مطالعہ ضروری ہے؟

318

یہ ہمارے ارد گرد اور ہر گھر کی حقیقت ہے کہ کتاب پڑھنے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے،کتا ب ہمارا موضوع ہی نہیں ہے، ۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس کا حال انتہائی ناگفتہ ہے۔ ہم بحیثیتِ مجموعی ذوقِ مطالعہ سے عاری قوم واقع ہوئے ہیں۔ مقولہ ہے کہ زندگی کو مکمل اور یقینی بنانے کے لیے جسم اور عقل دونوں کی سلامتی ضروری ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قوموں کے عروج و زوال پر جب بھی بات ہوتی ہے تو اس بات کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ علم وہنر، فکروعمل اور تحقیق و ایجاد عروج کی طرف… اور جہالت،کم علمی، شعورکی کمی اور بے ہنری زوال اور پسماندگی کی طرف لے جاتے ہیں۔ قوموں کو اپنی بقا کے لیے جس طاقت کی ضرورت ہوتی ہے وہ علم کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، اور علم مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے۔اقبال نے تو کہاتھا کہ ’’مطالعہ تو انسان کے لیے اخلاق کا معیار ہے ۔کہتے ہیں مطالعہ سے انسان کی تکمیل ہوتی ہے یعنی انسا ن ہی مکمل نہیں ہے ۔ حکیم ابو نصر فارابی کہتے ہیں میں ــتیل کے لئے پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے میں رات کو چوکیداروں کی قندیلوں کے پاس کھڑے ہوکر کتاب کا مطالعہ کرتا تھا۔
، اور یہ مطالعہ کا حاصل اور شعور ہی ہے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ قوموں کی ترقی میں نوجوان ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مطالعہ کا کم ہوتا رجحان ایک ’’کینسر‘‘ بن گیا ہے جو اب قومی زندگی کی ’’ریڑھ کی ہڈی‘‘ میں بڑھتا اور پھیلتا جارہا ہے۔ علم کا تعلق کسی قوم سے ایسا ہی ہے جیسا جسم اور روح کا ہے۔ جسم سے روح الگ ہوتی ہے تو انسان مرجاتا ہے، اور جب کسی قوم کے نوجوانوں سے علم الگ ہوجائے تو موت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ انسان کی عقلی اور فکری صحت کے لیے مطالعہ انتہائی اہم ہے۔ یہ انسان کی قوتِ تخیل کو مضبوط کرتا ہے۔ علم، سمجھ، فہم و فراست میں اضافہ کرنے کے ساتھ فکر و رائے کو مضبوط کرتا ہے۔ عظیم اور ترقی یافتہ معاشروں میں عقل و دانش رکھنے والے افراد معاشرہ سازی کا کام کرتے ہیں، اور عقل و دانش کسی دماغ میں خودبخود وارد نہیں ہوتی بلکہ یہ کتابوں میں پوشیدہ اور پنہاں ہوتی ہے، اورکتابوںکی ورق گردانی اور مشاہدے سے حاصل ہوتی ہے۔ مطالعہ فکر ونظر کے زاویے کو ٹھیک، تبدیل اور وسیع کرتا ہے۔ آپ کسی ’’پرانے‘‘ استاد، ادیب، شاعر سے ملیں یا کسی علمی یا تعلیمی کانفرنس میں شریک ہوں، ہرطرف ایک ہی رونا ہے کہ ہمارا نوجوان پڑھ نہیں رہا۔ اور اس نہ پڑھنے کے کئی مفاہیم میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمارا نوجوان دروں بیں نہیں رہا تو وہ زندگی کی معنویت کیسے تلاش کرسکتا ہے! اب سوال یہ ہے کہ یہ صورت حال کیوں ہے؟ کیا انٹرنیٹ اور موبائل نے زندگی کا رخ تبدیل کردیا ہے، یا بحیثیت قوم کبھی مطالعہ اور علم ہمارا موضوع ہی نہیں رہا اور ہمارا معاشرہ کتابیں پڑھنے اور مشاہدہ کرنے والا معاشرہ ہے ہی نہیں؟ ہمیں کتابیں نہ پڑھنے کی تاویلیں ڈھونڈنا ہوتی ہیں۔ ہمارا نیم خواندہ معاشرہ ناخواندہ رہنا چاہتا ہے۔ کیا واقعی ٹیلی ویژین اور انٹرنیٹ کے اس دور میں کتابیں اپنی اہمیت کھو چکی ہیں اور کتابیں پڑھنے کا رجحان اس وجہ سے کم ہوا ہے؟ اورکیا مغرب میں بھی یہی صورت حال ہے؟ شاید اس کا جواب نفی میں ہوگا، کیونکہ جو مغرب پوری طرح ٹیکنالوجی میں ڈوبا ہوا ہے وہ مطالعہ اور تحقیق میں بھی ڈوبا ہوا ہے اور وہ اب ڈیجیٹل کتابیں بھی پڑھ رہا ہے جبکہ ہم ٹیکنالوجی کو صرف تفریح کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا میں ای ریڈرز کا انتہائی اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود آج بھی پرنٹ اخبارات اور کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ آسٹریلیا میں 85.5 فیصد لوگ اخبارات پڑھتے ہیں جن میں سے 77.5 فیصد پرنٹ اخبارات کو ترجیح دیتے ہیں۔ برطانیہ میں اخبارات پڑھنے والوں کی تعداد کل بالغان کا 83.2 فیصد ہے۔ امریکا، کینیڈا سے پلٹ کر آنے والے بھی یہی بتاتے ہیں کہ وہ پڑھنے والی قوم ہے۔ ان کے بس اسٹاپ، ریلوے اسٹیشن، ائیرپورٹ اور ان کے جہاز اس کی گواہی دیتے ہیں۔ مطالعہ کرنا ان لوگوں کی ثقافتی روایات کا حصہ ہے جو تسلسل سے جاری ہے۔ بدقسمتی سے ہم مسلمان جن کا فخر علم اور تحقیق تھا اور علم جن کی میراث تھی، وہ اس شوق اور ذوق سے دور ہوکر بلندی سے پستی کی طرف آگئے ہیں۔ ہماری پستی اور زبوں حالی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں لائبریریاں ختم ہورہی ہیں اور کتابوں کی دکانیں کھلونوں، پھلوں اور موبائل کی دکانوں میں تبدیل ہورہی ہیں۔ مطالعہ کی بات تو یہ ہے کہ جن قوموں کی زندگی میں علم کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے ان کے نوجوانوں کی ساری زندگی کی عمارت اسی بنیاد پر تعمیر وکھڑی ہوتی ہے اور قومیں اپنے علم اور مشاہدے کے ذریعے ہی اپنے مقاصد ِ حیات، نصب العین، تہذیب و تمدن اور اخلاق و معاشرت کا اظہار کرتی ہیں۔ جن قوموں نے مطالعہ، علم وتعلّم کے اس راز کو پا لیا وہ آج بام عروج پر ہیں، اور جنہوں نے مطالعہ اور کتاب کی اہمیت و افادیت سے صرفِ نظرکیا وہ آج محکوموں کی حیثیت سے زندہ ہیں مگر بھٹک رہی ہیں۔ مطالعہ کا فقدان اور ہماری علمی پس ماندگی کے نتائج زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں ہیں۔ ہم تنگ نظری، تعصب اور عدم برداشت کا شکار ہیں۔ ہمارا نوجوان قومی تاریخ وروایات سے بیگانہ ہے، مغرب کے جھوٹے معیار، جھوٹے نظریات اور جھوٹی اقدار سے متاثر ہورہا ہے۔ وہ اپنی دلیری، شجاعت اور بلند پروازی کو چھوڑ کر احساس ِ کمتری کا شکار ہورہا ہے، ہمارا نظام فکر تک درآمد ہورہا ہے۔ معاشرے سے زندگی کی خوبصورتی، دلکشی اور مسکراہٹیں ختم ہورہی ہیں اور رشتے جہالت کی نذر ہورہے ہیں۔ جرنل آف سوشل سائنسز اینڈ میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق مطالعہ ایک مفید مشغلہ ہے جو قلب و ذہن کو روشن کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق پڑھنے کی عادت صحت پر بہت اچھے اثرات مرتب کرتی ہے۔ کتابوں کا مطالعہ زندگی بڑھانے اور طویل عمری کی وجہ بھی ہوسکتا ہے اور مطالعہ کی عادت ذہنی تناؤ اور پریشانی کو 68 فیصد کم کرتی ہے۔کتاب پڑھنے والا معاشرہ سوچنے والا معاشرہ ہوتا ہے اور جس معاشرہ میں سوچنے اور غور فکر کا عمل جاری رہتا ہے وہ زوال کا شکار نہیں ہو تا ۔ہمیں بحیثیتِ مجموعی اور بالخصوص بچوں اور نوجوانوں میں مطالعہ کا شعور اجاگر کرنے کی قومی تحریک شروع کرنا ہوگی، ایک ایسی تحریک جو معاشرے کو باشعور اور کتاب دوست بنانے میں مدد دے سکے، اور یہ تحریک اُسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب’’مطالعہ کرو‘‘ تحریک کا ہراول دستہ نوجوان ہوں۔ اپنی لاعلمی کے احساس کا نام علم ہے۔ آئیے اس احساس کے ساتھ کتاب اٹھائیے اوراس تحریک کے کارکن بن جائیے۔ آخر میں ہم نامور برطانوی ادیب سمرسٹ ماہم کی ایک اہم بات بتاتے ہیں ۔سمرسٹ ماہم وہ ادیب تھا جس نے 91 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے تقریباً100 کے قریب ناول، ڈرامے اور کہانیاں لکھیں۔وہ کہتا ہے کہ ’’مطالعے کی عادت اختیار کرلینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے گویا دنیا جہاں کے دکھوں سے بچنے کے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ تیار کرلی ہے۔ویسے بھی ہم جس قسم کے معاشرے میں آج جی رہے اس میں کتاب کی اہمیت پہلے سے بحی زیادہ ہے امام غزالی رح نے اسی پس نظر میں کہا تھا کہ ’’بری صحبت سے تنہائی اچھی ہے، لیکن تنہائی سے پریشان ہو جانے کا اندیشہ ہے، اس لئے اچھی کتابوں کے مطالعے کی ضرورت ہے۔

حصہ