پرچھائیں

181

’’اُف، کیا مصیبت ہے۔‘‘ اس نے موبائل اٹھایا تو کیمرے کے بٹن پر انگلی لگ گئی اور کیمرہ آن ہوگیا۔ اس نے جھلاّ کر کیمرہ بند کرنا چاہا تو نہ جانے کیسے اس کی اپنی تصویر کھنچ گئی۔ ایک لمحے کے لیے تو وہ اپنی تصویر کو دیکھتی رہ گئی۔
’’یہ میں ہوں…؟‘‘ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔
سانولا رنگ، چھوٹے چھوٹے بال، مردوں کے سے کپڑے… ’’یہ میں کیا سے کیا ہوگئی؟‘‘ وہ یک ٹک اپنی تصویر کو دیکھتی ہی چلی گئی۔
اچانک اس کی نظر سامنے لگی تصویر پر پڑی، جس میں اس کے بھائی بہن مسکراتے نظر آرہے تھے، ’’میں بھی تو کبھی ایسی ہی تھی، خوش و خرم اور اب…!‘‘ اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔
’’بھائی بہنوں کو خوش و خرم دیکھنے کے لیے ہی تو تم نے یہ سوانگ رچایا تھا۔‘‘
’’ٹھیک ہی تو ہے، سب خوش ہیں نا۔ میں ایسی ہوگئی تو کیا ہوا، کسی ایک کو تو قربانی دینی ہی تھی، میں نہ کرتی تو کوئی اور کرتا، جس کا جو نصیب اس کو مل گیا۔‘‘ وہ اپنے آپ سے باتیں کیے چلی جارہی تھی۔ نہ جانے اس کو آج کیا ہوگیا تھا۔
’’کیا ہوگیا ہے مجھے؟ کیا میں نے اس سے پہلے اپنے آپ کو نہیں دیکھا تھا؟ ایسا کیا ہوگیا تھا آج ؟‘‘
’’تم تھک گئیں زیب النساء؟‘‘ اس نے خود ہی سوال کیا اور خود ہی جواب دیا۔
’’ہاں شاید میں تھک گئی ہوں۔ لیکن میں خوش ہوں کہ میں نے اپنا کام کرلیا۔‘‘
’’لیکن تم تو اکیلی رہ گئیں زیبی۔‘‘ اس نے ایک نظر تصویر پر ڈالی۔ ’’سب کامیاب ہوگئے، خوش ہیں، ایک ساتھ ہیں، میرے لیے یہی بہت ہے۔ کم از کم میری محنت رائیگاں تو نہیں گئی، میں نے سب کو اپنے مقام پر پہنچا تو دیا۔ اس خاندان کو کامیاب و کامران بنانے کے لیے ہی تو میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ میں ابو کی بیٹی نہیں، بیٹا بن کر دکھاؤں گی، ہاں میں بہت خوش ہوں۔ میں کامیاب ہوگئی۔‘‘ اس نے سکون سے آنکھیں موند لیں اور سر کرسی کی پشت پر ٹکا دیا۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے امی اور ابو اس کے پاس ہیں، وہ ان کی خوشبو محسوس کررہی تھی۔ ابو نے اس کے ماتھے کا بوسہ لیا۔
اسے ابو کی سرگوشی سنائی دی’’ تھک گیا میرا بیٹا؟‘‘
’’اسے ساتھ لے چلیں…؟‘‘ امی نے ابو سے پوچھا۔
’’چلو زیبی…!‘‘ اس کو امی کی آواز آئی اور اس نے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دیا۔ موبائل اس کے ہاتھ سے نیچے گر گیا۔
’’چلیں آپی…! آپ آرام سے یہاں بیٹھی ہیں، ہم کب سے آپ کو کال کررہے ہیں، نہ آپ فون اٹھا رہی ہیں اور نہ ہی گھر آرہی ہیں… چلیں آپ کو لینے آئے ہیں۔‘‘ ردا نے کہا۔
’’آپ کو کہا بھی تھا کہ آپ آج جلدی آئیے گا۔‘‘ شایان کہتا ہوا اس کی طرف بڑھا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھانا چاہا، مگر یہ کیا؟ وہ جہاں تھا وہیں کھڑا رہ گیا۔
’’زیبی تو امی ابو کے ساتھ چلی گئی تھی، اس کا کام جو ختم ہوگیا تھا، پھر وہ امی ابو کو کیسے منع کرتی!
فضا میں ایک سوگواری سی پھیل گئی اور کرسی پر زیب النسا کا مسکراتا بے جان وجود اس تصویر کو دیکھ کر سکون سے اگلے جہان روانہ ہوگیا تھا، جہاں اس کے لیے آرام ہی آرام تھا۔
شایان نے بہتے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش نہیں کی، اور آگے بڑھ کر آپی کی آنکھیں بند کردیں۔

حصہ