کورونا کے مختلف ٹیسٹ کی تفصیلات

329

’’آج کل ظلم ہو رہا ہے ڈاکٹر صاحب! جو اسپتال گیا اسے کورونا میں ڈال دیا۔ ہمارے پڑوسی کو بخار ہوا‘ ٹھیک ہو گیا‘ چند دن بعد دل کا دورہ پڑا‘ کورونا میں ڈال دیا۔ ہمارے آفس کے ایک فرد کو چند دن بخار ہوا‘ کورونا کا ٹیسٹ منفی آیا‘ چند دن بعد سانس پھولنے لگی۔ منفی ٹیسٹ کے باوجود کورونا میں ڈال کر داخل کر دیا۔‘‘
ایسے بہت سے سوالات تھے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ کورونا کا ناک والے ٹیسٹ کے منفی ہونے کا مطلب کورونا نہیں‘ ایسا نہیں ہے‘ اصل اہمیت خون کے ٹیسٹ کی ہے اور آکسی میٹر ریڈنگ آکسیجن کی ہے جو 7-5 دن بعد سانس پھولنے کی شکایت پر پتا چلتی ہے۔ کورونا سانس اور خون جمنے کی بیماری ہے۔ سانس پھولنا‘ دل کا دورہ پڑنا مسئلہ ہے۔ ہم نے کورونا کے متعلق عام ٹیسٹ اور ان کی تفصیل قارئین کے لیے بتا دی ہے تاکہ ان سب سوالوں کا جواب مل سکے اور مریضوں کی پریشانی دور ہو۔
…٭…
سوال: کورونا کا ٹیسٹ کیسے کیا جاتا ہے؟
جواب: کورونا سانس کے ذریعے پھیلنے والی بیماری ہے‘ اس کا ٹیسٹ عام طور پر ناک سے یا گلے سے روئی میں مواد لے کر ٹیسٹ کرتے ہیں۔ روئی ایک تنکے میں لگی ہوتی ہے جسے ناک کے اندر ڈال کر مواد لیتے ہیں۔
سوال: کورونا کے ٹیسٹ کروانے سے کوئی نقصان ہوتا ہے؟
جواب: ناک سے مواد لیتے ہوئے بعض افراد کو چھینکیں آسکتی ہیں‘ بعض کو متلی ہو سکتی ہے اس کے علاوہ کچھ محسوس نہیں ہوتا۔
سوال: ناک سے لینے والے ٹیسٹ کا رزلٹ کب ملتا ہے؟
جواب: ناک سے دو طرح کے ٹیسٹ ہوتے ہیں:
-1 PCR ٹیسٹ: یہ ٹیسٹ مشین کی مدد سے لیا جاتا ہے اور اس کی رپورٹ لیبارٹری میں ٹیسٹ مشین میں لگانے کے 12 گھنٹے کے اندر مل جاتی ہے۔
-2 فوری رپورٹ والا ٹیسٹ (Rapid Antigen Test) یہ ٹیسٹ بھی ناک سے مواد لے کر کیا جاتا ہے۔ مواد ایک کِٹ میں ڈالا جاتا ہے اور 5 سے 10 منٹ میں اس کی رپورٹ آجاتی ہے۔
سوال: کیا مثبت رپورٹ آنے کا مطلب ہے کورونا کا مریض ہے؟
جواب: مثبت رپورٹ کا مطلب ہے کورونا وائرس جسم میں موجود ہے۔ مریض کا احوال و علامات کے بعد آپ کا ڈاکٹر آپ کو مرض کے Active ہونے کا بتائے گا۔ کورونا کا مرض تو 12-11 دن بعد چلا جاتا ہے لیکن وائرس کی Dead Bodies کافی دن تک ناک میں رہ سکتی ہے۔ اس لیے ٹیسٹ کی رپورٹ ڈاکٹڑ کو دکھائیں۔
سوال: کیا منفی رپورٹ کا مطلب ہے کورونا نہیں ہے؟
جواب: ناک سے ہونے والے 70 سے 80 فیصد تک صحیح رزلٹ دیتے ہیں لیکن ایسا ہو سکتا ہے کہ مریض کو کورونا کی بیماری ہو اور ٹیسٹ منفی آئے۔ کورونا کے ایسے مریض جن کا ابتدائی ٹیسٹ منفی آئے وہ مطمئن ہو کر احتیاط نہیں کرتے جس کے باعث وہ خود بھی نقصان اٹھاتے ہیں اور بیماری پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔
سوال: منفی رپورٹ آئے تو کیا کریں؟
جواب: اپنے ڈاکٹر کو دکھائیں۔ ڈاکٹر خون کے ٹیسٹ کرائے گا‘ خون کا ٹیسٹ بتائے گا کہ جسم کے اندر کیا تبدیلیاں آرہی ہیں۔ جسم کے اندر کورونا چلا جائے تو کورونا اور جسم کے حفاظتی میباہی کی لڑائی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں خون میں کئی طرح کے مادّے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ ٹیسٹ بتا دیتے ہیں کہ کورونا ہے یا نہیں۔ خون کے عام طور پر Feritin, LDH, CPR اور D.Dimer ٹیسٹ کروائے جاتے ہیں۔
سوال: ٹیسٹ کیسے کیا جاتا ہے؟
جواب: CRP کا ٹیسٹ خون ہاتھ کی رگ سے نکال کر کیا جاتا ہے۔ صبح رات خالی پیٹ‘ کھانے کے بعد کسی بھی وقت یہ ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے۔ ایک ملی لیٹر خون لیا جاتا ہے۔
سوال: CRP ٹیسٹ کرانے سے کیا پتا چلتا ہے؟
جواب: جسم میں کہیں بھی ٹوٹ پھوٹ ہو‘ CRP بڑھ جاتا ہے۔ عام فرد میں اگر CRP بڑھا ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دل کا مسئلہ ہے۔ دل کا دورہ یا شدید بیماری کے امکانات ہیں۔ اس کے علاوہ آنتوں کی سوجن‘ نمونیا‘ ٹی بی‘ کینسر ہر وہ بیماری جس میں جسم اپنی قوتِ مدافعت سے بیماری کا مقابلہ کرے CRP بڑھ جاتا ہے۔
سوال: کورونا کے مریضوں کا CRP کیوں کراتے ہیں؟
جواب: CRP یہ بتاتا ہے کہ جسم میں کورونا وائرس داخل ہو چکا ہے اور جسم کا حفاظتی نظام اور کورونا میں لڑائی جاری ہے جسم میں زخم لگ رہے ہیں۔ اس لیے یہ کہا جاتا ہے کہ اگر ناک سے ہونے والے ٹیسٹ میں کورونا منفی آئے تب بھی CRP کی بڑی اہمیت ہے۔ CRP بتا دیتا ہے کہ جسم کے اندر شدید لڑائی ہے‘ کورونا اندر موجود ہے۔ کورونا میں جتنا تیزی سے CRP بڑھتا ہے کسی اور تکلیف سے نہیں بڑھتا۔
سوال: کورونا کے مریض کا بار بار CRP کیوں کراتے ہیں؟
جواب: کوروناکے مریض کے جسم میں ہونے والی لڑائی جسم کے سپاہی جیت رہے یا کورونا؟ یہ CRP بتاتا ہے۔ جب CRP زیادہ بڑھا ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کورونا کا پلہ بھاری ہے اس کو دیکھ کر ڈاکٹرز علاج کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ دوران علاج CRP کم ہونا شروع ہوجائے تو اس کا مطلب ہے جسم کی سوجن میں کمی آنا شروع ہوگئی۔ لڑائی میں جسم کے سپاہی جیت رہے ہیں اور مریض کی حالت بہتر ہو رہی ہے۔ اگر مریض آکسیجن پر ہے تو اس کی ضرورت کم ہو جاتی ہے۔
سوال: کورونا تو 12 دن بعد چلا جاتا ہے پھر CRP کیوں بڑھا دیتا ہے؟
جواب: کورونا تو چلا جاتا ہے لیکن جسم کو لگنے والے زخم اور سوجن کو مکمل ختم ہونے میں ایک سے ڈیڑھ مہینہ بھی لگ سکتا ہے اس لیے CRP ٹیسٹ کی رپورٹ خود نہ کرائیں رپورٹ میں CRP زیادہ دیکھ کر پریشان نہ ہوں اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔
سوال:فیرٹین ٹیسٹ کیسے کیا جاتا ہے؟
جواب: فیرٹین کا ٹیسٹ خون ہاتھ کی رگ سے نکال کر کیا جاتا ہے۔ صبح‘ رات‘ خالی پیٹ‘ کھانے کے بعد کسی بھی وقت یہ ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے۔ فیرٹین ٹیسٹ میں Mp-1 خون لیا جاتا ہے۔
سوال: فیریٹن ٹیسٹ کرانے سے کیا پتا چلتا ہے؟
جواب:فیریٹن ٹیسٹ عام طور پر خون کی کمی ہونے پر کرایا جاتا ہے کیوں کہ فیریٹن جسم میں آئرن کے گودا کا کام کرتا ہے۔ آئرن کی کمی میں فیریٹن کم ہو جاتا ہے۔ لیکن جسم میں اگر سوجن ہو‘ جسم کو بہت زیادہ تکلیف ہو جیسے موٹاپا‘ ذیابیطس‘ گردے‘ جگر کی بیماری تو خلیہ کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے خون میں فیریٹن بڑھ جاتا ہے۔
سوال: کورونا میں فیریٹن کا ٹیسٹ کیوں کیا جاتا ہے؟
جواب: کورونا میں پورے جسم میں لڑائی ہوتی ہے‘ جسم کا دفاعی نظام کے سپاہی (سیل) کورونا سے لڑتے ہیں۔ زخمی ہوتے ہیں۔ جسم میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے۔ فیریٹن سیل سے نکل کر خون میں آجاتا ہے۔ خون میں بڑھتا ہوا فیریٹن بیماری کی شدت کا پتا دیتا ہے۔ فیریٹڑن کا بہت زیادہ بڑھنا خطرے کی علامت ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ جسم بہت زیادہ متاثر ہوا ہے‘ جسم میں شدید طوفان کا خطرہ ہے۔ ڈاکٹر اس بڑھے ہوئے فیریٹن کے مطابق مقابلہ کرنے کی پلاننگ کرتے ہیں‘ دوا دیتے ہیں۔
سوال: فیریٹن کا ٹیسٹ بار بار کیوں کراتے ہیں؟
جواب: ڈاکٹر فیریٹن کا ٹیسٹ بیماری کا اندازہ لگانے کے لیے کرتے ہیں۔ اگر فیریٹن بڑھ رہاہے تو اس کا مطلب ہے جسم زیادہ متاثر ہو رہا ہے‘ سوجن بڑھ رہی ہو‘ آکسیجن کی ضرورت ہو سکتی ہے لیکن اگر فیریٹن کم ہو رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ جسم میں سوجن کم ہو رہی ہے‘ جسم کے اندر وائرس کی وجہ سے جنگ ہو رہی تھی‘ اس میں کمی آگئی ہے۔ جسم کے حالات بہتری کی طرف جارہے ہیں۔ اگر مریض آکسیجن پر ہے تو اس کی ضرورت کم ہوگی۔
سوال: کیا بیماری کا جائزہ لینے کے لیے ہم خود بھی یہ ٹیسٹ کرا سکتے ہیں؟
جواب: کورونا تو 11 دن بعد چلا جاتا ہے لیکن فیریٹین تو اس کے بعد 3-2 ہفتے تک بھی بڑھا ہوا رہ سکتا ہے۔ یاد رکھیں آپ کا ڈاکٹر آپ کی جسمانی کیفیت کو دیکھ کر ٹیسٹ کرواتا ہے۔ فیریٹین کی نارمل مقدار ہونے میں بعض اوقات ایک ماہ سے زائد عرصہ لگ جاتا ہے۔ خود بار بار ٹیسٹ کرائیں گے تو مقدار دیکھ کر پریشان ہوں گے۔ اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرکے) ٹیسٹ کرائیں تاکہ رپورٹ دیکھ کر پریشان ہونے سے بچ سکیں۔
سوال: LDH ٹیسٹ کیسے کیا جاتا ہے؟
جواب: LDH کا ٹیسٹ خون سے کیا جاتا ہے جو ہاتھ کی رَگ سے لیا جاتا ہے۔ 2-1 ملی لیٹر خون لیا جاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ کسی بھی وقت دن‘ رات‘ خالی پیٹ اور کھانے کے بعد کیا جاسکتا ہے۔
سوال: LDH کیا ہوتا ہے؟
جواب: LDH ایک مادہ ہوتا ہے جو جسم کے تمام خلیوں میں ہوتا ہے۔ خون‘ مسلز‘ دماغ‘ گردے وغیرہ LDH کا کام سیل کے اندر شوگر کو انرجی (طاقت) میں تبدیل کرتا ہے۔ LDH ٹیسٹ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ خون میں کتنی مقدار میں موجود ہے۔
سوال: LDH ٹیسٹ سے کیا پتا چلتا ہے؟
جواب: جب جسم میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے تو LDH خون میں بڑھ جاتا ہے۔ LDH کا زیادہ ہونا بتاتا ہے کہ سوجن بہت زیادہ ہے اور ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہے۔ LDH کے زیادہ ہونے سے جسم میں خطرناک طوفان کا پتا چلتا ہے۔ ڈاکٹرز LDH کے بڑھنے پر طوفان کے خطرے کے پیش نظر ایسی دوائیں تجویز کرتے ہیں جس سے طوفان کا خطرہ ٹل جائے یا طوفان میں کمی آجائے اور وہ جسم کو کم نقصان پہنچائے۔ LDH کا بہت زیادہ بڑھنا بتاتا ہے کہ جسم کی سوجن خاص طور پر پھیپھڑے کی سوجن بڑھ رہی ہے اور آکسیجن کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
سوال: ڈاکٹر بار بار LDH کا ٹیسٹ کیوں کراتے ہیں؟
جواب: ڈاکٹر LDH کے زیادہ ہونے پر اندازہ لگاتے ہیں کہ جسم زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ مریض کی حالت کی بہتری کا اندازہ LDH میں کمی آنے سے پتا چلتا ہے۔ اس طرح بیماری کے کم یا زیادہ ہونے کا پتا چل جاتا ہے۔ دوائوں کی تبدیلی باآسانی کی جاسکتی ہے۔ LDH میں کمی آنے پر‘ آکسیجن والے مریضوں کو کم آکسیجن کی ضرورت پڑتی ہے۔ اپنے ڈاکٹر سے مسلسل رابطے میں رہیں اور اس کے مشورے کے مطابق دوا یا آکسیجن میں کمی کریں۔
سوال: کیا LDH کا ٹیسٹ خود کرا سکتے ہیں؟
جواب: LDH کا ٹیسٹ ڈاکٹر کے مشورے سے کرائیں کیوں کہ کورونا وائرس تو 12 دن کے بعد چلا جاتا ہے لیکن LDH دو سے تین ہفتے تک مزید رہ سکتا ہے۔ خظد ٹیسٹ کروا سکتے ہیں لیکن نارمل سے زیادہ ہو تو ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کریں۔
سوال:D.Damer ٹیسٹ کیسے کیا جاتا ہے؟
جواب: ڈی ڈائیمر ٹیسٹ خون ہاتھ کی رَگ سے نکال کر کیا جاتا ہے۔ صبح‘ رات‘ خالی پیٹ‘ کھانے کے بعد کسی بھی وقت یہ ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے۔ D.Dimer ٹیسٹ بتاتا ہے کہ جسم میں سوجن ہے‘ جسم میںانفکشن ہے‘ جراثیم یا وائرس کا حملہ ہوا ہے‘ جس کا جسم مقابلہ کررہا ہے۔ بڑھا ہوا ڈی ڈائمر ٹیسٹ یہ بھی بتاتا ہے کہ جسم میں خون کے حملے کا نظام گڑبڑ ہو رہا ہے اور خون جمنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
سوال: کووڈ19 کے مریضوں میں D-Dimer بار بار کرایا جاتا ہے؟
جواب: کورونا وائرس جسم میں داخل ہو کر پھیپھڑوں‘ آنتوں اور خون پر بڑا حملہ کرتا ہے اور نقصان پہنچاتا ہے۔ بڑھا ہوا D.Dimer بتاتا ہے کہ کووڈ کا حملہ بہت شدید ہے‘ جسم میں انفکشن ہوا ہے‘ نقصان زیادہ ہورہا ہے۔ D.Dimer زیادہ بڑھا ہوا ہے‘ اس کا مطلب کووڈ 19 کی بیماری شدید ہے اور جتنی شدید کورونا کی بیماری ہوگی اتنا جسم میںClot بننے کا امکانات بڑھیں گے۔
سوال: D.Dimer ٹیسٹ بار بار کیوں کراتے ہیں؟
جواب: مریض کا زیادہ D.Dimer دیکھ کر ڈاکٹر علاج کا منصوبہ بناتے ہیں۔ علاج سے مریض میں بہتری آرہی ہے یا مریض کے جسم کی اندرونی سوجن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ڈاکٹر کو D.Dimer سے پتا چل جاتا ہے اسی لیے بار بار ہرچند روز بعد ڈاکٹر D.Dimer کرا سکتا ہے اور ضروری نہیں کہ ہر مریض کا کئی بار D.Dimer کروایا جائے۔
سوال: کیا مریض اطمینان کے لیے D.Dimer خود بھی کراسکتا ہے؟
جواب: D.Dimer ڈاکٹر کے کہنے پر کرائیں کیوں کہ بعض Concntions مثلاً حاملہ ہونا‘ دل کی بیماری‘ جس کی کوئی سرجری ہوئی ہو۔ اس لیے ٹیسٹ دیکھ کر پریشان نہ ہوں اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔ اگر مریض کا سانس پھولنے لگے تو آسان ترین یہ ہے کہ 15 تک گنتی سانس روکے۔ اگر نہ روک سکے اور سانس اکھڑ رہی ہے تو Aulse Oxsuetc سے آکسیجن ٹیسٹ کرے۔ یہ انگلی میں لگا کر باآسانی چیک کی جاسکتی ہے۔ 95 سے کم ہو تو الٹا لیٹ جائے یا کروٹ پر لیٹے اور ڈاکٹر سے فوری رابط کرے۔

حصہ