بے مثال کارکن اور رہنماماسٹر ماجد غنی

504

ماسٹر ماجد غنی صاحب کچھ عرصہ قبل انتقال فرماگئے۔ان کے انتقال کی خبر سوشل میڈیا پر ان کی جس تصویر کے ساتھ پوسٹ کی گئی اور دھڑا دھڑا شیئر کی گئی اس میں وہ ہاتھ میں مائیک تھامے اظہار خیال کررہے تھے۔ ہمیشہ جب بھی کسی کیمپ ، ریلی ، مظاہرے یا دیگر کسی پروگرام میں یہ صورت پیدا ہوتی کہ ماسٹر صاحب ہاتھ میں مائیک پکڑتے تو موجود تما م لوگوں کو ایک پریشانی لاحق ہوجاتی تھی کیونکہ وہ ان مردان خدامست میں سے تھے جن کو مصلحت یا خوف سے کوئی تعلق نہ تھا متحدہ قومی مومنٹ کے عروج کا زمانہ ہو یا اس سے قبل لانڈھی میں حقیقی کا ان کی تلوارزبان کی کاٹ سے الطاف آفاق ، پولیس اور سیکیورٹی ادارے کوئی بھی بچ نہیں سکتا تھا ، سچ بولتے اور ڈٹ کر بولتے جس سے ہم جیسے مصلحت کوشوں کے پسینے چھوٹ جاتے۔ اس سچ اور دلیری کی انہوں نے بارہا قیمت بھی ادا کی اور تشدد کا نشانہ بنائے گئے۔ آپ کے آباکا تعلق بہار جہان آباد سے تھا پاکستان بننے کے بعد ہجرت کرکے مشرقی پاکستان آئے اور ڈھاکا کے علاقے میرپور میں سکونت اختیا ر کی مگر معلوم نہ تھا کہ ایک کے بعد دوسری ہجرت بھی کرنی پڑجائے گی۔ جب وہاں مکتی باہنی نے پاکستان مخالف سازش کا آغاز کیا تو ماسٹر صاحب البدر الشمس سے وابستہ رہے ، فوج کی مدد کی اور خون کے دریا میں اتر کر اس مملکت خداد کی سالمیت کی جدوجہد میں مصروف عمل رہے۔ بدترین حالات سے وہاں گزرے اور درجنوں بار موت کو بالکل قریب سے دیکھا شاید یہ بھی ایک وجہ تھی جس نے انہیں مکمل جری کردیا تھا۔وہاں سے 1973 میں ہجرت کرکے پاکستان تشریف لائے اورلانڈھی میں پڑائو ڈالا ۔آپ کے والد کی دکان لانڈھی نمبر 4 پر ہمارے دادا کی آر۔سی۔کولا کی ایجنسی کے ساتھ واقع تھی۔ یہاں جماعت اسلامی کے انتہائی فعال رکن کی حیثیت سے آخر سانس تک خداکے دین کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ پڑھے لکھے آدمی تھے انگریزی روانی سے بولتے تھے۔ درس وتدریس کے شعبے کو اختیار کیا اور پورے لانڈھی کورنگی کے بہترین استاد قرار پائے۔آزاد منش آدمی تھے لہذا سکولوں میں نوکری کے بجائے ٹیوشن پڑھاتے تھے صبح فجر کے بعد سے پڑھانے کا سلسلہ شروع ہوتا اور رات دیر تک جاری رہتا۔ لانڈھی کورنگی سے گلشن اقبال اور ڈیفینس تک جاکر بچوں کوپڑھاتے۔ ہم تینوں بھائیوں سمیت کئی کزنز کو ان کے طالب علم ہونے کا شرف حاصل رہا اور اس ہی عرصے میں انہیں قریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع ملا۔
عمومی طور پر تو لوگ تھانے جاکر اپنی شکایات درج کرواتے ہیں مگر تھانے سے ہمارے گھر ان کی شکایت کے فون آتے تھے۔والد محترم مرزا لقما ن بیگ شہید جماعت کے امیر ضلع تھے لہذا پولیس والوں کو ماسٹر صاحب کے عتاب سے بچانے کے لیے ایس۔ایچ۔او صاحبان ان کا سہارا لیا کرتے تھے۔ماسٹر صاحب جہاں کسی پولیس والے کو لوگوں پر ظلم کرتے دیکھتے یا رشوت وغیرہ لیتے دیکھتے تو فوری پہنچتے اور پھر پولیس اہلکار کو پکڑ کر تھانے لیجاتے اور وہاں خوب ہنگامہ ہوتا۔یہی وجہ تھی کے لانڈھی اور کورنگی کے قریب تمام ہی پولیس والے ان کو جانتے تھے اور بچ بچا کر رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ایک بار خواد انہوں نے بتایا کہ وہ کہیں جارہے تھے اور بس میں سوار تھے ایک پولیس والے کو کسی شخص سے 500 روپے لیتے دیکھا تو بس سے اتر گئے ادھر پولیس والے نے انہیں آتا دیکھا تو سٹپٹایا اور پھر دریا فت کرنے پر اس نے بتایا کہ یہ شخص میر ا رشتے دار ہے۔ انہوں نے اس شخص سے شناختی کارڈ لے کر پولیس اہلکار سے اس کے والد کا نام دیافت کیا جو وہ نہیں بتاسکا اور لی گئی رقم واپس دلو ائی۔اس قسم کے بے شمار واقعات رہے جس کے باعث ایک موقع پر پولیس نے انہیں موقع پاکر شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے ایک کان سماعت سے محروم ہوگیا مگر اس سب کے بعد بھی وہ اپنی روش سے پیچھے نہ ہٹے۔اوپر جس طرح ذکر کیا کہ مصلحت کوشی ان کی فطرت میں نہیں تھی لہذا کراچی کے فرعونوں کو بھی کسی بھی جگہ للکارنے سے بعض نہ آتے تھے اس لیے ان کی آنکھوں میں بھی ہر وقت کھٹکتے تھے۔ان کی جانب سے بھی کئی بار ان پر اور ان کے گھر پر حملے کیے گئے۔ ایک مرتبہ ان کے گھر پر حملہ ہوا۔ اگلے روز ہم پڑھنے کے لیے ان کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ ان کے دنوں صاحبزادے جن کی عمر اس وقت دس سال سے بھی کم تھی بالٹی میں پتھر جمع کرکے لارہے ہیں پوچھنے پر معلوم ہواکہ کل کے حملے میں مخالفین نے گھر پر فائرنگ کی تھی لہذا پاپا نے کہا ہے کہ پتھر بھر کے لے آئووہ دوبارہ آئیں گے تو ہم انہیں پتھروں سے جواب دیں گے اور بعد میں ایسا ہی ہو ا۔ ان کی رہائش اوپر کے فلور پر تھی حملہ آور نیچے کھڑے ہوکر فائرنگ کرنے لگے تو والد اور ننھے بیٹوں نے جواب میں پتھروں سے مقابلہ کیا۔ یہ سب بیان کردینا اور ضبط تحریر میں لے آنا بہت آسان ہے مگر عملی طور پر ان مراحل سے گزرنا بہت مشکل۔
اس سب کے ساتھ ساتھ آپ تحریک کے زبردست اور اپنی مثال آپ کارکن تھے ، حلقے میں ناظم بیت المال کی ذمہ داری ہمیشہ آپ کی ہوتی بلامبالغہ کئی سو افراد سے ماہانہ اعانت وصول کرتے اور ہزاروں روپے جمع کرتے، جس دن اعانت کا بڑا حصہ جمع کرکے لاتے ساری رقم چارپائی پر پھیلادی جاتی ،ہم بھی ان کے گھر کے بچے ہی سمجھے جاتے تھے لہذا تنویر ، کبیر اور فاطمہ کے ہمراہ ہم بھی رقم گننے میں مدد کرتے کوئی 5 کا نوٹ جمع کرتا کوئی 10 کا اس طرح پورا حساب کیا جاتا اور پھر اعانت کی رسید بک اسے اس کا موازنہ کرتے۔شاید پورے ملک میں کوئی اور کارکن ایسانہ ہو جو ہر ماہ چار ، پانچ سو معاونین سے ہر ماہ اعانت جمع کرتا ہو اور اس سلسلے میں کئی روز وہ کم و بیش تین ، چار کلو میٹر پیدل چلتے اور پورے لانڈھی میں پھیلے ہوئے اپنے معاونین سے اعانت وصول کرتے۔اس حوالے سے ایک مرتبہ آپ لانڈھی 6 مارکیٹ میں معاونین سے اعانت جمع کررہے تھے کہ برابر کی دکان پر موجود کسی مخالف قسم کے آدمی نے تضحیک کی غرض سے غالبا ایک روپے کا نوٹ دیا اور کہا کہ ہم سے بھی چندہ لے لو { یہ 90 کی دہائی کا ذکر ہے} ماسٹر صاحب نے بخوشی ایک روپیہ وصول کرکے کہا کہ اللہ تعالی کے نزدیک آدمی کی نیت اہم ہے رقم کم یا زیادہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا ساتھ میں دعادی اور فوری رسید بناکر حوالے کی ، اس نے رسید بنانے سے منع بھی کیا مگر ان کا اصرار تھا کہ جماعت اسلامی میں ایک ایک روپے کا حساب رکھا جاتا ہے لہذا رسید کے بغیر ایک پیسہ بھی وصول نہیں کرسکتااس رویے نے اسے حیرت میں ڈال دیا اور بعد ازاں وہ شخص ایک معقول رقم دینے لگا اور مستقل معاون بن گیا۔
اس کے ساتھ ساتھ ہر دور میں پبلک ایڈ کمیٹی کے ذمہ دار قرار پاتے اور سارے زمانے کا درد اپنے جگر میں لیے ہمہ وقت عوام کے درمیان ان کے ہر قسم کے مسائل کے حل کے لیے 24 گھنٹے اور ہفتے کے ساتوں دن تیار رہتے۔تھانے کچہری کا معاملہ ہو ، ہسپتال کا یا کسی خاندانی لڑائی وغیرہ کا ہر قسم کے معاملات میں لوگ ان سے رجوع کرتے اور وہ ان کے مسائل کو اپنے ذاتی کاموں پر ترجیح دیتے۔90 کی دہائی میں قائم کی گئی پبلک ایڈ کمیٹیوں میں انہیں بھی ذمہ دار مقرر کیا گیا تھا اس کے بعد جس زمانے میں پورے شہر میں یہ نظام کچھ غیر موثر ہوگیا تھا اس دور میں بھی ماسٹر صاحب تن تنہا چلتی پھرتی پبلک ایڈ کمیٹی تھے۔
جماعت کے ساتھ عشروں کی رفاقت تھی ،اوپر ذکر شدہ شخصیت کا خاکہ دلالت کرتا ہے کہ اس مزاج کے لوگ تھوڑا مشکل واقع ہوتے ہیں جنہیں نظام جماعت میں لے کر چلنا مشکل ہوجاتا ہے ایسا ہی کچھ معاملہ آپ کے حوالے میں بھی کبھی کبھی محسوس ہوتا لیکن کبھی اجتماع اور اجتماعیت کو پس پشت نہ ڈالتے اطاعت کے معاملے میں بے مثال واقع ہوئے تھے بعض گھریلو زندگی کے معاملات میں بھی امیر ضلع کوئی ہدایت دیدیتے تو اس کی پابندی کرتے۔کسی معاملے پر خفا ہوتے تو متعلقہ فورم پر بات کرتے یا باقاعدہ تحریری طور پر خط لکھ کر اظہار کرتے یا توجہ دلاتے اور اس کے بعد گویا ہونٹ سی لیتے۔ ان کی جواں سال صاحبزادی فاطمہ کا انتقال ہوا تو بعض بالائی ذمہ داران کسی وجہ سے جنازے میں شریک نہ ہوسکے اور تعزیت کے لیے حاضر نہیں ہوسکے۔ جس پر تحریری طور پر خط لکھ کر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا لیکن کام ، اجتماعا ت میں شرکت اور ذمہ داریوں کی انجام دہی میں کوئی فرق نہ آیا نہ کہیں دوبارہ اظہار کیا۔اسی طرح خود میرے معاملے میں جوکہ ان کے بچوں کی طرح اور شاگرد تھا مگر ضلعی ذمہ داری کے بعد ہمیشہ اپنا ذمہ دار قرار دیتے ،ایسی عزت سے پیش آتے جس پر مجھے خود شرمندگی سی محسوس ہوتی۔آخری بار بھی ایک مہم کے موقع پر مختلف کیمپوں کا دورہ کرتے ہوئے لانڈھی 6 کے کیمپ پر پہنچا جہاں آپ بھی موجود تھے بڑی محبت دی میں نے مختصر گفتگو کی اور اجازت چاہی تو کہا آپ ہمارے ذمہ دار ہیں بغیر خدمت کے کیسے جانے دے سکتے ہیں۔میں نے آگے دیگر کیمپوں پر جانے کا عذر بتایا مگر محبت اور شفقت بھری سختی کے ساتھ چند منٹ مزید ٹھہرنے کی ہدایت کی اور فور ی جاکر تمام افراد کے لیے چائے لے آئے۔افراد رخصت ہوجاتے ہیں مگر ان کا کام ، ان کی خدمت ان کا صدقہ جاریہ جاری رہتا ہے ، یقینی طور پر ماجد غنی صاحب رخصت ہوگئے ایک جانب وہ اپنے نیک بچے اس تحریک کے حوالے کرکے گئے ہیں جو ان کے مشن کو لیے آگے بڑھ رہے ہیں وہیں دوسری جانب اپنی یادیں اور اپنے انمٹ نقوش والا کام بھی چھوڑ کر گئے ہیں جوکہ پیچھے رہ جانے والے افراد کے لیے مشعل راہ ہے۔اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو اپنی بے شمار رحمتیں آپ پر نازل فرمائے۔ آمین

حصہ