گھڑی چور

399

چودھری اسلم ایک بڑے گائوں میں رہتے تھے۔ جہاں بجلی اورٹیلی فون موجود تھا۔ ایک دن ان کی بیٹھک میں تین مہمان سلیم، مراد اور عامر بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔ سلیم پان کا بہت شوقین تھا۔ ہر وقت اس کے منہ میں پیک بھری رہتی۔ کبھی کبھی چھینکنے یا کھانستے وقت اس کے کپڑوں پر گر جاتی جس سے سرخ دھبے پڑ جاتے ۔ مراد کثرت سے سگریٹ پیتا۔ چند منٹ بعد اگر اسے سگریٹ نہ ملتی بے چین ہو جاتا۔ عامر لسی کا شوقین ۔ گرمی ہو یا سردی وہ دن میں لسی کے تین چار گلاس ضرور چڑھا لیتا تھا۔
اس وقت بھی لسی کا دور چل رہا تھا۔ عامر ایک گلاس پہلے ہی غٹا گٹ حلق میں انڈیل چکا تھا۔ اور دوسرا آدھا کر چکا تھا، جب کہ باقی تینوں ابھی پہلا ہی گلاس منہ سے لگائے ہوئے تھے۔ چودھری اسلم کا پندرہ سالہ لڑکا اکرم کمرے میں بار بار آ جارہا تھا تاکہ مہمانوں کو اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو وہ انہیں لا دے۔
جیسے ہی عامر نے لسی کا دوسرا گلاس ختم کیا وہاں بیٹھے سب لوگ بری طرح چونک پڑے۔ ہوا یہ تھا کہ ایک بڑا ٹرک وہاں سے گزر رہا تھا۔ اچانک اس کے بریک فیل ہو گئے اور وہ چودھری صاحب کے مکان سے ٹکرا گیا۔ جانی نقصان تو نہیں ہوا البتہ صحن کی دوار کا ایک حصہ ٹوٹ کر گر گیا۔ تھوڑی دیر بعد چودھری صاحب اور ان کے مہمان آکر اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے اور گپ شپ کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔
آدھے گھنٹے بعد جب مہمان چلنے کے لیے کھڑے ہوئے تو چودھری صاحب میز پر سومیل فی گھنٹہ کی رفتار سے نظریں دوڑاتے ہوئے بولے۔ ’’ارے میری ہیرا جڑی گھڑی کہاں گئی؟‘‘
سب اپنی جگہ ایک لمحے کے لیے سانس روکے کھڑے رہے۔ پھر بڑے زور و شور سے گھڑی کی تلاش شروع کر دی گئی، میز کے نیچے، صوفے کے پیچھے، الماری کی آڑ میں ، قالین کے نیچے، لیکن گھڑی کو بھی ضد تھی مل کر ہی نہیں دے رہی تھی۔
’’گھڑی آخر میز پر سے جا کہاں سکتی ہے؟‘‘ چودھری صاحب نے مہمانوں کی طرف دیکھا۔
’’چودھری صاحب! اگر آپ کو مجھ پر شک ہے تو میری تلاشی لے سکتے ہیں! ‘‘ سلیم نے برا منہ بنا کر کہا اور اپنی ساری جیبیں جھاڑ دیں۔
مراد نے بھی اس کی تقلید کی، مگر عامر اپنی جگہ ڈٹا رہا بلکہ غصے سے بولا۔ ’’چودھری صاحب! ہم بھی عزت رکھتے ہیں۔ آپ ہم پر شک کرکے ہماری توہین کررہے ہیں۔‘‘
تینوں مہمان جانے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ مراد میز پر سے اپنا سگریٹ کا بڑا پیکٹ اٹھانے ہی والا تھا کہ اکرم کمرے میں داخل ہوا اور بولا۔ ’’آپ میں سے اس وقت تک کوئی یہاں سے نہیں جا سکتا جب تک پولیس نہ آجائے۔ میں نے انسپکٹر کمال کو فون کر دیا ہے۔ وہ تھوڑی دیر میں یہاں پہنچنے ہی والے ہیں۔‘‘
سب حیرت سے اس کا منہ تکنے لگے۔ عامر غصے سے لال پیلا ہو رہا تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں وہاں پولیس پہنچ گئی۔
’’گھڑی مراد صاحب نے چرائی ہے، انسپکٹر صاحب! انہوں نے ضرور اسے اپنی سگریٹ کی ڈبیا میں چھپایا ہے۔‘‘ اکرم چیخا۔
’’کیا بکتا ہے؟‘‘ مراد غصے سے دہاڑا۔
جب انسپکٹر نے سگریٹ کا پیکٹ کھولا تو واقعی اس میں گھڑی جگ مگ جگ مگ کررہی تھی۔ مراد کو چوری کرنے پر گرفتار کر لیا گیا۔
’’اکرم بیٹے! کیا تم نے مراد کو ڈبیا میں گھڑی چھپاتے دیکھاتھا؟‘‘ انسپکٹر نے سوال کیا۔
’’نہیں جناب! مجھے اس لیے شک ہوا کہ مراد صاحب منٹ منٹ پر سگریٹ پیتے ہیں، لیکن انہوں نے ٹرک کے دھماکے کے بعد تقریباً آدھے گھنٹے تک کوئی سگریٹ نہیں پی۔ وہ بار بار ڈبیا کی طرف ہاتھ بڑھاتے تھے مگر ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹا لیتے تھے۔‘‘
’’تم بڑے ہو کر ضرور سراغ رساں بنوگے۔‘‘ انسپکٹر نے اکرم سے ہنستے ہوئے کہا۔

حصہ