حصول علم کا مقصد

1492

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر محمد علی جناح اپنی شہرہ آفاق وکالت کی خدمات کسی بہترین ادارے کے لیے وقف کرتے تو اس کے عوض یقینا انہیں دنیا کی تمام آسائشیں میسر ہوتیں‘ مگر پھر میں اور آپ کسی صاحبِ بہادر کی فائلیں لانے لے جانے پر مامور ہوتے۔ اگر ایڈیسن نوکری حاصل کرنے کے لیے تعلیم حاصل کرتا تو آج روشنیاں کئی گھر جلا چکی ہوتی۔ دنیا کے چند تحقیق پسند طلباء نے دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا کیوں کہ ان کی نظر میں علم حاصل کرنے کا مقصد ان کی ذات نہ تھی بلکہ ان کی ذات کا مقصد علم حاصل کرنا تھا۔ موضوع کو جاری رکھنے سے پہلے ذرا سی توجہ مرکوز فرما کے دو طرح کے جملوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ پہلا جملہ یہ ہے کہ ایک طالب علم کو پروفیسر بننے کا شوق ہے وہ اسی لیے پڑھتا ہے جب کہ دوسرا جملہ یہ ہے کہ ایک طالب علم کو پڑھنے کا شوق ہے وہ اس لیے پروفیسر بنے گا۔ یہ ایک عام سی بات نہیں ہے‘ بلکہ بہت ہی خاص بات ہے اور صرف بات نہیں ہے بلکہ ایک المیہ ہے اور المیہ بھی ہمارے اپنے معاشرے کا ہے جہاں تعلیم کا ہدف چند جزوی اشیا کے حصول تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ا ور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے طلباء پر ان کی صلاحیتوں خو جانچے بغیر توقعات کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے اور یوں وہ اپنے مستقبل کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بجائے دوسروں کی آنکھوں سے دیکھنے لگتے ہیں۔ اس کا آغاز بچپن سے ہی شروع ہو جاتا ہے جب ایک تخلیقی ذہن کے حامل بچے کو کسی مخصوص عہدے کے حصول کے لیے تعلیمی کوششوں کا پابند کر دیا جاتا ہے پھر وہ طالب علم اپنے مضامین پڑھتا تو ہے مگر مضامین سمجھنے کے لیے نہیں بلکہ عہدے کے حصول کے لیے یہی وجہ ہے کہ اسے حساب‘ جغرافیہ‘ کیمیا اور حیاتیات کی سمجھ تو آتی ہے مگر امتحانی پرچوں میں نمایاں نمبر لینے کی حد تک اور میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ یہ ایک معمولی بات نہیں ہے کیوں کہ ہم ایسا کرکے آنے والی نسلوں خو ایک تخلیق کار سے محروم کر دیتے ہیں۔ آپ آج ہی کسی اسکول کا دورہ کریں اور طلباء سے ان کے اسباق پڑھنے کی وجہ دریافت کریں‘ وہ آپ کو اس کے جواب میںرٹے رٹائے جملے دہراتے ملیںگے۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاںذہانت اور لیاقت پرکھنے کے پیمانے بھی وجود میں آچکے ہیں اور ان پیمانوں پر رویا جائے یا ہنسا جائے یہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔
ملاحظہ ہو کہ سائنس کے مضامین پڑھنے والوں کو ہونہار سمجھا جاتا ہے جب کہ کلاس میں سب سے نالائق بچہ وہ تصور کیا جاتا ہے جو فنونِ لطیفہ میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ہے ناں عجیب بات؟ یعنی اگر لیاقت کا پیمانہ صرف سائنسی علوم کا حصول ہے تو دیگر شعربہ ہائے زندگی میں کامیاب ترین لوگ کس زمرے میں آئیں گے؟ کلینک کے دروازے پر لکھے کسی خط کے الفاظ کیا کسی آرٹ کا نمونہ نہیں؟ ہم میں سے کئی ایک کمال کے ذہین لوگ محض اسی سبب عملی میدان میں قدم رکھنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں کیوں کہ انہیں اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کا کبھی موقع ہی نہیں مل پاتا اور یہ مواقع کوئی دوسرا نہیں بلکہ استاد اور والدین ہی مہیا کرتے ہیں مگر ہم اپنے کسی باصلاحیت بچے کو اپنی چاہت کی زنجیروں میں جکڑ کر اس کی وہ خداداد صلاحیتیں بھی سلب کر لیتے ہیں جس کا استعمال کرکے وہ اپنی پہچان بنانے کا اہل ہوتا ہے‘ کسی بچے کو متاثر کرنے اور ہمت دلانے کے لیے ایک کامیاب انسان کو بطور نمونہ پیش کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور نہ ہی کسی شعبے کی طرف توجہ دلانے میں کوئی عار ہے مگر کسی کی صلاحیتوں کے برعکس اس پر توقعات کا بوجھ ڈالنا سراسر ناانصافی ہے۔ کئی طلباء ہیں جنہیں شماریات کے مضمون میں دلچسپی ہے مگر وہ انجینئرنگ اس لیے پڑھ رہے ہیں کہ ان کے ماموں کا لڑکا کسی فرم میں بہ حیثیت انجینئر ملازم ہے۔ اب آپ فیصلہ کریں کہ ایک بہترین اکائونٹنٹ اگر انجینئر بن جائے تو کیا یہ وقت‘ تعلیم اور کیریئر کے ساتھ انصاف ہوگا؟ اوروہ بھی صرف اس لیے کہ اس سے وابستہ کسی شخص کے نزدیک اکائونٹس پڑھنا کند ذہن لوگوں کا مشغلہ ہے۔ یہ ناانصافی صرف ایک بچے کے ساتھ نہیں بلکہ اس کے مستسقبل کے ساتھ گردانی جائے گی اور یہ غلط نہ ہوگا کہ یہ ناانصافی پورے معاشرے میں اثر انداز ہوتی ہے۔
آپ سمیت ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم طلباء کو یہ سمجھائیں کہ جستجوئے علم کسی عہدے کے حصول کا نام نہیں اور نہ ہی اس کا مقصد کسی فرد واحد کو اس کے خاندان میں نمایاں کرنا ہے اور نہ ہی اس کا حصول پیسہ‘ ملازمت‘شہرت یا اس طرح کی کوئی جزوی شے سے وابستہ ہے‘ بلکہ علم تو انسان کو فائدہ پہنچانا سکھاتی ہے‘ پھر وہ چاہے ایک ڈاکٹر کی صورت میں ہو یا کسی جید عالم دین کی صورت میں‘ کسی پائلٹ کی صورت میں ہو یا کسی انجینئر کی صورت میں‘ پروفیسر ہو یا ریاضی دان‘ اکائونٹنٹ ہو یا سائنس دان۔ ہر وہ شخص قابل عزت اور قابل تقلید ہے جو انسانیت کے فائدے کے لیے کام کرتا ہو اور اپنے علم کی بنیاد پر اپنے معاشرے اور انسانوں میں آسانیاں تقسیم کرتا ہو۔ اگر نظریہ درست ہو تو سارے رستے سیدھے ہو جاتے ہیں پھر آپ کو یہ نہیں بتانا پڑتا کہ یہ کتاب کیوں اور کتنے ذوق سے پڑھنی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروںمیں صبح سے شام تک پڑھنے کی ترغیب دی جاتی ہے مگر اس کے برعکس تعلیم کے حقیقی مقاصد سے نابلد رکھا جاتا ہے اور اگر کسی کو بتا بھی دیا جائے کہ تعلیم کا مقصد کیا ہے تو جناب یہ بتایا جاتا ہے کہ پڑھو گے تو اچھی نوکری ملے گی اور اچھی نوکری ملے گی تو اچھی آمدنی ہوگی تو پورے خاندان میں واہ واہ ہوگی‘ لوگوں میں چرچا ہوگا اور سب ادب سے سلام کریں گے۔ اب آپ بتائیں کہ بھلا ان سودوں کے متحمل بچے حقیقی زندگی میں اگرپڑھ لکھ بھی گئے تو بھلا وہ حقیقی معاملات میں رہ کر کس حد تک مطمئن ہوں گے اور اگر وہ اپنی ذات کی حد تک کامیاب ہو بھی گئے تو آپ بتائیں کہ معاشرے کو ایک مسیحا کہاں سے ملے گا؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اپنے طلباء کو واضح طور پر سمجھا دینا چاہیے کہ آمدن کا حصول اور علم کا حصول دو یکسر مختلف راستے ہیں‘ آمدن حاصل کرنے کے ایسے بے شمار ذرائع ہیں جو کہ جائز بھی ہیں اور قابل عمل بھی جب کہ علم کا حصول سراسر ایک عبادت ہے جس کا حاصل مقصد خدمتِ انسانی ہے۔ ہم اس تناظر میں اگر کسی بھی علمی شخصیت کو دیکھیں تو ہمیں ایک واضح رہنمائی ملے گی۔
دوسری طرف تعلیمی میدان میں غیر ضروری تقابل بھی ایک لائقِ سرزنش عمل ہے جس کی وجہ سے کئی طلباء بے راہروی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ فلاں کی پہلی اور فلاں کی دوسری پوزیشن کا بخار اکثر طلباء کو حصول علم سے زیادہ دبائو کی کیفیت میں مبتلا رکھتا ہے‘ علم کا حقیقی حصول تقابلی طرز سے بالکل مبرا ہوتا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہاں تو تعلیمی کیرئر کا بھی باقاعدہ تقابل کیا جاتا ہے کہ رواں عرصے میں معاشی حالات کی رُو سے ایک انجینئر زیادہ کامیاب ہے یا ایک ڈاکٹر‘ ایک پروفیسر زیادہ پیسے کما لیتا ہے یا بینک منیجر اور انہی کھوکھلے اصولوں پر نئی نسل یہ طے کرتی ہے کہ انہوں نے کس مضمون کو پڑھنا ہے‘ کیا یہ قابل افسوس بات نہیں؟ ایسا تو ایک کاروبار میں سوچا جاتا ہے کہ فلاں کام میں کتنا نفع ہے اور فلاں کام میں کتنا نقصان؟ تعلیم تو ایک نور ہے جس میں بنی نوع انسان کے لیے نفع ہی نفع ہے۔ بشرطیکہ کوئی اس کے مفہوم سے آشنا ہو۔ تعلیم تو ایک ایسا ذریعہ ہے انسانی خدمت کا‘ بھلائی کا ترقی کا اور معاشرے کو سنوارنے کا اور اس رستے پر چلنے والا ہمیشہ سرخرو ہوتا ہے۔

حصہ