ایک سچا واقعہ

305

صلاح الدین ایک دین دار اور نماز کا پابند تھا۔ آمدنی کم تھی۔ محنت مزدوری کرکے گھر کا خرچ پورا کرتا تھا۔ صلاح الدین اور اس کی بیوی میں جو سب سے اچھی بات تھی وہ تھی صبر و شکر۔ پیارے بچوں صبروشکر کو اپنا مقصد بنالو گے تو دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی پالوگے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کے شعر کا مصرعہ ہے نا کہ
بہار ہو کہ خزاں لا الہ الا الله
ایک دن ان کے دونوں بچوں نے ماں کے سامنے دھرنا دے دیاکہ آج ہم بھی پتنگ اڑائیں گے سارے گلی کے بچے اپنی چھتوں پر پتنگ اڑاتے ہیں اور خوب مزے کرتے ہیں۔ اچھا اچھا میں تمہارے ابو سے بات کرتی ہوں۔ ابو کو یہ بات پتا چلی تو انہوں نے حساب کتاب کیا تو منع کردیا۔
دونوں بچے منہ لٹکا کر اوپر چھت پر چلے گئے۔ اور آسمان پر اڑتی رنگ برنگی پتنگوں کو حسرت سے دیکھنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد ابو اور امی بھی اوپر چھت پر آگئے۔ ابو نے دونوں بچوں کو اپنے پاس بٹھایا اور کہا کہ اچھا میرے پیارے بچو اس دفعہ کی تنخواہ میں سے کچھ رقم پتنگ ڈور اور چرخی کے لیے الگ کر لوں گا۔ لیکن پہلے ایک وعده کرو کہ نہ تو آپ دونوں کسی بھی کٹی پتنگ کے پیچھے بھاگو گے نہ چھتیں پھیلانگو گے اور نہ ہی کسی قسم کی ایسی ڈور جس سے کسی کو کوئی نقصان پہنچے استعمال کرو گے۔ دونوں بچوں نے پکا وعدہ کرلیا۔ پھر صلاح الدین نے سب کو پاس بٹھا کر حضرت محمد صلی الله عليه واله وسلم کی پیاری پیاری باتیں سنائیں۔ دونوں بچے بہت توجہ سے ابو کی اسلامی باتیں سن رہے تھے اور کبھی آسمان پر اڑتی پتنگوں کو دیکھ لیا کرتے۔ آس پڑوس کے بچوں نے بھی وہ کاٹا وہ کاٹا کا خوب شور مچا رکھا تھا۔ مغرب کی نماز میں ابھی آدھا گھنٹہ تھا کہ دفعتاً ایک نیلے رنگ کی کٹی پتنگ ہوا میں لہراتی ہوئی ان کی چھت پر آکر گری دونوں بچوں نے لپک کر پتنگ پکڑلی ارے واہ کتنی اچھی پتنگ ہے” اور ڈور تو دیکھو کتنی لمبی ہے دونوں بھائی ڈور کھینچتے جارہے تھے اور ختم ہی نہیں ہو رہی تھی۔ صلاح الدین اور اس کی بیوی ہنستے جارہے تھے اور الله تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے تھے پھر دونوں بھایئوں نے خوب مزے لے لے کر پتنگ اڑائی۔

حصہ