ایک میئر کا خواب ،تقسیم اسکوائر مسجد کا افتتاح

268

29 مئی کو ’’اریسٹ حامد میر‘‘ کے عنوان سے چلنے والا ٹوئٹر ٹرینڈ ’’جنرل رانی‘‘ اور پھر ’’حامدمیر‘‘ تک اور31 مئی کو ’’جیو اکسپلائیڈ حامد میر‘‘ پھر ’’بلوچستان حامد میرکے ساتھ‘‘ تک گیا۔
حامد میر نے اپنے آفیشل فیس بک پیج سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ ’’جو دوست خطرات مول لے کر میرے ساتھ یک جہتی کا اظہار کر رہے ہیں میں اُن سب کا شکرگزار ہوں اور سب کے لیے دعا گو ہوں آئیے سب مل کر دعا کریں کہ ہمارے وطن میں آئین اور قانون کی حکمرانی قائم ہو جائے‘ کوئی طاقت ور قانون کو اپنی لونڈی بنا کر ظلم و زیادتی کی نئی داستانیں رقم نہ کر پائے۔‘‘
اسی طرح اپنے آفیشل ٹوئٹر اکائونٹ پر انہوں نے نئی دہلی سے چلنے والی ایک بھارتی نیوز ویب سائٹ کے لیے لکھی گئی اپنی تازہ تحریر کا لنک شیئر کیا۔ ظاہر ہے اس تحریر میں انہوں نے اپنے اوپر مبینہ زیادتیوں بشمول قاتلانہ حملوں کا ذکر کیا ہے ’’بہت کچھ بولنے‘‘ کے جرم میں، مگر انہوں نے کہا ہے کہ وہ پاکستان نہیں چھوڑیں گے۔
حامد میر نے اپنی تحریر ایسے حالات میں کسی بھی بھارتی جریدے یا ادارے کو کیوں دی؟ اس کا جواب تو وہ خود ہی دیںگے مگر اس عمل نے ان کے خلاف جاری مہم پر ضرور اثرات ڈالے ہیں۔ حامد میر کا کیس سماجی میڈیا پر ڈسکس ہونے والا ایک ایسا اسپیشل کیس بنا جس کی خوب صورت مثال مطیع اللہ جان کی ایک وڈیوکلپ سے سمجھ آیا۔ مطیع اللہ نے اسلام آباد ڈی چوک میں حامد میرکے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر پرویز شوکت کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کے شرکا سے ہلکی پھلکی گپ شپ کی۔ احتجاج میں شریک افراد کے ساتھ ہلکی پھلکی گفتگو میں یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ اِس مظاہرے میں اکثریت اُن لوگوں کی تھی جو نہ تو صحافی تھے اور نہ ہی ان کو اصل ایشو کا علم تھا۔ اس میں ’’جنرل رانی‘‘ والا کلپ خاصا وائرل رہا۔ گو کہ اس کا آغاز تو وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے بی بی سی کو دیے گئے بیان کی وجہ سے ہوا۔ مطلب اسد طور کیس چنگاری تھا تو اس کو پھر مزید ایک ایک کر کے بیانات کی ہوا دی گئی۔
صحافیوں کے احتجاج میں حامد میر کی تقریر کو اصولاً تو ٹھنڈے پیٹ برداشت کرلینا چاہیے تھا کیوں کہ بہرحال پاکستان کی حقیقی سیاسی جماعتیں تو یہ باتیں پہلے سے کرتی آ رہی ہیں‘ حامد میر نے کوئی بڑا نیا انکشاف نہیں کیا تھا۔ انہوں نے پرویز مشرف کے حوالے سے جو بھی یادیں تازہ کیں ، سب آن ریکارڈ ہیں کہ کئی دینی اور سیاسی جماعتیں پہلے سے یہ سب باتیں ببانگ دہل اپنے جلسوںمیں کہتی آئی ہیں۔ جیو نیوز کی جانب سے حامد میر کو ’’غیر معینہ مدت تک چھٹی‘‘ پر بھیجنا بھی اِس کے بعد زیر بحث آیا۔
دوسری جانب حامد میر کو بھی ٹارگٹ کر کے ان کے والد، بنگلہ دیش میں ایوارڈ لینے والی تصاویر اور کئی پلانٹڈ وڈیوز پوسٹیں بنا کر ڈالی گئیں۔ ایک نے تو حامد میرکا خاندانی شجرہ میرصادق سے جا کر ملا دیا‘ اس پر خاصی بات ہوتی رہی کیوں کہ عوام کو تو کھیلنے کے لیے جھنجھنا چاہیے۔ عوام کی اکثریت کو اس بات پر شدید رنج و غصہ تھا کہ کیوں ’’پاک فوج کے اہم ترین خفیہ ونگ آئی ایس آئی پر بات کی گئی؟‘‘ سوشل میڈیا پر متعدد متحرک صحافیوں نے اپنے سوشل میڈیا پر خوب اظہار خیال کیا۔ بہر حال اس میں بھی ایک واضح تقسیم نظر آئی۔
عدیل وڑائچ اسلام آباد میںمقیم سینئر صحافی ہیںاپنی ٹوئٹس میں لکھتے ہیںکہ ’’بڑے چینل کے اہم ذرائع نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ یہ فیصلہ اس لیے خود کرنا پڑا کہ کسی ملازم کے ریاست اور ریاستی اداروں سے متعلق ایسے رویے کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا، آخر کوئی حد ہوتی ہے۔ وقت بھی کتنا ظالم ہے، یو ٹیوبرز کو گالیاں دینے والے اب خود یو ٹیوبرز بنیں گے۔ صحافی نہ تو مقدس گائے ہیں نہ ہی ریاست پاکستان سے بڑی چیز ہیں، ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور یہ حد آئین پاکستان نے متعین کی ہے۔ جہاں تک بات ہے عالمی سطح پر خبر کی یہ ممالک پاکستان سے جو چاہتے ہیں خود اپنے ممالک میں نہیں ہونے دیتے۔‘‘
فاروق عادل لکھتے ہیں کہ ’’اسد علی طور کے ساتھ یک جہتی کے مظاہرے کے دوران حامد میر نے خفگی کے عالم میں جو گفتگو کی، وہ معمولی نہ تھی۔ حامد میر کے انداز گفتگو پر بحث ہو سکتی ہے کہ انھیں یہ لب و لہجہ اختیار کرنا چاہیے تھا یا نہیں‘ لیکن یہ امر قابل فہم ہے کہ صحافیوں کے ساتھ مسلسل پیش آنے والے تشدد کے واقعات کے پس منظر میں ٹھنڈے سے ٹھنڈا مزاج رکھنے والا شخص بھی جذبات کی آندھی کا شکار ہو سکتا ہے۔ اب تازہ واقعہ یہ ہوا ہے کہ انھیں آف ائر کر دیا گیا ہے۔ کیا اس پابندی کے ذریعے وہ مقاصد حاصل کیے جا سکیں گے جو پیش نظر رہے ہوں گے؟ حامد میر ماضی میں بھی ایسی پابندیوں کا سامنا کر چکے ہیں اور ایسے مواقع پر انھوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور آزادیِ ٔ صحافت کا علم بلند کیے رکھا جس سے انھیں عوامی مقبولیت بھی ملی اور حکمرانوں کو پیچھے ہٹتے ہوئے پابندیاں بھی اٹھانی پڑیں۔
حامد میر کے خلاف کارروائی اتنی ہی ناگزیر تھی تو بہتر یہ ہوتا کہ ان کے خلاف مقدمہ قائم کر کے ان سے کہا جاتا کہ الزام ثابت کیے جائیں لیکن ایسا نہیں ہوا‘ جس سے عمومی تاثر یہی پیدا ہوا کہ معاملات اس سے کہیں بڑے ہیں جیسے دکھائی دے رہے ہیں۔ لوگ ان واقعات کو کسی بڑی تبدیلی کے نکتۂ آغاز کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
ترکی میں ایک بار پھر غازی پارک میں نماز جمعہ کے ساتھ مسجد کے افتتاح پر اس ہفتہ سوشل میڈیا پر زبردست شور اُٹھا ’’تقسیم جامی‘‘ کا ٹرینڈ بھی بنا۔
بی بی سی اور دی گارجین نے اپنی پالیسی کے مطابق ’’متنازع مسجد‘‘ کی سرخی لگائی۔ ترکی سے ڈاکٹر فرقان حمید نے ہمیں اس جانب اپنے کالم سے متوجہ کیا۔ ترکی کے مرکزی شہر استنبول میں گزشتہ سال ’آیا صوفیہ ‘ کی بہ طور مسجد بحالی کے بعد ’کارائے میوزیم‘ کو بھی بطور مسجد بحال کیا گیا تھا جو ہزار سال قبل آرتھو ڈوکس چرچ کے کھاتے میں درج تھا۔
بہت شور اٹھا مگر عوامی پسندیدگی میں سب ڈوب گیا۔ اب باری آئی مزید قدم بڑھانے کی تو استنبول ہی کے ایک مرکزی مشہور سیاحتی و تاریخی علاقے تقسیم اسکوائر میں غازی پارک میں ایک شاندار نئی مسجد تعمیر کر ادی گئی۔ یہ علاقہ 20 ویں صدی سے تعلق رکھنے والی ایک قدیم خستہ حال مسجدکی مسماری کے بعد سے مسجد سے محروم تھا۔
برسر اقتدار آنے والی تمام سیاسی جماعتوں کی کوشش کے باوجود یہاں پرکوئی مسجد بھی تعمیر نہ کی جاسکی۔ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان اس مرکزی علاقے میں نماز جمعہ کے لیے جب جمع ہو تے اور سڑکوں اور گلیوں میں نماز جمعہ ادا کرتے، لیکن سیکولر حکومتوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی۔ اس مسئلے کو جان بوجھ کر نظر انداز کردیا جاتا تاکہ مذہبی رجحان رکھنے والے افراد کو جمہوریہ ترکی کے اس جدید علاقے سے دور رکھا جاسکے اور یہ تمام حکومتیں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنے زیر اثر سیکولر عدلیہ کا سہارا لینے سے گریز نہ کرتیں۔
ٹرینڈ کے دوران صدر اردوان کی 26 سال پرانی ایک وڈیو شیئر ہوئی جب وہ استنبول کے میئر بنے تھے اور انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ یہاں ایک شاندار مسجد ضرور بنائیں گے۔ انہوں نے استنبول تقسیم اسکوائر کی جامع مسجد کے بارے میں جو منصوبہ، جو خواب تیار کیا تھا اُسے بہترین انداز سے انجام تک پہنچادیا۔ مخالفین نے خوب شور مچایا کہ اس طرح ترکی کی سیکولر شناخت ختم کی جا رہی ہے مگر کون سنتا ہے اب ان آوازوں کو۔
چار ہزار افراد کی گنجائش رکھنے والی اس مسجد میں تین منزلہ کار پارکنگ ، نمائشی ہال، کانفرنس ہال، لنگر خانہ اور ڈیجیٹل اسلامک لائبریری بھی موجود ہے۔ مسجد کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی رہیں جو بتا رہی تھیں کہ یہ واقعی ایک ایسے انسان کی قوتِ فیصلہ ہے جو دین کو اس کی روح کے مطابق نافذ کرنا چاہتا ہے‘ جو تاریخی ترک ڈرامے اردوان کی حکومت اپنی عوام بالخصوص و بالعموم پوری دنیا کو دِکھا رہی ہے اُس کے ساتھ واقعی اس قسم کے اقدامات ہی نا گزیر ہیں۔

حصہ