قیصر و کسریٰ قسط (1)

664

ایک روز، دوپہر سے کچھ پہلے عاصم اور عباد یروشلم سے کوئی پانچ کوس دور پھر اُس سرائے کے قریب پہنچ چکے تھے جہاں انہوں نے چند ہفتے قبل دمشق جاتے ہوئے ایک رات قیام کیا تھا۔ اپنی عمر کے لحاظ سے عاصم اُن تندرست اور توانا لوگوں میں سے تھا جو بچوں میں جوان اور جوانوں میں کمسن دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم اُس کا خوبصورت چہرہ ان طوفانوں سے آشنا معلوم ہوتا تھا جو ایک نوجوان کو قبل از وقت سنجیدہ بنادیتے ہیں۔ اپنے لباس سے وہ ایک عالی نسب عرب معلوم ہوتا تھا اور اس کی سیاہ اور چمکیلی آنکھیں شوخی، ذہانت اور غرور کے علاوہ اُس حوصلے اور خود اعتمادی کی آئینہ دار تھیں جو عمر کا ایک حصہ ناہموار اور پُرخطر راستوں پر گزارنے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ وہ ترکش کمان اور تلوار سے سجا ایک خوبصورت کُمیت گھوڑے پر کچھ اس انداز سے بیٹھا تھا کہ اگر اُس کے دائیں بائیں مسلح دشمن کی صفیں ہوتیں تو بھی اُس کی خود اعتمادی میں فرق نہ آتا۔ یا اگر وہ ایک عرب کے بجائے کسی رومی سپاہی کے لباس میں ہوتا اور اُس کے پیچھے ایک غلام کے بجائے سواروں کی فوج ہوتی تو اُس کی بے باک نگاہیں اس فوج کی فتح کی ضمانت سمجھی جاتیں۔ تاہم اگر یہ نوجوان کسی گزر گاہ پر چند اچھلتے، کودتے اور ہنستے کھلکھلاتے بے فکر لڑکوں کے ساتھ نمودار ہوتا تو تماشائی اُس کے سپاہیانہ انداز کے بجائے اُس کی مسکراہٹیں دیکھنا اور اُس کے قہقہے سننا زیادہ پسند کرتے۔
عباد، اُس کا دراز قامت اور بھاری بھرکم غلام جو عمر میں اُس سے دس بارہ سال بڑا معلوم ہوتا تھا، ایک اونٹ پر سوار تھا اور دوسرے اونٹ پر جس کی نکیل عباد کے اونٹ کی دم سے بندھی تھی، سامان لدا ہوا تھا۔
سرائے کی چار دیواری باہر سے ایک قلعے کی فصیل معلوم ہوتی تھی۔ عباد اور عاصم دروازے کے سامنے اُتر پڑے اور اپنے گھوڑے اور اونٹوں سمیت اندر داخل ہوئے۔ سرائے کی دو منزلہ عمارت زیادہ بڑی نہ تھی لیکن صحن خاصا کشادہ تھا۔ برآمدے کے آگے لکڑی کے ستونوں پر کھجور کے تنوں اور پتوں کی چھت کے نیچے عام مسافروں کے لیے ایک طرف چٹائیاں بچھی تھیں اور دوسری طرف چند بوسیدہ میزیں اور تخت پڑے تھے۔ باقی صحن میں جگہ جگہ انجیر اور زیتون کے درخت تھے۔ بائیں ہاتھ کی دیوار کے ساتھ ایک طویل چھپرا اصطبل کا کام دیتا تھا جس کے اندر چند گھوڑے اور باہر چند اونٹ بندھے ہوئے تھے اور قریب ہی چند مسافر درختوں کی چھائوں میں سُستا رہے تھے۔
چار یہودی ایک میز کے گرد بیٹھے جوا کھیل رہے تھے۔ اُن سے تھوڑی دور ایک قوی ہیکل شامی جو اپنی قیمتی قبا اور عمامے سے کسی قبیلے کا رئیس معلوم ہوتا تھا، شراب پی رہا تھا اور ایک حبشی غلام ادب سے سر جھکائے اس کے قریب کھڑا تھا۔ شامی تلوار اور خنجر سے مسلح تھا اور شراب کے اثر سے اُس کے چہرے کی خشونت درندگی میں تبدیل ہورہی تھی۔
تیسری میز پر قبرص کے دو عیسائی جو یروشلم کی زیارت کے لیے آئے تھے، کھانا کھا رہے تھے اور سرائے کا مالک، ایک شگفتہ مزاج مصری، جس کا نام فرمس تھا، اُن سے باتیں کررہا تھا۔
جب عاصم اور عباد اپنے گھوڑے اور اونٹوں کو درختوں سے باندھ رہے تھے، فرمس اچانک اُن کی طرف متوجہ ہوا اور جلدی سے آگے بڑھ کر بولا۔ ’’اگر آپ یہاں ٹھہرنا چاہتے ہیں تو ان اونٹوں کو یہاں باندھنے کے بجائے چرنے کو باہر چھوڑ دیں۔ میں ان کی حفاظت کے لیے ایک نوکر بھیج سکتا ہوں‘‘۔
عاصم نے جواب دیا ’’نہیں ان پر سامان لدا ہے اور ہم یہاں سے ابھی روانہ ہوجائیں گے، میں عرب تاجروں کے ایک قافلے کے ساتھ شامل ہونا چاہتا ہوں۔ یہ لوگ غطفان اور کلب قبائل سے تعلق رکھتے ہیں، کئی منزلوں تک میرا اور اُن کا راستہ ایک ہوگا۔ وہ مجھ سے چار دن پہلے روانہ ہوگئے تھے، شاید آپ کو اُن کے متعلق کچھ معلوم ہو‘‘۔
فرمس نے جواب دیا۔ ’’وہ کل ہی یہاں سے گزرے ہیں اور یروشلم میں ایک دو ہفتے ضرور قیام کریں گے‘‘۔
عاصم نے کہا… ’’نہیں وہ ایک دن سے زیادہ نہیں ٹھہریں گے۔ عرب میں امن کے ایام ختم ہونے کو ہیں اور میری طرح اُن کے لیے بھی کسی تاخیر کے بغیر گھر پہنچنا ضروری ہے۔ میں آج شام تک یروشلم پہنچنا چاہتا ہوں۔ آپ ہمارے لیے کھانے کا انتظام کردیجیے۔ اور اگر آپ کا نوکر، جس نے پچھلی مرتبہ میرے گھوڑے کی نعل بندی کی تھی، فارغ ہے تو اُسے بلادیجیے۔ میں نئے نعل لگوانا چاہتا ہوں اور ایسا کاریگر مجھے راستے میں کہیں اور نہیں مل سکے گا‘‘۔
’’یہ کام ابھی ہوجائے گا۔ پہلے یہ بتائیے کہ آپ کا سفر کیسا رہا؟‘‘
عاصم نے جواب دیا ’’دمشق میں میرے گھوڑے بہت اچھی قیمت پر فروخت ہوئے تھے۔ لیکن جنگ کے باعث وہاں تلواروں کی قیمت بھی بہت زیادہ تھی۔ اس لیے میں نے صرف چند تلواریں خریدنے پر اکتفا کیا ہے اور باقی سرمائے سے ریشمی کپڑا خرید لیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ کپڑے کی تجارت سے مجھے اچھا خاصا نفع ہوگا اور پھر اگر مزید تلواروں کی ضرورت پیش آئی تو ہم موتہ سے سستی قیمت پر منگواسکیں گے‘‘۔
فرمس نے سنجیدہ ہو کر کہا ’’میں دعا کرتا ہوں کہ اپنے وطن پہنچ کر تم یہ سنو کہ تمہاری جنگ ختم ہوچکی ہے اور تمہیں مزید تلواریں خریدنے کی ضرورت نہیں‘‘۔
عاصم نے جواب دیا ’’ہم واقعی جنگ سے تنگ آچکے ہیں اور دونوں قبائل کے بیشتر خاندان امن کے خواہش مند ہیں۔ لیکن میرا خاندان اُن میں سے نہیں ہے۔ میرے لیے اِس سے بُری خبر اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ اَدس اور خزرج کی جنگ ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکی ہے اور میں اپنے باپ اور بھائیوں کے خون کا بدلہ نہیں لے سکتا۔ میرے چچا نے مجھے صرف اس لیے تلواریں خریدنے بھیجا تھا کہ ہمارے قبیلے کے دولت مند لوگ جن کے پاس تلواریں ہیں لڑائی سے منہ پھیر چکے ہیں اور غریب جن کی حمیت ابھی تک زندہ ہے، یہودی تاجروں کو تلواروں کی منہ مانگی قیمت ادا نہیں کرسکتے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ تلواریں حاصل کرلینے کے بعد جب چند آدمی میدان میں نکل آئیں گے تو قبیلے کا کوئی آدمی گھر میں نہیں بیٹھ سکے گا‘‘۔
فرمس نے گفتگو کا موضوع بدلنے کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے کہا ’’تم اپنا بہترین ؟؟؟؟ واپس لے آئے ہو۔ اگر اب بھی اپنا ارادہ بدل سکو تو میں اسے خریدنے کے لیے تیار ہوں‘‘۔
عاصم نے جواب دیا ’’اگر اسے فروخت کرنے کی نیت ہوتی تو میں پہلے ہی انکار نہ کرتا۔ آپ کی طرح دمشق میں بھی کئی خریدار اس کی منہ مانگی قیمت ادا کرنے کو تیار تھے، لیکن یہ میرا بہترین دوست ہے‘‘۔
فرمس نے کہا ’’بہت اچھا اگر یہ گھوڑا تمہیں اتنا ہی عزیز ہے تو میں اصرار نہیں کرتا۔ آئو، میں تمہارے کھانے کا انتظام کرتا ہوں‘‘۔
عاصم فرمس کے ساتھ چل دیا۔ لیکن چند قدم چلنے کے بعد اُس نے مُڑ کر اپنے ساتھی کی طرف دیکھا اور کہا۔
’’آئو عباد!‘‘
عباد اپنے نوجوان آقا کے ساتھ خاصا بے تکلف تھا، لیکن دوسروں کی موجودگی میں اُسے ایک غلام کی حدود سے تجاوز کرنا پسند نہ تھا۔ اُس نے کہا ’’نہیں جناب آپ میرا کھانا یہیں بھجوادیجیے‘‘۔
فرمس نے پوچھا ’’آپ نے یہ غلام کہاں سے حاصل کیا؟‘‘
عاصم نے جواب دیا ’’جب یہ سات آٹھ سال کا تھا تو اسے میرے والد نے یمن کے ایک یہودی تاجر سے خریدا تھا، اس وقت تک میں پیدا بھی نہیں ہوا تھا‘‘۔
فرمس اپنے ایک نوکر کو گھوڑے کی نعل بندی کرانے اور دوسرے کو کھانا لانے کا حکم دے کر عاصم کے ساتھ چھپر کے نیچے بیٹھ گیا۔
عاصم نے کہا ’’آپ کو یاد ہے، میں ایک مرتبہ پہلے بھی یہاں آیا تھا؟‘‘
’’کب؟‘‘
’’کوئی چار سال قبل میں نے اپنے والد کے ساتھ یہاں تین دن قیام کیا تھا اِس کے بعد ہم ایک قافلے کے ہمراہ دمشق چلے گئے تھے۔ قریباً چھ مہینے وہاں گزارنے کے بعد ہم واپسی پر بھی ایک دن یہاں ٹھہرے تھے‘‘۔
فرامس نے کہا ’’مجھے یاد نہیں، لیکن پچھلی مرتبہ سریانی میں تمہاری گفتگو سننے کے بعد میرا اندازہ تھا کہ تم پہلے بھی ان علاقوں کی سیاحت کرچکے ہو‘‘۔
عاصم نے کہا میں غیر زبانیں لکھنے کے معاملہ میں خاصا تیز ہوں… چنانچہ دمشق میں چھ مہینے بعض رومیوں سے میل جول کے باعث میں نے اُن کی زبان میں بھی شُدبُد پیدا کرلی تھی‘‘۔
دوسری میز پر جوا کھیلنے والے یہودیوں میں سے ایک آدمی اُٹھا اور اس نے آگے بڑھ کر عاصم سے کہا ’’نوجوان! ہمارے ساتھ قسمت آزمائی نہیں کرو گے؟‘‘
’’نہیں، میں نے گھر سے روانہ ہوتے وقت قسم کھائی تھی کہ اپنا عہد پورا کر۔ سے پہلے میں جو اکھیلوں گا، نہ شراب کو ہاتھ لگائوں گا‘‘۔
’’تو پھر تم عرب نہیں ہوسکتے‘‘۔
عاصم نے کہا ’’اگر تمہیں اصرار ہے تو میں تمہارے ساتھ جوا کھیلے بغیر بھی اپنے عرب ہونے کا ثبوت دے سکتا ہوں‘‘۔
یہودی نے عاصم سے اُلجھنے کی ضرورت محسوس نہ کی اور کچھ کہے بغیر اپنے ساتھیوں کی طرف چل دیا۔
اچانک شامی رئیس جو شراب کی صراحی خالی کرچکا تھا، اپنی جگہ سے اٹھا اور یہودیوں کے قریب جا کر بولا۔
’’میں تمہارے ساتھ قسمت آزمائی کو تیار ہوں‘‘۔
یہودی پریشان ہو کر اس دیوقامت انسان کی طرف دیکھنے لگے، بالآخر اُن میں سے ایک نے قدرے جرأت سے کام لیتے ہوئے کہا ’’نہیں جناب! ہم غریب یہودی ایک معزز شامی کے ساتھ بازی لگانے کی جسارت نہیں کرسکتے‘‘۔
شامی نے اُس کی گردی دبوچ کر کرسی سے نیچے پھینک دیا اور گرجنی ہوئی آواز میں کہا ’’اگر تم یہودی ہو تو تمہیں ہمارے برابر بیٹھنے کی جرأت کیسے ہوئی؟‘‘
دوسرے یہودی نے کہا ’’جناب یہ ایک سرائے ہے اور آپ کو یہاں ہمارے ساتھ زیادتی نہیں کرنی چاہیے‘‘

حصہ