آئینہ

260

’’بابا! امی آپ کو بلا رہی ہیں۔‘‘ علی نے کمرے میں آکر اسے اپنی ماں کا پیغام دیا۔
’’ہونہہ…‘‘ ندیم کے ہونٹوں پر تلخ مسکراہٹ آگئی۔ وہ جانتا تھا کہ نسرین اسے کیوں بلا رہی ہے۔ ’’آرہا ہوں بیٹا!‘‘ اس نے ماں سے اجازت لی اور اٹھ کھڑا ہوا۔
ندیم جب بھی آفس سے واپس آکر پہلے ماں کے پاس جاتا تو نسرین کا پارہ ہائی ہوجاتا۔ وہ نسرین کے پاس باورچی خانے میں آگیا۔
’’فرصت مل گئی آپ کو…!‘‘ نسرین نے تیکھے انداز میں کہا۔
’’یہ کیا طریقہ ہے، نہ سلام، نہ دعا…بس آتے ہی شروع ہوگئیں۔ ذرا احساس نہیں کہ شوہر تھکا ہارا گھر آیا ہے۔‘‘
’’تو شوہر کو کون سا بیوی کا احساس ہے! گھر آتے ہی ماں کے گھٹنے سے لگ کر بیٹھ جاتے ہیں۔‘‘ نسرین نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
’’تم سے تو بات کرنا ہی فضول ہے۔‘‘ ندیم چڑ کر فریش ہونے کے لیے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
کھانے کے دوران خاموشی طاری رہی۔ بس علی اور اس کی چھوٹی بہن منال ہی چھوٹی موٹی باتیں کرتے رہے۔
ندیم کے والد کا بہت عرصے پہلے انتقال ہوچکا تھا۔ ایک ہی بہن تھی، وہ بھی بیاہ کر سعودی عرب چلی گئی تھی۔ اس کی والدہ جوڑوں کے درد کی مریضہ تھیں۔ اکثر بلڈ پریشر بھی ہائی رہتا تھا، اسی لیے ندیم اُن کا بہت خیال رکھتا تھا۔ آفس جانے سے پہلے ان سے ضرور ملتا۔ اُسے لگتا تھا جیسے ماں کی دعائیں سارا دن اس کا حصار کیے رہتی ہیں۔ اور واپس آکر بھی پہلے ماںکو سلام کرتا، ان کا حال احوال معلوم کرتا۔ ندیم کی اتنی فرماں برداری نسرین کو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔
والد کے انتقال کے بعد ندیم کی والدہ نے بہت ہمت و حوصلے سے دونوں بہن بھائی کی پرورش کی۔ دنیا کے سرد و گرم کا مقابلہ کیا، انہیں اس قابل بنایا کہ معاشرے میں اچھا مقام حاصل کرسکیں۔ ندیم اپنی ماں کا بہت تابع دار تھا۔ اس کی ماں اسے دعائیں دیتے نہ تھکتی تھیں۔ نسرین سے اس نے پسند کی شادی کی تھی، یہی وجہ تھی کہ نسرین کو ہر وقت شکوہ رہتا کہ شادی کے بعد ندیم بدل گیا ہے اور اس سے زیادہ اپنی ماں کا خیال رکھتا ہے، بیوی بچوں کے لیے تو اس کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا۔ ندیم نے ہمیشہ بیوی بچوں کا خیال رکھا، ان کی ہر ضرورت پوری کی۔ کبھی کبھار باہر گھمانے بھی لے جاتا تھا، لیکن نسرین کے گلے شکوے تھے کہ ختم ہی نہ ہوتے۔
ماں کے کاموں کے لیے اس نے ایک ملازمہ رکھی ہوئی تھی۔ اس پر بھی نسرین کو اعتراض تھا کہ اتنے پیسے ملازمہ کی تنخواہ میں چلے جاتے ہیں۔ علاج معالجے پر بھی اتنا خرچا ہوتا ہے۔
’’اللہ سے ڈرو نسرین! کیوں ایسی باتیں کرکے میری ماں کو دکھی کرتی ہو‘‘۔ ندیم اسے سمجھاتا۔
’’آپ ڈریں اللہ سے جو میرا اور میرے بچوں کا حق مارتے ہیں۔‘‘ نسرین کا وہی رونا۔
’’میں اپنا فرض پورا کرتا ہوں، تمہارا بھائی اپنی ماں کے لیے کچھ کرے تب بھی تم یہی کہو گی؟‘‘ ندیم نے احساس دلاتے ہوئے کہا۔
’’میری ماں ان پر بوجھ بن کر نہیں بیٹھی ہوئی ہیں۔‘‘ نسرین نے بدلحاظی کی حد ہی پار کردی۔
’’بکواس بندکرو اپنی… آئندہ میری ماں کے لیے منہ کھولنے سے پہلے سوچ لینا۔ میں بھی تین الفاظ بول کر تمہیں فارغ کردوں گا۔‘‘
نسرین دھک سے رہ گئی۔ ندیم غصے میں باہر نکلا تو سامنے اماں کھڑی تھیں۔ ندیم شرمندہ سا ہو گیا۔
’’بیٹا میری وجہ سے اپنا گھر خراب مت کرو۔‘‘ اماں کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
کچھ دن سکون سے گزرے۔ ندیم کے سامنے تو نسرین کچھ نہ بولتی، لیکن ندیم کو اندازہ تھا کہ وہ اس کی عدم موجودگی میں ماں کے سامنے اپنی بھڑاس نکالتی ہوگی۔
’’آپ کل آفس سے جلدی گھر آجایئے گا، سہیل بھائی کے بیٹے کا عقیقہ ہے۔‘‘ نسرین نے چائے دیتے ہوئے ندیم سے کہا اور خود بھی اپنا کپ لے کر وہیں بیٹھ گئی۔ ندیم کی نظریں بدستور اخبار پر تھیں۔
’’اسے تو رکھیں۔‘‘ نسرین نے اس کے ہاتھ سے اخبار لے لیا۔ ’’مجھ سے اچھا تو یہ اخبار ہے، اس پر آپ کی کتنی توجہ ہوتی ہے۔‘‘ نسرین کا وہی طنزیہ انداز۔
’’تمہاری کڑوی کسیلی باتیں سننے سے بہتر ہے کہ میں اخبار پڑھ کر وقت گزار لوں۔‘‘ ندیم نے دل میں سوچا۔
’’کن سوچوں میں گم ہیں؟ میں آپ سے بات کررہی ہوں۔‘‘ نسرین چڑ سی گئی۔
’’ہاں ٹھیک ہے، چلیں گے۔ اچھا ہے اماں بھی اس بہانے گھر سے نکلیں گی، ورنہ وہ تو گھر تک ہی محدود ہوگئی ہیں۔‘‘
’’نہیں بھئی اماں کیسے جاسکتی ہیں! ایک تو انہیں لے جانا مشکل ہوتا ہے، پھر پورا وقت انہیں ہی دیکھتے رہو، سارا مزا ہی خراب ہوجاتا ہے۔‘‘ نسرین کے لہجے سے بے زاری جھلک رہی تھی۔
’’تو پھر ٹھیک ہے، میں گھر پر اماں کے ساتھ رہوںگا، تم بچوں کو لے کر چلی جانا اور خوب مزے کرنا۔‘‘ ندیم نے دوٹوک انداز میں کہا اور اٹھ کر چلا گیا۔
’’ہونہہ مصیبت ہی گلے پڑ گئی ہے۔‘‘ نسرین نے جھلّا کر چائے کے کپ اٹھائے اور لے جاکر سنک میں پٹخ دیے۔ گھر بہت بڑا تو تھا نہیں کہ آوازیں اماں کے کانوں تک نہ جاتیں۔ ہر تھوڑے دن بعد یہی ہنگامہ ہوتا اور اماں بے بسی سے بے آواز رو دیتیں۔
’’اماں! اماں…! آنکھیں کھولیں۔‘‘ بہت دن سے اماں کی طبیعت خراب تھی۔ آج صبح جب ندیم اماں کے کمرے میں آیا تو وہ بے سدھ پڑی تھیں۔ ندیم کے تو جیسے پیروں تلے زمین ہی نکل گئی۔ اماں خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ مالک نے ان کی مشکل آسان کردی۔
’’ بابا! دادی جان جنت میں چلی گئیں نا؟‘‘ علی نے باپ کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں وہ بہت اچھی جگہ چلی گئیں۔ اب وہاں سکون سے رہیں گی، ورنہ یہاں تو…‘‘ ندیم سے پورے الفاظ ادا نہ ہوسکے۔
’’مجھے پتا ہے یہاں مما دادی کو بہت ڈانٹتی تھیں۔‘‘ علی نے رنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
خاصے عرصے بعد پرانا دیکھا بھالا منظر پھر سامنے تھا۔
’’علی! بس بہت ہوگیا، میں مزید برداشت نہیں کرسکتی۔‘‘
’’کیا برداشت نہیں کرسکتیں؟‘‘
’’یہی کہ میں اور میرے بچے آپ کی توجہ کے لیے ترستے رہیں اور آپ اپنا وقت اور پیسہ اپنے والدین کی نازبرداریوں میں، ڈاکٹروں اور اسپتالوں کی فیسیں بھرنے میں لٹاتے رہیں۔‘‘
’’رمشا زبان سنبھال کر بات کرو۔ وہ میرے والدین ہیں اور مجھ پر بوجھ نہیں ہیں۔ آج میں جس مقام پر ہوں انہی کی وجہ سے ہوں۔ اگر تمہیں مسئلہ ہے تو اپنے گھر جا سکتی ہو۔ آئندہ مجھ سے کوئی فضول بات مت کرنا۔‘‘ علی نے اپنی بیوی رمشا کو سختی سے ٹوکا اور باہر نکل گیا۔
سامنے نسرین کو کھڑا دیکھ کر ٹھٹھک گیا ’’امی آپ…؟‘‘ علی کو ندامت محسوس ہورہی تھی۔
’’بیٹا ہماری وجہ سے اپنے گھر کا سکون خراب مت کرو۔‘‘ نسرین کی آواز میں شکستگی تھی۔
’’کچھ نہیں ہوگا امی! آپ فکر مت کریں۔ میرا سکون، میری جنت تو آپ دونوں ہیں۔ ابو کہاں ہیں؟‘‘ علی نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’وہ کمرے میں ہی ہیں۔‘‘ نسرین لڑکھڑاتے قدموں سے کمرے میں واپس آگئی۔ سامنے بیٹھے ندیم سے نظریں ملانے کی اس میں ہمت ہی نہ تھی۔

حصہ