اکبر دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے

770

الٰہ آباد کی وجہء شہرت وہاں کا سفیدہ امرود ہے یا پھر گنگاجمنی ملاپ یعنی سنگم ، اس کے بعد دنیائے شعر و ادب کی وہ عظیم اور نامور ہستی ہے جسے اکبر الٰہ آبادی کے نام سے ساری اردو دنیا متعارف ہے اور جسے طنز و مزاح کا بابائے آدم کہا جاتا ہے ۔تعلق تو اس خاکسار کا بھی اسی تاریخی شہر الٰہ آباد سے ہے مگر یہ خاکسار آج تک خاکسار ہی رہا کبھی نامور نہ ہو سکا ۔اکبر الٰہ آبادی کے بعد بہت سارے شعرا ایسے آئے جنہوں نے دنیائے طنز و مزاح میں ہلچل مچا دی بہت سارے نام ہیں میں ان حضرات کے نام لکھ کر اپنے مضمون کو طول نہیں دینا چاہتا ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ اکبر کے بعد آنے والا کوئی بھی شاعر اکبر جیسا رنگ اختیار نہ کر سکا حالانکہ بقول شاعرـ…” ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا “مگر …”وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی” اکبر کا رنگ ہی منفرد تھا وہ جو کچھ بھی کہتے اس میں مزاح کے ساتھ بلا کا طنز ہوتا تھا۔ اکبر الٰہ آبادی کا ایک ایسا شعر جو زبان زدِ خاص و عام ہے اسی سے میں اپنی بات کا آغازکرنا چاہوں گا…
بتائیں آپ سے مرنے کے بعد کیا ہو گا
اب ذرا آپ اس مصرعے پر غور فرمائیں جو اولیٰ ہے اور جس نے قاری کے ذہن میں بے شمار خوفناک قسم کے سوالات پیدا کر دیے۔ قاری کو یقین ہے مصرعہء ثانی میں شاعرِ محترم قبر کے اندر منکر نکیر کے سوالات وجوابات ،وہاں کے خوفناک حالات اور عذاب ِقبر سے قاری کو مطلع فرما کر اس کی زندہ روح میں ایسی کھلبلی پیدا کردیں گے کہ وہ غریب زندہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو قبر کے اندر محسوس کرنے لگے گا مگر صاحب آفرین ہے اس شاعرِ باکمال اکبر الہ آبادی کو کہ اب طنز کا جو تیر وہ چلانے والا ہے وہ نیم کش نہیں جگر کے پار ہونے والا ہے…
پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہو گا
قاری کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ رہی ہو گی جو اکبر نے مصرعہء ثانی میں کہہ دی مصرعہء اولیٰ نے قاری کا جتنا خون خشک کیا تھا اس سے کہیں زیادہ خون مصرعہء ثانی نے اس کے جسم میں پیدا کر دیا ظاہر ہے پلاؤ کی لذّت اور ذائقہ میں بہت طاقت ہے۔
اکبر نے اپنے اشعار میں مشکل قوافی کا استعمال جس انداز سے کیا ہے اس کی نظیر کہیں اور مشکل سے ملتی ہے
پکالیں پیس کر دو روٹیاں تھوڑے سے جَو لانا
ہماری کیا ہے اے بھائی نہ مسٹر ہیں نہ مولانا
شیخ صاحب دیکھ کر اس مس کو ساکت ہو گئے
ماسٹر صاحب بہت کمزور تھے چت ہو گئے
اکبر 16 نومبر 1846 کو الٰہ آباد میں پیدا ہوئے.والدین نے نام رکھا سید اکبر حسین رضوی مگر بقول اقبالـ” اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے” اکبر نے اپنی دنیا اور اپنا نام خود پیدا کیا ’اکبر الٰہ آبادی‘ یہی وہ نام ہے جس نے دنیائے شعر و ادب میں وہ مقام حاصل کیا جسے حاصل کرنے کے لیے لاتعداد شاعر اور ادیب تمناّ ساتھ لیے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
گیارہ سال کی عمر سے شعر گوئی کا سلسلہ شروع ہو گیا شاعری کا آغاز غزل سے کیا۔اکبر کے استاد تھے اپنے وقت کے غزل کے بہترین شاعر وحید الٰہ آبادی اکبر کے چند غزل کے اشعار…
تشبیہ ترے چہرے کو کیا دوں گلِ تر سے
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا
عشق کے اظہار میں ہر چند رسوائی تو ہے
پر کروں کیا اب طبیعت آپ پر آئی تو ہے
چونکہ حسِّ مزاح اکبر کے مزاج کا حصّہ تھا لہٰذا اپنی سخنوری کو طنزومزاح کا پیراہن دیا اور جو بات بھی کہی ’’خدا کی قسم لا جواب کہی‘‘
ہم ایسی کُل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
مغربی ممالک نے جہاں سائنس میں بے پناہ ترقی کی وہاں آہستہ آہستہ انھوں نے لادینیت کی راہ اختیار کی اکبر نے دونوں اعمال کو فقط دو مصروں میں کس خوبصورتی سے یکجا کر دیا …
بھولتا جاتا ہے یورپ آسمانی باپ کو
بس خدا سمجھا ہے اس نے برق کو اور بھاپ کو
تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے مگر
خاتونِ خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں
علاّمہ اقبال نیـ’ ترانہء ہندی‘ لکھ کر تمام ہندوستانیوں میں بیداری کی لہر پیدا کر دی اور انہیں جتا دیا کہ تم ہندی ہو اور تمہارا وطن ہندوستان ہے پھر انہیں مسلمانوں کا خیال آیا کہ وہ تو روئے زمین پر ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں ان کی دل شکنی نہ ہو لہٰذا’ ترانہ ء ملی‘ لکھ کر دنیا کے سارے مسلمانوں کو یقین دلادیا کہ وہ مسلم ہیں اور سارا جہاں انہی کا ہے اکبر کی شوخی ٔ تحریر نے یہ موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا…
کالج میں ہو چکا جب امتحاں ہمارا
سیکھا زباں نے کہنا ہندوستاں ہمارا
رقبے کو کم سمجھ کر اکبر وہ بول اٹھے
ہندوستان کیسا سارا جہاں ہمارا
اکبر مولانا شبلی کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کرنا چاہتے تھے بات اشعار میں کہی گئی ان اشعار کی خوبی ان کے قوافی ہیں آپ ذرا غور فرمائیں…
آتا نہیں مجھ کو قبلہ قبلی ٭ بس صاف یہ ہے کہ بھائی شبلی
تکلیف اٹھاؤ آج کی رات ٭ کھانا یہیں کھاؤ آج کی رات
حاضر جو کچھ ہو دال دلیا ٭ سمجھو اسی کو پلاؤ قلیہ
اکبر کے دور میں مسلمان خواتین تو کیا غیر مسلم خواتین بھی پردے کا خیال رکھتی تھیں جب گھر سے باہر نکلتیں تو گھونگھٹ نکال لیا کرتی تھیںچونکہ حکومت انگریزوں کی تھی ان کی خواتین بے حجابانہ گھروں سے باہر پھرا کرتی تھیں اثرات تو آنے تھے لہٰذا اکبر کو کچھ مسلم بیبیاں بے پردہ کہیں نظر آ گئیں بس پھر کیا تھا اکبر کا قلم بھلا کہاں رکنے والا تھا ایسا قطعہ کہہ گئے جو امر ہوگیا۔
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہو
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
علاّمہ اقبال نے کہا تھا…
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
چونکہ اکبر اور علاّمہ کی عمروں میں تینتیس سال کا فرق ہے لہذا مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس خیال کو اکبر نے علاّمہ سے پہلے کہا ہوگا…
نہ کتابوں سے نہ کالج کے ہے در سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
اکبر آزادیِ نسواں اور بے پردگی کے سخت مخالف تھے اسی دور میں ترقی پسند خواتین اپنے کام میں مصروفِ عمل تھیں وہ اکبر کی مخالف تھیں۔ خاص طور پر لاہور سے شائع کردہ “تہذیب ِنسواں” ان سب میں پیش پیش تھا مگر اکبر ان تمام مخالفتوں کے باوجود اپنے مقصد میں ڈٹے رہے۔شاید اسی موقع پر انہوں نے کہا تھا:
اکبرؔ دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے
لیکن شہید ہو گئے بیگم کی نوج سے
اکبر انگریزوں کے دور میں پیدا ہوئے اور انگریزوں کے ہی دور میں دنیا سے رخصت ہوئے ایک وقت وہ بھی تھا جب اکبر نے فقط پندرہ سال کی عمر میں ایک ٹھیکیدار کے پاس بیس روپے ماہوار پر بطور کلرک کام کیا ،الٰہ آباد میں دریائے جمنا پر پل تعمیر ہورہا تھا وہ ٹھیکیدار اس پل کی تعمیر پر مامور تھا اور ایک دور وہ بھی تھا جب اکبر نے اپنی ذہانت سے وکالت کا امتحان پاس کیا اور وکیل ہوگئے پھر منصف ہوئے اور آخر میں سیشن جج کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ، انگریزوں نے ’’خان بہادر‘‘ کے خطاب سے نوازا ،الٰہ آباد میں شہر کے درمیان ایک شاندار کوٹھیـ’’ عشرت منزل ‘‘میں ان کی رہائش تھی’’ عشرت منزل ‘‘اکبر کے صاحب زادے عشرت کے نام سے منسوب تھی یہ وہی عشرت ہیں جنہیں اکبر نے بغرضِ تعلیم انگلستان بھیجا تھا ایک مرتبہ عشرت نے خط کا جواب لکھنے میں تاخیر کی تو اکبر نے ساتھ یہ قطعہ بھی لکھ دیا…
عشرتی گھر کی محبت کا مزا بھول گئے
کھا کے لندن کی ہوا عہدِ وفا بھول گئے
پہنچے ہوٹل میں تو پھر عید کی پروا نہ رہی
کیک کو چکھ کے سوئیوں کا مزہ بھول گئے
موم کی پتلیوں پر ایسی طبیعت پگھلی
چمنِ ہند کی پریوں کی ادا بھول گئے
مرزا غالب کی طرح اکبر کو بھی آم بہت پسند تھے، آم کسے پسند نہیں ہے، مجھے بھی آم بہت پسند ہے مگر افسوس کہ میں شاعر نہیں ہوں ورنہ میں بھی آم کی تعریف میں کوئی قصیدہ لکھ کر ادبی حلقوں میں مشہور ہو جاتا۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ اکبر کو آم بہت پسند تھے لہٰذا انہوں نے اپنے ایک بے تکلف دوست منشی نثار حسین مہتمم ’’پیامِ یار‘‘ لکھنو کو منظوم خط لکھ کر آموں کی فرمائش اس طرح کی…
نامہ کوئی نہ یار کا پیغام بھیجئے
اس فصل میں جو بھیجئے بس آم بھیجئے
ایسے ضرور ہوں کہ انہیں رکھ کے کھا سکوں
پختہ اگر ہوں بیس تو دس خام بھیجئے
معلوم ہی ہے آپ کو بندے کا ایڈریس
سیدھے الٰہ آباد مرے نام بھیجئے
ایسا نہ ہو کہ آپ یہ لکھیں جواب میں
تعمیل ہو گی پہلے مگر دام بھیجئے

حصہ