شاہین برلاس کی شاعری مشرقی تہذیب کی علم بردار ہے،پروفیسر شاداب احسانی

شاہین برلاس کی شاعری مشرقی تہذیب و تمدن کی آئینہ دار ہے انہوں نے اپنے کلام میں غمِ جاناں اور غمِ دوراں کے روّیوں کو برتا ہے۔ ان کے یہاں غزل کے روایتی مضامین کے علاوہ جدید لفظیات اور نئے نئے استعارے نظر آرہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے بہادر یار اکیڈمی کے تعاون سے مکتبہ حیدری کے زیر اہتمام شاہین برلاس کے پہلے شعری مجموعہ ’’لمحۂ خیال‘‘ کی تقریبِ پزیرائی میں بہ حیثیت صدر محفل اپنے خطاب میں کیا۔ تقریب کے مہمان خصوصی پروفیسر انیس زیدی نے کہا کہ شاہین برلاس کی شاعری ان کی خداداد صلاحیتوں کی مظہر ہے اس میں گہرائی اور گیرائی نظر آتی ہے۔ پروفیسر خورشید ہاشمی نے کہا کہ شاہین برلاس کی شاعری لطیف جذبوں کا اظہار ہے‘ ان کے الفاظ کی بُنت اچھی ہے‘ سہل ممتنع میں بھی ان کے اشعار موجود ہیں۔ پروفیسر فرحت عظیم نے کہا کہ شاہین برلاس نے زندگی کے تجربات لکھے ہیں‘ نسائی مسائل بھی ان کے یہاں نظر آتے ہیں۔ تقریب کے میزبان ندیم ہاشمی نے کہا کہ شاہین برلاس دیارِ غیر میں رہ کر بھی اپنی مشرقی روایات کی پاسداری کر رہی ہیں ان کے یہاں تمام شعری محاسن نظر آتے ہیں۔ مکتبہ حیدری کے ناصر العظیم نے کہا کہ شاہین برلاس ایک خوش فکر شاعرہ ہیں۔ عبدالصمد تاجی نے کہا کہ یاسین برلاس ایک جواں فکر شاعرہ کے طور پر اپنی شناخت رکھتی ہیں پاکستانیت ان کے اشعار کا محور ہے انہوں نے اپنے اشعار میںجدید استعارے اور جدید لفظیات کا استعمال کیا ہے۔ ان کی شاعری میں تہہ در تہہ عطم و فکر آگہی کے در کھلے نظر آتے ہیں یہ سات سمندر پار مقیم ہیں لیکن ان کا دل پاکستانیوں کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ بہادر یار جنگ اکادمی کے سید صبیح الدین حسینی نے شرکائے محفل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ شعر و سخن کی ترویج و اشاعت ہمارے منشور کا حصہ ہے۔ تقریب میں انس مرزا برلاس نے تلاوت کلامِ مجید کی سعادت حاصل کی جب کہ اُم حبیبہ نے نعت رسولؐ پیش کی۔ تقریب میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی جن میں سید عبدالباسط‘ اقبال فاروقی‘ جلیس سلاسل‘ جنید راجپوت‘ غلام مصطفی بھی شامل تھے۔

حصہ