ماحولیاتی تبدیلی -خطرے کی گھنٹی

372

ماحولیاتی مانیٹرنگ کے ایک سروے کے مطابق اگر دنیا کا درجہ حرارت موجودہ صورتحال کے مطابق بڑھتا رہا تو آئندہ صدی تک گلیشیئرز کے پگھلنے سے ایشیائی ممالک میں سیلاب، قحط سالی اور قدرتی آفات سمیت دیگر تشویشناک پہلو جنم لے سکتے ہیں۔ یہ بیانیہ خطرے کی آخری گھنٹی ہے کیونکہ اس کے بعد وقت بہت کم بچا ہے یعنی اگر اب دیر کر دی تو ایک نسل کے بعد دوسری نسل اس کے نقصانات کا سامنا کرے گی۔
اب آئیے ہمارے معاشرے کے ایک سنگین پہلو کی طرف جہاں دھواں اگلتی صنعتیں ، کچرے کے جلتے ڈھیر ، گاڑیوں میں جلنے والا ایندھن ہمارے معاشرے کو براہ راست تباہ کرنے میں مصروف ہے۔ شہرکی فضاء میں مضر صحت عوامل کی بھرمار ہے جو کہ بچوں سمیت نوجوانوں کو بھی ٹی بی اور دیگر بیماریوں میں مبتلا کرنے کا باعث ہیں۔ایسے میں بڑھتی آبادیا ں بھی ان تمام مسائل پر جزوی اثرات مرتب کررہی ہیں خاص کر شہر قائد کی حالت زار قابل رحم ہے جہاں وسائل ابھی تک ساٹھ کی دہائی کی آبادی کے تناسب سے موجود ہیں جبکہ آبادیاں اب ایک طرف بلوچستان اور دوسری طرف نوری آباد تک پھیل چکی ہیں۔
انسانوں کے اس جم غفیر میں صحت سمیت دیگر بنیادی مسائل اپنے پھن پھیلائے کھڑے ہیں اور صوبائی حکومت سمیت ، ضلعی انتظامیہ یا شہری حکومت سمیت وفاقی کابینہ کوئی بھی جامع حکمت عملی پیش کرنے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہے۔ایک دوسرے پر الزامات کی بھر مار اور مسائل کا ملبہ ایک دوسرے کے کندھوں پر ڈالنے سے نقصان بہر حال عوام کا ہو رہا ہے ۔حکومتی نمائندوں کو مُوردِ الزام ٹہرا نے سے کہیں بہتر ہے کہ ہم ان مسائل کے حل کے اپنی بساط کے مطابق عملی اقدامات کا آغاز کریں۔ بحیثیت ایک ذمہ دار شہری فرداً فرداً ہمارے فرائض میں بھی شامل ہے کہ ہم درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنی ذات کو وقف کریں کہ بہر حال اس معاشرے کا ایک حق ہماری ذات پر بھی موقوف ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم انفرادی طور پر کیسے ان مسائل کے سد باب کے لیے کوشش کر سکتے ہیں؟ تو جناب شروعات اپنے گھر سے کریں اپنے صحن میں پودے لگانے اور آنگن میں گملے سجانے سے آغاز کریں۔ یہ پہلا قدم ہے ، آپ اس سے اپنے بچوں میں درخت لگانے کا شوق بڑھا سکتے ہیں ، اپنے گھروں کے باہر اور محلے میں مشترکہ طور پر ایک مناسب جگہ کا انتخاب کریں اور نیم کے درخت سمیت دیگر درخت لگانے کی مہم چلائیں۔ اپنے حلقہ احباب میں اس بات کو اجاگر کریں کہ درخت لگانا ایک صدقہ جاریہ ہے، ماحولیاتی آلودگی میں کمی کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کے لیے ایک بیش قیمت تحفہ بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود درختوں کی نگہداشت کا بندوبست کریں ، سماجی رابطوں کی دنیا میں اس طرح کی سرگرمیوں کی تشہیر برائے ترغیب کریں۔ بچوں کے ہاتھوں سے پھول لگوائیں اور ان کے مابین ان کی نگہداشت کا مسابقہ منعقد کریں۔
اسی طرح خالی پلاٹس میں بھی شجر کاری کو ترجیحات میں شامل کریں۔ کچرے کے ڈھیروں کو آگ لگانے کی ممانعت کریں ۔ اس کے نقصانات سے اپنے اردگرد کے لوگوں کو آگاہ کریں کہ کیسے ایک جلتا ہوا کچرے کا ڈھیر پورے محلے کو موذی امراض میں دھکیلنے کا سبب بن سکتا ہے۔کچرے کو کم کرنے کے لیے بکریوں اور بھیڑوں کی فارمنگ اپنائیں، سبزیوں اور پھلوں کے چھلکوں سمیت دیگر اشیاء جو کچرے میں اضافے کا سبب بنتی ہیں بکریوں کی مرغوب غذائوں میں شامل ہیں جس سے آپ اپنے ہی گھر میں دو طرفہ فوائد سے مستفید ہوسکتے ہیں اسی طرح گھر کی مرغیاں کافی حدتک آپ کے گھر کی اضافی خوراک کو استعمال میں لا کر آپ کو صحت بخش انڈوں سے مستفید کر سکتی ہیں۔پلاسٹک بیگ کے استعمال کو ترک کردیں اور کپڑے کے سلے شاپنگ بیگ کا استعمال کریں تا کہ سیوریج لائنوں کی بندش میں کمی سمیت دیگر کچرے میں نمایاں کمی آسکے۔اگر آپ کے پاس ایندھن سے چلنے والی کوئی مشینری یا گاڑی موجود ہے تو فوری طور پر آپ متعلقہ چیز میں مناسب بہتری کرکے اُسے ماحول دوست اور فضاء کے لئے سازگار بنا سکتے ہیں۔اسی طرح پارک انتظامیہ زیادہ سے زیادہ رقبے پر پودے لگا کر اس مہم میں ایک کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔اسکولوں ، یونیورسٹیوں، کالجوں اور مدارس سمیت مساجد کی انتظامیہ بھی اس کارِ خیر میں اپنا حصّہ ڈال سکتے ہیں۔ اور اگر اس مہم میں ادارے شامل ہوجائیں تو وہ اس پوری تحریک میں ایک نئی روح پھونک سکتے ہیں اور شجر کاری سمیت ماحولیاتی تحفظ کی تحریک میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔طلباء اپنے اساتذہ کے ساتھ مل کر، سیاسی ورکرز اپنے رہنمائوں کے ساتھ مل کر، مقتدی حضرات اپنے آئمہ کے ساتھ مل کر اور محلے کے رہائشی اپنے بزرگوں کے ساتھ مل کر ایک نئی جستجو کے ساتھ معاشرے کو ہرا بھر کرنے کا ٹھان لیں تو شاید دہائیوں کا سفر سالوں میںطے ہو جائے۔اور ہم یہ بوجھ ایک ساتھ اُٹھا کر ایک نئی چھتری تلے جمع ہونے کا اعزاز بھی حاصل کرسکتے ہیںایک ایسی چھتری جو سب کے لئے موزوں بھی ہے اور فائدہ مند بھی ، جس کی ضرورت آج بھی ہے اور آنے والے کل کے لئے بھی ، یہ ہمارے آج کے لئے مفید بھی ہے اور ہمارے مستقبل کے لئے ضروری بھی ہے۔
اسی تسلسل میں ایک اور زیرِ بحث مسئلہ تعمیراتی کمپنیوں کے حوالے سے ہے جہاں تعمیرات کے دوران زیر عمل آنے والے متعدد عوامل ماحول اور فضاء پر منفی اثرات مرتب کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمیں دیگر پہلوئوں کے ساتھ ان تمام کمپنیوں کو بھی ماحول کے تحفظ کا پابند کرنے کی ضرورت ہے جو صرف پیسہ کمانے کے چکر میں فضاء کی آلودگی کا سبب بن رہی ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ سے متعلق ملکی قوانین کے نفاذ کی ضرورت اب اپنی انتہاء کو پہنچ چکی ہے۔
پڑوسی ممالک میں فضائی آلودگی کو دیکھتے ہوئے ہمیں بر وقت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو آکسیجن ہمیں مفت مل رہی ہے اسی آکسیجن کے حصول کے لئے بھارت میں کئی شہروں کے لوگ آکسیجن بوتھ میں ہزاروں روپے خرچ کردیتے ہیں۔ چین میں فضائی آلودگی کی وجہہ سے پورے کا پورا شہر نقاب اوڑھے نظر آتا ہے ۔ اربابِ اقتدار سے گزارش ہے کہ خدارا اس رہتی دنیا میں انسانوں کی بقاء کے لئے سنجیدگی اپنائیں ، دھواں اگلتی صنعتوں اور زہریلے کیمیکلز کو سمندر برد کرتی ان فیکٹریوں میں اصلاحات کو نافذ العمل کروائیں۔فٹ پاتھوں پر موجود درختوں کو کاٹنے اور ان کی جگہ بینرز آویزاں کرنے والوں کے خلاف حرکت میں آئیں۔ اندرونِ سندھ اور خصوصا کراچی میں باقاعدہ شجر کاری اور ماحولیاتی تحفظ کے کام کا آغاز کریں ۔ اگر ہم آج ایسا کرنے میں ناکام ہوئے تو آنے والی نسلیں بربادی کا ذمہ دا ر ہمیں ٹھرائیں گی۔

حصہ