ترکی جو میں نے دیکھا (آخری قسط)

ترکی کے آخری نقوش
ایئرپورٹ کے طویل راستے کے دوران ایک شاندار ہوٹل میں ترکی کھانوں کا آخری ذائقہ چکھا۔ معمول کے دیگر کھانوں کے ساتھ آج کی خاص ڈش قیمے والا لذیذ نان تھا۔ ہمارے نان سے کہیں زیادہ CRISPY & DELICIOUS۔ سب نے شوق سے کھایا اور ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ یہ استنبول کا مضافاتی اور نوتعمیر بلکہ زیر تعمیر علاقہ تھا… سب کچھ نیا اور زیر تکمیل۔ راستے میں رہائشی فلیٹس کا ایک طویل سلسلہ تھا۔ آٹھ منزلہ سیکڑوں عمارات… میں نے گننے کی کوشش کی، مگر ناکام رہا۔ جدید ڈیزائننگ، طرز، سہولیات سے آراستہ… آب و ہوا، سبزہ، پارک وغیرہ اور کھلی سڑکوں کے ساتھ۔ جدید ترکی کی ایک الوداعی تصویر، اور دیگر نقوش کی طرح مثبت نقش۔ غالباً سرکاری ملازموں کی رہائش گاہیں۔
مسٹر والکن کے آنسو
آخری لمحات میں ہم نے مسٹر والکن سے دو لفظ ترکی زبان کے سیکھے تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔ خوش آمدید اور خدا حافظ۔ خوش آمدید کے لیے ’’خوش گیلیدن‘‘ یاد رہا، گرچہ موقع ’’خدا حافظ‘‘ کا تھا، جو بھول گیا۔ مسٹر والکن کا سب ہی نے اچھی رہنمائی پر شکریہ ادا کیا، ذاتی نمبرز وغیرہ لیے، اپنی نوک جھونک کی معذرت طلب کی۔ یقیناً پاکستانیوں نے ایسا کوئی نقش نہ چھوڑا تھا کہ جس پر شرمندگی ہوتی۔ سب ہی مسٹر والکن سے اپنائیت اور اُنسیت کا اظہار کررہے تھے۔ بچیوں نے… جنہوں نے اُسے ہمارے سفر میں آڑے ہاتھوں لیا… اُسے پاکستان آنے کا مشورہ دیا اور شادی کروانے کی پیشکش کی، مگر جہاں دیدہ مسٹر والکن اس جال میں نہ آیا۔ مسٹر والکن کی محبت، اپنائیت کا اظہار اُس کے لفظوں سے زیادہ اُس کے آنسو تھے، جو بس سے اُترنے کے بعد ہمیں خدا حافظ کہتے ہوئے اُس کی آنکھوں سے چھلک پڑے۔ ہمارے ساتھ تو اُس نے آخری لمحے میں حسین سلوک کیا، جو ہمیں کبھی نہیں بھولے گا کہ ہمارا سامان بس سے نکال کر ایئرپورٹ کے داخلی دروازے تک پہنچادیا۔ یقیناً یہ اُس کا کام نہ تھا، تاہم اس میں کچھ کمال اُس سو لیرا کے نوٹ کا بھی تھا جو بس سے اُترتے ہوئے میں نے اُس کی مٹھی میں تھمادیا۔ مسٹر والکن آپ خوش رہیں۔ شاد و آباد رہیں، اور آپ کا خوبصورت ’’ترکی‘‘ اسی طرح خوب سے خوب تر اور ترقی کی منازل طے کرتا رہے۔ میں خط لکھ کر یا فون کرکے اُس سے رابطہ رکھنا چاہتا تھا، مگر افسوس کہ نمبر گم ہوگیا۔
اقرارالحسن کا اُدھار
میرے پاس جتنے ’’لیرا‘‘ تھے، اُن میں سے اب صرف ایک سو لیرا کا نوٹ باقی رہ گیا تھا، ٹوٹے ہوئے اسّی پچیاسی لیرا بس کے ڈرائیور کی جیب میں ڈال دیے کہ اُس نے سارے سفر میں سامان رکھنے اور نکالنے کو اپنا فرضِ منصبی سمجھ کر نبھایا، اور سات دنوں میں کبھی بس کے ہارن یا میوزک سے پریشان نہیں کیا۔ اُس کے ساتھ رابطہ محض سلام دُعا تک ہی محدود رہا۔
ایئرپورٹ کے داخلی دروازے پر سامان لے جانے کے لیے ٹرالی کی ضرورت پڑی، ٹرالی پر بہت زور لگایا مگر وہ اپنی جگہ سے نہ ہلی۔ ہماری دھینگا مُشتی دیکھ کر کسی نے رہنمائی کی کہ یہ ’’لاک‘‘ ہے، اور دس لیرا مشین میں ڈال کر ہی اسے نکالا جاسکتا ہے۔ یہ صورت ِحال میرے لیے نئی بھی تھی اور پریشان کن بھی، کہ ہم تو جیب جھاڑ چکے تھے۔ ایسے میں اپنے سو لیرا کے اکلوتے نوٹ کا CHANGE لوگوں سے پوچھا، تو سب ہی ’’لیرولیرا‘‘ ہوچکے تھے، یعنی ’’لیرا‘‘ سے خود کو آزاد کروا چکے تھے۔ ایک ساتھی نے پانچ لیرا کا آخری نوٹ مجھے ’’بخش‘‘ دیا، مگر میرا کام تو دس لیرا سے چلنا تھا۔ اقرارالحسن نے دس لیرا کا نوٹ ڈال کر ٹرالی نکالی، تو بے بسی کے عالم میں مَیں نے سو لیرا کا ’’چھٹا‘‘ مانگ لیا۔ اُن کے پاس نہ تھا، البتہ انہوں نے اپنی ٹرالی مجھے دے کر نئی ٹرالی نکال لی۔ میں بعد میں انہیں ڈھونڈتا پھرا۔ ایئرپورٹ سے سو لیرا کا CHANGE حاصل کیا۔ پانچ لیرا کا اُدھار چُکایا، اور اقرارالحسن کے دس لیرا کا قرض سر سے نہ اُتار سکا۔
ڈیوٹی فری شاپ
بورڈنگ کارڈ وصول اور سامان حوالے کرکے کچھ سُکھ کا سانس آیا۔ بوجھ ہلکا ہوا تو ڈیوٹی فری شاپ کی تلاش شروع ہوئی، جہاں سے چاکلیٹ، سوئٹس اور جیلیز وغیرہ لینا مقصود تھا۔ ہر شے دلکش اور عمدہ پیکنگ میں موجود تھی۔ سیلزمین کے مشورے پر خاصا کچھ خرید لیا۔ بعض چیزوں میں ایک کے ساتھ دوسری مفت کی سہولت بھی موجود تھی۔ یہاں ہم نے ’’پاکستانیت‘‘ کا ثبوت دیا، اور ایک ادائیگی سے دو دو ڈبے سمیٹے۔ اچھا خاصا وزن پھر ہمارے ہاتھوں اور کاندھوں پر سوار ہوگیا۔ مگر ابھی ایک مخصوص چاکلیٹ کی بیگم صاحبہ کو تلاش تھی، جو ’’چیک اِن‘‘ کے راستے میں ایک اور دکان پر مل گئی۔ یہاں ہمارے پاس 29 لیرا بچ گئے۔ ہم نے کچھ نہ کچھ خرید کر انہیں استعمال میں لانے کی بہت کوشش کی، مگر ہر شے کے دام اس رقم سے زیادہ تھے۔ ہم نے سوچا شاید سیلز وومن محترمہ کچھ رعایت کردیں یا تحفتاً دو تین لیرا بخش دیں، مگر نہ ہماری بے بسی کام آئی، نہ سیکڑوں لیراز کی شاپنگ سے اُس کا دل پسیجا، نہ پاکستان ترک دوستی کی کوئی قیمت لگی۔ بالآخر یہ 29 لیرا ہمارے ساتھ پاکستان آئے اور کاغذ کے ٹکڑے بن کر کسی دراز کی زینت بن گئے۔
آخری بلاوا
یہ ’’آخری بُلاوا‘‘ عُرفِ عام والا نہ تھا، بلکہ 29 لیرا کو خرچ کرنے کے چکر میں جہاز کی روانگی کے لیے بار بار بلائے جانے کے بعد کا آخری بلاوا یعنی LAST AND FINAL CALL تھی، جو ایئرپورٹ انتظامیہ کی جانب سے مسافروں کو دی جارہی تھی۔ ہمیں کسی مہربان نے مطلع کیا تو بھاگم بھاگ لائن میں لگ گئے اور تمام مراحل مکمل کرتے جہاز میں داخل ہوکر ترکی سے نکل گئے۔ جہاز اپنے وقت پر روانہ ہوا۔ دن بھر کی تھکاوٹ اور ایئرپورٹ کے مراحل کے بعد آٹھ دن کی بے سکونی اور بے قراری کو کچھ قرار ملا۔ جہاز کے ٹیک آف کرتے ہی سب لوگ نیند کی وادی میں کھو گئے اور میں سفر کے نتائج و ماحصل میں کھو گیا۔
تصویرِ یار
بلاشبہ ترکی ہمارا دوست ہے، اُس کے ساتھ ہماری محبت اور دوستی کی بنیاد آبا واجداد کا وہ ورثہ ہے جو ہمارے لیے فخر کا باعث ہے، اور ان مضبوط و روشن بنیادوں پر کھڑے ہوکر اقوام عالم میں خود کو سربلند کرنا ہے۔ یہ الگ بات کہ ہمیں، ہمارے رویوں، اخلاق و کردار کو بقول علامہ اقبال: اپنے آباء سے نسبت ہو نہیں سکتی… کہ وہ کردار اور ہم محض گفتار کے مسلمان ہیں۔ مسلمانانِ عالم کی بدحالی کی دلخراش اور مایوسیوں کی مظہر تصویر کو ترکوں نے اپنے ماضی و حال سے رنگ بھر کر کچھ قابلِ گوارا کیا ہے۔ عزت سے جینے، اپنے قد پر کھڑے ہونے، اہلِ کفر کو بے نقاب کرنے، اُن کے ساتھ آنکھ ملا کر بات کرنے، انہیں اسلام اور اہلِ اسلام کے خلاف سازشوں سے باز رہنے، برابری کی سطح پر امتِ مسلمہ کو دیکھنے، ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنے کی وہ جرأت مندانہ اور آبرومندانہ خصوصیات ہیں جو یقیناً ترکوں کے شاندار ماضی، بہادروں، غازیوں، شہیدوں کی محنتوں کا تسلسل اور عظمتِ رفتہ کے گہرے نقوش کی عکاس ہیں۔
میرے ذہنی سفر میں ترکوں کی تصویر یوں اُبھری کہ شاندار ماضی، روایات و اخلاقیات کی حامل یہ قوم ہماری طرح نہ ریوڑ ہے، نہ بھیڑ۔ ترک متعدد سیاسی، نظریاتی، معاشرتی اختلافات کے باوجود من حیث القوم یک جان، باہم متحد اور اپنی قوم اور وطن کے خیرخواہ، ہمدرد اور مخلص ہیں۔ ان میں نہ کوئی بڑا مذہبی خلفشار اور تقسیم ہے، نہ فکری انتشار، نہ باہم عداوت و نفرت کے ہیجان انگیز طوفان۔ اختلاف کا ہر موقع شائستگی، تہذیب، آزادیِ فکر اور قومی مفاد کے تابع رہتا ہے۔
سڑکوں، بازاروں کے مشاہدے کے دوران نہ کہیں سیاسی و مذہبی جلسہ دکھائی دیا، نہ جلوس، نہ جلائو گھیرائو، نہ توڑ پھوڑ، نہ گالم گلوچ، نہ بھنگڑا، نہ فائرنگ، نہ ڈھول ڈھمکا، نہ خوف و دہشت۔ ہر شخص قانون کا پابند بلکہ پاس دار نظر آیا۔ ایک دوسرے کے حقوق کا تحفظ کرنے اور خیال رکھنے والا۔ باہم خیر خواہ اور معاون۔ ہر کوئی کسی کی مداخلتِ بے جا کے بغیر اپنے کام میں خودمختار، آزاد اور مگن۔ نہ کوئی پوسٹر، نہ بینر، نہ اشتہار، نہ اعلان، نہ وال چاکنگ، نہ سرِعام ’’حاجت روائی‘‘، نہ گندگی میں اضافے کا باعث، نہ ماحولیاتی آلودگی کا سامان۔ نہ اُونچے گانے، نہ اسپیکر کا بے محابا اور غیر ضروری استعمال، نہ فتویٰ، نہ مذہبی اجارہ داری، نہ سیاسی تسلط و غلبے کی کوشش، نہ مافیاز، نہ اُن کے سیاسی، سماجی و سرکاری پروموٹرز اور سرپرست و محافظ۔
اِن آٹھ دنوں میں ہمیں ٹی وی دیکھنے کا موقع ملا، نہ اخبار پڑھنے کا۔ اور اگر ملتا بھی تو سمجھ کیا خاک آنی تھی! ایک دو بار دیکھا تو پاکستانی ٹاک شوز کی طرح کا ’’مزا‘‘ نہیں ملا۔ دونوں قوموں کے رویّے اپنی شناخت کے مظہر۔ اُن کے ہاں سکون، اطمینان، آرام، شکر ہر حال میں لازم اور غالب۔ یہاں تو جس ارب پتی سے بھی حالات پر بات کرو، ہر شخص حالات کا شکوہ بیان کرتا، اپنی محرومیوں کی داستان سناتا، خود کو مجبور و مظلوم، نیک و پارسا ظاہر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ اِن سب حالات کا براہِ راست وہ خود ذمہ دار ہوتا ہے۔ یہ نوحہ بڑا طویل اور دلدوز ہے۔ اس کے ذکر سے اپنا سکون غارت کریں، نہ ترکی کے دلآویز دنوں کی یاد کو گہنائیں۔ البتہ یہ دعا ضرور کریں کہ خدا کرے ہم بھی احساسِ زیاں کریں۔ اپنے وطن، قوم، نظریے اور ابنائے قوم سے اخلاق، محبت، خیر خواہی اور یک جہتی کا ثبوت دیں۔ خوددار قوم کا چلن اپنائیں۔ بلاشبہ جھنڈے لگانے، ترانے پڑھنے، نغمے گانے اور بے اثر تقریریں کرنے سے قوم، قوم نہیں بنا کرتی۔
بلاشبہ ترکی قدامت و جدت کا حسین امتزاج ہے۔ اپنی تہذیب و ثقافت اور تاریخ کا پاسبان ہے۔ احیائے امت اور غلبۂ اسلام کی نوید ہے۔ ایک بڑی اور عالمی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ خدا کرے وہ دن آئے اور ہم بھی دیکھیں کہ اسے دیکھنا لازم ہے ’احیائے امت اور غلبۂ اسلام کا عہدِ جدید‘۔ اِن شاء اللہ۔
شکریہ پاکستان
خیالات کے اِس مدوجزر میں بہتے نجانے کب ہم بھی نیند کی آغوش میں پہنچ کر اپنے خیالات، آرزوئوں اور امیدوں کے سپنے دیکھنے اور انہیں متشکل کرنے میں کھو گئے۔ آنکھ تب کھلی جب زندہ دلِ پاکستانیوں کا شہر لاہور اور اُس کی مانوس و مرغوب فضائیں لوٹ کر گھر آنے والوں کو خوش آمدید کہہ رہی تھیں۔
لاہور ایئرپورٹ پر صبح نمازِ فجر سے قبل ہم جہاز سے اُتارے گئے۔ ایک بار پھر ثریا نے زمین پر دے مارا۔ اب کی بار یہ زمین، یہ فضا، یہ ہوا سب اپنے اپنے تھے۔ مجھے یاد آگیا… اسی مٹی سے ہم بنے، اسی مٹی میں پلے بڑھے، اور اسی مٹی کے دامن میں ابدی نیند سوئیں گے… اپنے پیارے پاکستان کی سرزمین پر اور اس کی مٹی میں، جس سے ہمارا وجود وابستہ اور جس کے نام کے ساتھ ہماری شناخت ہے۔ شکریہ پاکستان۔
استنبول کے جدید ترین ایئرپورٹ اور لاہور کے ایئرپورٹ کا کیا موازنہ! بس اتنا کہ یہ جیسا بھی تھا اپنا تھا۔ امیگریشن کی قطار میں ایف آئی اے کے نوجوان، اپنے کالج کے شاگرد عبدالرحیم نے ایک نوجوان کو ہماری مدد اور استقبال کے لیے بھیج رکھا تھا، جس نے ایئرپورٹ کے باہر تک ہماری معاونت کی۔
لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے پارکنگ ایریا میں ہمارا بیٹا انس اعجاز، جو اس سفر کا محرک اور فنانسر تھا، اور بیٹی بریعہ اعجاز استقبال کے لیے موجود تھے۔ اللہ کی کبریائی کے اعلان کی گونج میں ہم ایئرپورٹ سے نکلے اور فیصل آباد روانہ ہوگئے، جہاں باقی سارے اہلِ خانہ ہمارے منتظر تھے۔
شکریہ
اس شاندار، بامقصد اور یادگار سفر کے انعقاد کے لیے شکریہ میرے بچو، شکریہ رائل سلطان ٹورز، شکریہ اہلِ ترکی۔ اور شکریہ فیصل آباد کی علمی و ادبی تنظیم ’’دبستانِ فکر اقبال‘‘ کا، جس نے فوراً ہی تاثراتِ سفر کی محفل برپا کی اور پاک ترکی دوستی کے دلدادہ بڑی تعداد میں شریک ہوئے، اور شکریہ روزنامہ ’’جسارت‘‘، اس کے مدیران و منتظمین کا جنہوں نے میرے اس سفر کو احاطہ تحریر میں لانے، شائع کرنے اور ملک کے طول و عرض میں قارئین کو محظوظ و باخبر کرنے کا موقع اسے بالاقساط شائع کرکے فراہم کیا۔ ترکی کے بارے میں آخری بات: ’’ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ‘‘۔
(ختم شد)