فتوحات کے لیے جنگ کرتے ہیں تو ہم اپنے اپنے قبیلے کی طاقت کا لوہا منوانے کے لیے ایک دوسرے کا خون بہاتے ہیں‘‘۔
فرمس نے کہا ’’تمہاری باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تم اپنے ملک کی اس صورت حال سے خوش نہیں ہو۔ اگر عرب کے ہر قبیلے میں تم جیسے چند نوجوان پیدا ہوجائیں تو وہاں ایک خوش گوار انقلاب آسکتا ہے‘‘۔

حصہ